ٹیسٹ ٹیوب بے بی

سوال : ایک مسلم جوڑا جس کو کچھ طبعی موانعات کی بناء اولاد نہیں ہورہی ہے، اسکے ماہرین اطباء کا کہنا یہ ہے کہ بیرونی طور پر نلکی کے اندر شوہر و بیوی کے مادہ منویہ کی طبی قواعد کے مطابق پرورش کر کے بیوی کے رحم میں داخل کرنے سے اولاد ہوسکتی ہے۔ ان حالات میں کیا اس طریقہ تحقیق سے شرعاً استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
محمد منیر احمد، مراد نگر
جواب : طبعی و فطری طریقہ کے مطابق استقرار حمل میں کچھ موانعات ہوں اور کوئی دیندار طبیب حاذق بھی اس کی تصدیق کردے تو ایسی صورت میں مذکورہ در سوال طبی طریقہ تحقیق سے استفادہ شرعاً جائز ہے۔ بشرطیکہ میاں ، بیوی کے ہی مادہ منویہ کی بیرونی طور پر نلکی کے اندر پرورش کرنے کا تیقن حاصل ہوجائے۔

پیامات سنٹر کی کمائی
سوال : ایک خاتون اپنے مکان پر بنام ’’ پیامات سنٹر‘‘ ایک ادارہ چلاتی ہے، جس سے ضرورت مند اصحاب رجوع ہوتے ہیں اور وہ خاتون رشتوں کے جوڑنے میں مدد کرتی ہے ۔ دونوں فریق سے بات چیت و ملاقات کے ضمن میں آمد و رفت کے اخراجات کے علاوہ محنت اور وقت بھی صرف ہوتا ہے، نیز مکانات و زمینات کی خرید و فروخت میں بھی وہ رہنمائی کرتی ہے اور اپنا وقت و سرمایہ صرف کرتی ہے ۔ ان امور کی انجام دہی سے اس کو کچھ رقمی معاوضہ حاصل ہوتا ہے ۔ شرعاً اس کا حصول جائز ہے یا نہیں ؟
مقصودالرحمن، بازار گھاٹ
جواب : مذکورہ در سوال جیسے امور میں دونوں فریق کے درمیان موافقت و جوڑ پیدا کرنے کا فریضہ انجام دینے والے فرد کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ سمسار‘‘ کہتے ہیں۔ فقہاء کرام نے ’’ سمسار‘‘ کیلئے اجر مثل کو جائز قرار دیا ہے، اجر مثل سے اس جیسی خدمت پر عرفاً جو معاوضہ لیا جاتا ہے یا اس جیسی محنت پر جو معاوضہ دیا جاتا ہے وہ مراد ہے جیسا کہ عالمگیری ج 4 ص : 441 میں ہے ۔ ذکر محمد رحمۃ اللہ تعالٰی الحیلۃ فی استیجار السمسار وقال یامرہ ان یشتری لہ شیئا معلوما أو یبیع ولا یذکر لہ اجراثم یواسیہ اماھبۃ أوجزاء للعمل فیجوز ذلک بمساس الحاجۃ و اذا اخذ السمسار اجر مثلہ ھل یطیب ذلک تکلموا فیہ ۔ قال الشیخ الامام المعروف بحواھر زادہ یطیب لہ ذلک و ھکذا من غیرہ والیہ اشار محمد رحمہ اللہ تعالیٰ فی الکتاب ھکذا فی فتاوی قاضی خاں۔
شادی بیاہ کے معاملات میں عام طور پر رشتہ جوڑنے والے لین دین کی قیمت پر مقررہ کمیشن وصول کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو شرعاً جائز نہیں۔ البتہ محنت کا معاوضہ عرفاً جو ہوسکتا ہے وہ لیا جکاسکتا ہے ۔ نیز رشتہ جوڑنے میں جھوٹ سے کام نہ لیں۔
متروکہ کی 50 فیصد رقم مسجد کو دینا
سوال : میرے دوست کے والد نے آدھا ایکر زمین اپنی بیوی کے نام مہر کے عوض دی تھی ۔ ان کا انتقال ہوچکا ۔ اس کے بعد بیوی کا بھی انتقال ہوگیا ۔ان کی تین لڑکیاں اور تین لڑکے ہیں۔ لڑکیوں کا خیال ہے کہ زمین کو فروخت کر کے رقم آپس میں تقسیم کرلیں۔ لڑکوں کو زمین اور رقم میں دلچسپی نہیں ۔ ایک بھائی کا خیال ہے کہ زمین کو فروخت کر کے 50 فیصد رقم ان تین بہنوں میں تقسیم کردی جائے اور باقی 50 فیصد رقم مسجد کی تعمیر یا خیرات میں دیدی جائے ۔ شرع کی روشنی میں اس زمین کو فروخت کرنے کے بعد جو حاصل ہو کیا کیا جانا چاہئے۔
محمد کامل، محبوب نگر
جواب : مرحوم کی بیوی کے انتقال کے بعد پوری زمین ، مرحومین کا متروکہ قرار پائی۔ اس کے بعد وضع مصارف تجہیز و تکفین و ادائی قرض (اگر ہو) و اجرائی وصیت برائے غیر وارث در ثلث مابقی ، نو حصے کر کے تینوں لڑکوں کو دو دو اور تینوں لڑکیوں کو ایک ایک حصہ دیا جائے ۔ یہ ورثہ اپنا اپنا حصہ لینے کے بعد جو چاہیں کریں۔ تقسیم سے قبل پچاس فیصد زمین کی رقم مسجد میں بغیر اجازت ورثہ دینا درست نہیں۔

دوران خطبہ چھینکنے والے کا الحمد للہ کہنا
سوال : بسا اوقات جمعہ کے خطبہ دوران چھینک آجاتی ہے ، ایسے وقت میں الحمد للہ کہنا چاہئے یا نہیں جبکہ یہ بات مشہور ہے کہ خطبہ کے دوران سرکار کا نام مبارک آئے تو درود نہیں پڑھنا چاہئے۔ تو کیا چھینکنے والے پر الحمد للہ کہنا ضروری ہے یا نہیں ؟
کفایت اللہ، بارکس
جواب : جب خطیب خطبہ کے لئے نکلے تو بفحوائے حدیث شریف نہ کوئی نماز ہے اورنہ کلام کرنا ہے ۔ دوران خطبہ ہمہ تن گوش ہوکر خطبہ سننا لازم ہے۔ دوران خطبہ بات چیت حتی کہ ذکر و اذکار بھی منع ہیں اس لئے اگر کسی شخص کو خطیب کے خطبہ دیتے وقت چھینک آجائے تو اس پر شرعاً ’’ الحمد للہ ‘‘ کہنا نہیں ہے۔ تاہم صحیح قول یہی ہے کہ ایسا شخص دل میں الحمد للہ کہہ لے۔ بدائع الضائع جلد اول ص : 404 میں ہے : وأما العاطس فھل یحمد اللہ تعالیٰ ؟ فالصحیح : أنہ یقول ذلک فی نفسہ لان ذلک لمالا یشغلہ عن سماع الخطبۃ۔

نام مبارک کی تکرار پر، درود کا مکرر پڑھنا
سوال : یہ بات مشہور ہے کہ جب کبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک ذکر کیا جائے تو درود شریف پڑھنا چاہئے اور نہ پڑھنے والا بخیل ہے۔ لیکن آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ بسا اوقات ایک ہی شعر میں بار بار سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آتا ہے۔ ایک ہی محفل میں کئی مرتبہ آقا علیہ السلام کا نام آتا ہے کیا ہر دفعہ درود شریف پڑھنا ہوگا یا اس کے علحدہ احکامات ہیں ؟
مدثر نظامی، کریم نگر
جواب : امام طحاوی رحمتہ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کے سننے پر درود پڑھنے کو واجب قرار دیا ۔ دیگر فقہاء نے ایک مرتبہ درود پر اکتفاء کرنا جائز بتایا ہے اور قنیہ میں مذکور ہے کہ فتوی دوسرے قول پر ہے یعنی ایک مجلس میں متعدد مرتبہ نام مبارک سنے تو ایک مرتبہ درود پر اکتفاء کرنا مفتی بہ قول ہے۔ تاہم ابوالحسنات علامہ محمد عبدالحی لکہنوی نے نفع المفتی والسائل ص : 102 میں قنیہ میں مذکور مفتی بہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: المفتی بہ والا صح ھوالاول لورود احادیث کثیرۃ دالۃ علی ذلک ۔ یعنی مفتی بہ اور صحیح ترین قول یہی ہے کہ جب بھی نام مبارک سنا جائے درود پڑھا جائے۔ ایک مجلس میں متعدد مرتبہ پڑھا جائے تو درود بھی متعدد مرتبہ پڑھا جائے کیونکہ بہت سی احادیث شریفہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔

پردہ
سوال : دیکھا یہ جارہا ہے کہ مسلم خواتین اپنے ہاتھوں آپ آفت اور بلا میں پڑ رہی ہیں۔ خواتین کی اکثریت نے آپ اپنی ایک شریعت کی بنا ڈالی ہے ۔ ہمارا اشارہ ان پردے کی دعویدار خواتین کی جانب ہے جو ہمیشہ تبدیل ہوتے رہنے والے کرایہ دار مردوں سے پردہ نہیں کرتیں۔ محلے کے نوجوان بیٹوں کی دوستی کے نام پر بے دھڑک گھر میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ کھلے بندوں گھر کے باہر نکل کر مسلم / غیر مسلم سودے والوں سے چکا چکا کر پرکھ پرکھ کر دیر تک سودا خریدتی ہیں۔ اہل محلہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ کوئی پردہ نہیں۔ دور دراز جاتے وقت برقعہ اوڑھ لیتی ہیں ۔یہ کس قسم کا پردہ ہے اور کیا اسے شرعی پردہ قرار دیتے ہوئے ان خواتین کے غرور و فخر کو قبول کیا جاسکتا ہے ؟
نعمت بیگ، مہدی پٹنم
جواب : شریعت میں عورت پر ہر غیر محرم بالغ شخص سے پردہ کرنا لازم ہے ۔ سوال میں ذکر کردہ احوال معاشرہ میں مسلم خواتین کی جانب سے کی جانے والی کوتاہی کی طرف نشاندہی ہے ۔ ہر مسلم خاتون کو مندرجہ در سوال صورتوں میں بھی پردہ کو ملحوظ رکھنا لازم ہے ۔ اگر اس میں وہ کوتاہی کریں تو عنداللہ ماخوذ ہوں گے۔ مسلم خواتین کی کما حقہ پردہ سے بے اعتنائی سے بڑے بڑے مفاسد و خرابیاں مسلم معاشرہ میں جنم لے رہی ہیں۔ اس کے سدباب کے لئے جستجو کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔
کمانے کے قابل بچوں کو نفقہ
سوال : میں وظیفہ یاب ہوں مجھے دو لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں ۔ لڑکے کمانے کے قابل ہیں اور لڑکیوں کی شادی کرنا ہے ۔ میری بیوی بہت نافرمان ہے ۔ میں اس کو بچوں کے ساتھ الگ کرنا چاہتا ہوں ۔ اسکا مہر دو دینار شرعی ہے ۔ کچھ تھوڑا سونا میں بطور مہر دیا ہوں اب کتنا مجھے دینا ہوگا ۔ کیا میں دوسری شادی کرسکتا ہوں ۔ اگر میں اس کو طلاق دیدوں تو کیا اسکا نفقہ مجھ پر لازم رہے گا ۔
محمدمصلح الدین فہیم،سعید آباد
جواب : ۱ ۔ لڑکا بالغ اور کمانے کے قابل ہے تو اس کا نفقہ باپ کے ذمہ نہیں ہے ۔ البتہ لڑکیوں کی شادی تک ان کا نفقہ باپ کے ذمہ ہے ۔ باپ وظیفہ یاب ہے تو وہ لڑکیوں کو اپنے ساتھ رکھ کر کھلاسکتا ہے ۔
۲ ۔ دو دینار شرعی مہر چھ ماشہ دو رتی سونا ہوتا ہے اسکی قیمت بوقت ادائی مہر جو ہو وہ دی جائے ۔ اگر کم دیئے ہیں تو بقیہ دیدیں ۔
۳ ۔ ہر مسلمان شخص ایک سے زائد عورتوں کے درمیان انصاف کرسکتا ہے تو چار عورتوں سے تک شادی کرنے کی اجازت ہے ۔
۴ ۔ طلاق کے بعد عدت (تین حیض) یا تین ماہ (اگر حیض نہ آتا ہو) تک نفقہ شوہر طالق پر واجب ہے ۔ اسکے بعد مطلقہ نکاح سے باہر ہوجاتی ہے ، طلاق دینے والے پر نفقہ نہیں ہے ۔

شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت کرنا
سوال : کیا مرید بننا ضروری ہے ؟ ایک صاحب ہمیشہ ہم لوگوں کو کسی کا مرید بننے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں بھی مرید بننے کی تاکید کی گئی ہے۔ کیا ان کی بات صحیح ہے ؟
عبدالمعز خان، مستعد پورہ
جواب : ارادت (مرید ہونا)در حقیقت کسی شیخ کامل کے ہاتھ پر توبہ کر کے اللہ کے قرب اور اس کی رضا کو حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرنے کا اقرار ہے ۔ مرید ہونا شرعاً واجب و فرض نہیں تاہم شیخ کامل جو قرب حق کے راستہ سے واقف ہوتا ہے مرید کو اس کے مقصود و مراد کے حصول میں پیش آنے والی رکاوٹوں سے باخبر رہتا ہے۔ اس لئے اس کی رہنمائی و نگرانی میں قرب حق کے راستہ کو طئے کرنا مستحسن ہے۔ تاکہ طالب صادق پیر و مرشد کی رہنمائی میں نفس کے مکر اور شیطان کی دسیسہ کاریوں سے محفوظ رہتے ہوئے راہِ سلوک کو طئے کرسکے۔ قرآن مجید و احادیث شریفہ میں اس کی طرف اشارات ملتے ہیں۔