ویزٹ ویزا پر عمرہ کرنے والے کیلئے احرام

سوال :   میرے بچے سعودی عرب  جدہ میں ملازمت کرتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وہاں مقیم ہیں۔ مجھے اور میری اہلیہ کو وزٹ ویزا پر بلانا چاہتے ہیں تاکہ ہم دونوں عمرہ کا شرف حاصل کرسکیں اور روضۂ مبارک کی زیارت سے سرفراز ہوں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ عمرہ کا احرام باندھنے کیلئے ہماری میقات کونسی جگہ ہوگی ۔ ہم حیدرآباد سے جدہ جارہے ہیں۔ وہ بھی وزٹ ویزا پر گو کہ عمرہ کی نیت اور ارادہ ہے  اور ہم جدہ کے مقیم بھی نہیں کہلاتے۔ شرعی احکام کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں تو مجھے اور میرے جیسے اور لوگوں کیلئے باعث رہنمائی ہوگی۔
نام …
جواب :  میقات سے باہر رہنے والے (آفاقی) کا ارادہ اگر حرم جانے کا ہو تو اسے میقات ہی سے عمرہ کا احرام باندھنا ضروری ہے اور اگر وہ (حل) میقات کے اندر کسی ایسی جگہ جو حرم کے باہر ہو جیسے خلیص جدہ وغیرہ کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے بغیر احرام میقات سے گزرنے کی اجازت ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی میقات سے متعلق ایک طویل حدیث شریف کے آخری حصہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ منقول ہے کہ فرمایا ومن کان دون ذلک فمن حیث شاء  حتی اھل مکۃ من مکۃ عمدۃ القاری 139/9 اور درمختار میں ہے۔ امالو قصد موضعا من الحل کخلیص وجدہ حل لہ مجاوزتہ بلا احرام فاذا احل بہ التحق باھلہ۔
پس صورت مسئول عنھا میں آپ نے بغرض عمرہ ملاقاتی ویزا (ویزٹ ویزا) حاصل کیا ہے اور عمرہ ہی کی نیت سے گھر سے نکل رہے ہیں تو آپ کو میقات سے پہلے ہی احرام باندھ لینا ضروری ہے اور اگر آپ کا مقصد جدہ میں آپ کے بچوں سے ملاقات ہو تو آپ احرام کے بغیر جدہ جاسکتے ہیں اور وہاں جانے کے بعد آپ عمرہ کا ارادہ کریں تو وہیں سے احرام باندھ سکتے ہیں اور ہندوستانی حجاج و معتمرین کیلئے یلملم میقات سے گزرنا ہوتا ہے اور وہ ہوائی جہاز سے سفر کے درمیان آجاتی ہے اور دوران سفر احرام باندھنا دشوار ہوتا ہے تو آپ حسب سہولت گھر سے یا ایرپورٹ پر احرام باندھ لیں اور ہوائی جہاز میں سوار ہونے کے بعد میقات کے قریب نیت کرلیں ۔ واللہ اعلم۔
لون لیکر حج کو جانا
سوال :  میرے شوہر اپنے آفس سے لون لے رہے ہیں۔ کیا ہم ان روپیوں سے حج کے لئے جاسکتے ہیں یا نہیں ؟ مشکور ہوں گی ؟
عظیمہ بیگم، ناندیڑ
جواب :  شرعاً صاحب استطاعت پر حج فرض ہے۔ صاحب استطاعت نہ ہو تو قرض لیکر حج کو جانا شرعاً لازم نہیں۔ البتہ قرض کو ادا کردینے کی سکت ہے تو قرض لیکر حج کو جاسکتے ہیں۔ آپ کے شوہر اپنے دفتر سے بلا سودی قرض لے کر اس رقم سے حج کو جانا چاہتے ہیں تو شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔

احرام کی حالت میں خوشبودار ٹیوب لگانا
سوال :   میرے والد حج کیلئے گئے ہوئے ہیں، سفر کی وجہ سے یا آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہی، مکہ پہنچنے کے بعد وہ عمرہ سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ بیمار ہوگئے۔ ان کے پاؤں اور ہاتھ میں کچھ ورم آگیا ہے ، اس کیلئے وہ ایک ٹیوب کا استعمال کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ٹیوب میں خوشبو ہے تو کیا وہ احرام کی حالت میں بھی اس ٹیوب کو لگا سکتے ہیں یا نہیں۔اگر وہ ٹیوب لگا لیں تو کیا انہیں دم یا کفارہ دینا ہوگا ؟
براہ کرم جلد سے جلد اس کا جواب عنایت فرمائیں تو مہربانی ۔ واضخ رہے کہ اس ٹیوب کا استعمال ناگزیر ہے ورنہ ورم کے بڑھ جانے کے امکانات ہیں ۔
مبشر احمد، نامپلی
جواب :  شرعاً احرام کی حالت میں خوشبو کا استعمال منع ہے ۔ البتہ ایسی دوا جو حقیقی حوشبو مثلاً مشک و عنبر نہ ہو تو اس دوا کا استعمال ازروئے شرع جائز ہے۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 2 ، کتاب الحج صفحہ : 601 مطبعہ دارالفکر بیروت میں ہے : (أو خضب رأسہ بحناء او ادھن بزیت أوخل ولو خالصین فلو اکلہ أو داوی بہ) جراحۃ أو (شقوق  رجلیہ أو اقطر فی اذنیہ لا یجب دم ولا صدقۃ) اتفاقاً (بخلاف المسک والعنبر والخالبیۃ)
لہذا احرام کی حالت میں بطور دوا استعمال کئے جانے والے ٹیوب کو لگانے میں شرعاً  کوئی مضائقہ نہیں، اس سے دم یا صدقہ لازم نہیں آتا۔

طواف کے چکر بھول جانا
سوال :  میں طواف کے بارے میں جاننا چاہتاہوں۔ اگر کوئی بھول جائے کہ اس نے کتنے چکر کئے ہیں تو وہ کیا کرے۔ جس طرح عموماً نماز میں رکعات کی تعداد بھول جاتے ہیں ۔ میں تقریباً ہر سال عمرہ کیلئے جاتا ہوں اور میں نے چار مرتبہ حج بھی کیا ہے اور عموماً مجھ کو اس طرح کا شبہ ہوجاتا ہے کہ میں نے طواف کے چکر کتنے کئے ہیں۔ ایسی صورت میں ازروئے شرع کیا حکم ہے ؟
محمد اقبال، تارناکہ
جواب :  دوران طواف آپ کو شک ہوجائے کہ آپ نے کتنے چکر کئے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ آپ اپنے ظن غالب کے مطابق عمل کریں اور اگر گمان غالب کسی ایک طرف نہ ہو تو کمی کی جانب کو اختیار کریں۔ مثلاً یہ شک ہو کہ دوسری چکر ہے یا تیسری چکر ہے تو دوسری چکر مقرر کرلیں‘ اگر پانچویں چھٹویں چکر میں شک ہو تو پانچویں مقرر کرلیں اور نماز میں بھی کسی کو شک و شبہ کی عادت ہو تو اسی طرح گمان غالب کے مطابق عمل کرنے کا حکم ہے اور اگر گمان غالب کسی ایک جانب نہ ہو تو کمی کی جانب کو اختیار کرنا ہے۔

حج کے بعض امور میں مرد و خواتین کیلئے علحدہ احکام
سوال :  حج اور عمرہ کے دوران صفا و مروہ کی سعی میں دو سبز میل ہوتے ہیں‘ ان سبز میل کے درمیان تیزی سے چلنے دوڑنے کا حکم ہے۔ کیا یہ حکم عمر رسیدہ خواتین کیلئے بھی ہے ؟ یا ان کیلئے کچھ گنجائش ہے کیونکہ میری عمر ساٹھ سال سے متجاوز ہے اور میرا وزن بھی زیادہ ہے‘ خود میرا چلنا دشوار ہے۔ ایسی حالت میں ان دوہرے میل کے درمیان میرا تیزی سے چلنا نہایت دشوار و تکلیف دہ ہے ۔ اگر آپ اس سلسلہ میں شرعی احکام سے واقف فرمائیں تو مہربانی ہوگی ؟
فاطمہ بیگم، ملک پیٹ
جواب :   حج کے ارکان و اعمال مرد و خواتین کیلئے یکساں ہے‘ تاہم چند امور میں خواتین کیلئے علحدہ احکامات ہیں۔ مثلاً مرد حضرات کو تلبیہ بہ آواز بلند پڑھنا چاہئے اور عورت ایسی آواز میں پڑھے گی کہ صرف اسی کو سنائی دے۔ اسی طرح طواف قدوم میں مرد کو رمل کرنے کا حکم ہے ‘ خواتین کو نہیں۔ نیز صفا و مروہ کی سعی کے دوران دو سبز میل کے درمیان تیزی سے دوڑنا مردوں کیلئے ہے‘ خواتین کیلئے مطلق نہیں۔ خواہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا نہ ہوں۔ اسی طرح عورتوں پر حلق نہیں ہے ‘ وہ صرف قصر (بال کم ) کریں گی ۔ عالمگیری جلد 1 ص : 235 میں ہے : ولا ترفع صوتھا بالتلبیۃ کذا فی الھدایۃ بل تسمع نفسھا لا جماع العلماء علی ذلک کذا فی التبیین ولا ترمل ولا تسعی بین المیلین ولا تحلق رأسھا ولکن تقصر۔

حج بدل بیٹا کرے یا کوئی اجنبی بھی کرسکتا ہے
سوال :   حج بدل ‘ والد مرحوم کے نام سے کرانا ہو تو خود بیٹے کو کرنا چاہئے یا کسی حاجی کو ہی اس نیک کام کیلئے بھیجنا چاہئے تاکہ صحیح ارکان و مناسک ادا کرسکے یا کوئی رشتہ دار یا جانے پہچانے کے ذریعہ حج بدل کرواسکتے ہیں ؟ جواب تک حج نہ کیا ہو۔ میرا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی حج نہ کیا ہو تو اس کا بھی حج ہوجائے گا اور حج بدل بھی ہوجائے گا‘ اس طرح میرا مقصد بھی پورا ہوگا اور ایک غریب کا فائدہ بھی ہوجائے گا۔
مقصود احمد، ملے پلی
جواب :  ایک صحابی رسول نے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میری والدہ انتقال کر گئی ہیں کیا میں ان کی طرف سے حج بدل ادا کرسکتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی ماں کی طرف سے حج بدل کرنے کی اجازت دی‘ چنانچہ محیط سرخسی ص : 119 میں ہے : ولو احج ا لوارث عنہ رجلا اوحج عن نفسہ سقط عن المیت حجۃ الاسلام ان شاء اللہ لما روی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سألہ رجل وقال ان امی ماتت ولم تحج افأ حج عنھا فقال علیہ السلام نعم
پس امام سرخسی نے مذکور الصدر کتاب میں وضاحت کی ہے کہ وارث (مثلا بیٹا) اپنے ماں باپ کی طرف سے خود حج بدل کرسکتا ہے یا کسی دوسرے سے بھی حج بدل کرواسکتا ہے اور دوسرے میں اس کے قریبی رشتہ دار اور اجنبی سب داخل ہیں۔ تاہم کسی ضرورت مند سے حج بدل کروائیں تو وہ مرحوم کی طرف سے حج بدل کی نیت کے ساتھ اپنے حج کی نیت نہیں کرسکتا‘ وہ صرف مرحوم کی طرف سے حج بدل کی نیت کریگا۔ ردالمحتار جلد 2 ص  661 مطلب شروط الحج عن ا لغیر عشرون مطبعہ دارالفکر بیروت میں ہے : الخامس عشر : أن یحرم بحجۃ واحدۃ فلوأ ھل بحجۃ عن الأمرثم باخری عن نفسہ لم یجز الا ان رفض الثانیۃ۔ البتہ آپ کے والد مرحوم فریضہ حج ادا کرچکے تھے اور آپ اب ان کے ایصال ثواب کیلئے حج کرنا چاہتے ہیں یا کسی کو کروانا چاہتے ہیں تو اسی صورت میں آپ کسی ضرورت مند کے فرض حج کا انتظام کردیں اور وہ اپنا فرض حج ادا کرے اور اس کا ثواب آپ کے والد مرحوم کیلئے ایصال کردیں تو یہ شرعاً جائز ہے ورنہ ایک ساتھ فرض حج اور حج بدل کا احرام باندھنا شرعاً درست نہیں۔ درمختار باب الحج عن ا لغیر جلد دوم میں ہے : الأصل أن کل من أتی بعبادۃ مالہ جعل ثوابھا لغیرہ وان نواھا عندالفعل لنفسہ بظاہر الادلہ واما قولہ تعالیٰ: وان لیس للانسان الا ماسعی ای الا اذا وھبہ لہ ۔ اور ردالمحتار میں قولہ : (بعبادۃ ما) کے تحت ہے: ای سواء کانت صلاۃ أوصوما أوصدقۃ أوقراء ۃ أو ذکرا أو طوافاً أو حجا أو عمرۃ أو غیر ذلک الخ۔

وتر کی قضاء
سوال :  احادیث کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی کہ رات کی آخری نماز (نماز وتر) ہے۔ نیز وتر کی نماز تہجد کی نماز کی ادائیگی کے بعد پڑھنا بہتر ہے ۔ وغیرہ وغیرہ۔ زید ا لحمد و للہ ان روایات کے علم میں آنے کے بعد نماز وتر ’’ نماز تہجد کے بعد ادا کرنے کی ممکنہ کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں مزید چند ضروری معلومات کی ضرورت آپ کی طرف رجوع ہونے کی وجہ بنی ۔ امید کہ تشفی بخش معلومات فراہم کی جاکر مشکور فرمائیں گے۔
– 1 اگر نیند سے بیدار نہ ہو اور فجر کی اذاں ہوجائے تو کیا نماز وتر کی قضاء ادا کرنا ہوگا ۔ یعنی کیا نماز وتر کی قضاء ہے ؟
– 2 نماز وتر کی ادائیگی کے دوران فجر کی اذاں سنائی دے تو کیا نماز وتر ادا ہوجائے گی ؟
– 3 دوران رمضان تراویح کے بعد مساجد میں نماز وتر باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ کیا زید کو سابق کی طرح نماز تہجد کے بعد ہی نماز وتر ادا کرنا چاہئے یا نماز تراویح کے بعد باجماعت نماز وتر ادا کرنی چاہئے ؟ کونسا عمل افضل ہوگا ؟
نام …
جواب :   فرض نماز یا واجب نماز ترک ہوجائے تو اس کی قضاء لازم ہے اور واجب الوتر کا وقت عشاء کا وقت ہے، اس لئے فجر کے وقت میں کوئی وتر ادا کرے یا وتر فوت ہوجائے تو اس کی قضاء لازم ہے۔ رمضان المبارک میں تنہا واجب الوتر پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ باجماعت ادا کی جائے تاکہ جماعت کا ثواب بھی حاصل ہوجائے۔