وہ، جو دونوں، کرتے کم ہیں بولتے زیادہ ہیں

تلنگانہ ۔ اے پی ڈائری     خیر اللہ بیگ
تلنگانہ میں حالیہ بارش اور کریم نگر میں ڈیم کی تعمیر میں ناقص کارکردگی پر برہم چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے نئے ٹنڈر طلب کئے ہیں ۔ جبکہ حکومت کے داخلی ذرائع نیشبہ ظاہر کیا کہ اس ڈیم کی تعمیر کے پیچھے وزیر آبپاشی ہریش راؤ کی سرپرستی والے کنٹراکٹرس ذمہ دار ہیں۔ حکومت میں ہریش راؤ کا مقام و مرتبہ مضبوط ہونے کی وجہ سے ان کی پسِ پردہ حرکتوں کے بارے میں کوئی بھی کھل کر اظہار خیال نہیں کرسکتا۔ ان کے مخالفین کو حکومت کے اس قدآور وزیر کے بارے میں طرح طرح کی خبریں بنانے میں مزہ آرہا ہے۔اس لئے مختلف اُمور میں پائی جانے والی خرابیوں کیلئے ہریش راؤ کو ہی ذمہ دار ٹہرانے والا گروپ ٹی آر ایس کی ایم پی کے کویتا کی ہریش راؤ کی شان میں کی گئی مداح سرائی پر بھی حیرت کا اظہار کررہا ہے۔ کویتا نے ہریش راؤ کو ٹی آر ایس حکومت کا واحد لیڈر قرار دیا ہے جو دل اور روح سے اپنا کام انجام دیتے ہیں۔ ان کی وزارت کی کارکردگی پرکوئی بھی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ نظام آباد ایم پی کلوا کنٹلہ کویتا نے برسرِ عام ہریش راؤ کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا اور انہیں حکومت کا مرد آہن بھی قرار دیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹی آر ایس میں گروپ بندیوں کو بہت جلد ہوا دی جانے والی ہے۔ ایک طرف باپ بیٹے ہوں گے، دوسری طرف ہریش راؤ کا گروپ اور ان کے حامیوں کا ٹولہ ہوگا۔ ٹی آر ایس کے دو گروپ مل کر تلنگانہ کے علاقے بھی اپنے اپنے لئے بانٹ لیں گے۔ اضلاع کی تشکیل کیلئے چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کی پھرتی اور دلچسپی کو دیکھ کر قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ یہ لیڈران اپنے اپنے حصہ کے اضلاع میں خود کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔

ہریش راؤ کی خوبیوں کے کئی ٹی آر ایس قائدین بھی معترف ہیں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے فرزند کے ٹی راما راؤ کے برعکس ہریش راؤ قول و فعل میں کھرے ہیں جبکہ دونوں باپ بیٹے کرتے کم ہیں اور بولتے زیادہ ہیں۔ کویتا کے بارے میں باہر عوام کا خیال ہے کہ وہ حکومت میں ہریش راؤ کی شدید مخالف ہیں مگر برسر عام انہوں نے ہریش راؤ کی تعریف کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ ماضی میں کے ٹی راما راؤ اور کویتا کو اپنے والد کے سی آر کے طریقہ کار پر اعتراض تھا اور ہریش راؤ کو زیادہ اہمیت دینے پر اندرونی طور پر مخالفت کرتے تھے لیکن اب ان دونوں بھائی بہن نے ہریش راؤ کے بارے میں اپنی رائے بدل دی ہے۔ اگرچیکہ کے ٹی آر کو کے سی آر کا غیر معلنہ سیاسی وارث قرار دیا جاچکا ہے مگر حالیہ بارش اور چیف منسٹر کے فضائی سروے، اضلاع کی تشکیل کے اعلان کے ساتھ جو تجربات ہوئے ہیں اس سے پھوٹ پڑنے والے نتائج کا بہت جلد پتہ چل سکتا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر کو اضلاع میں غیر معمولی دلچسپی دکھائی دے رہی ہے۔ ان کی نظر میں تلنگانہ کے تاریخی دارالحکومت حیدرآباد کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ حیدرآباد میں صرف خرچ ہی خرچ ہیں، اس شہر سے آمدنی لے کر وہ اضلاع میں خرچ کریں گے۔ حیدرآباد میں رئیل اسٹیٹ کا رجحان بھی چیف منسٹر کے لئے دلچسپی کا باعث نہیں ہے کیونکہ حیدرآباد میں اراضیات کی قیمتیں پہلے ہی سے آسمان چھورہی ہیں لہذا یہاں آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے۔ اضلاع میں خاصکر نئے اضلاع میں زمینات سے زبردست منافع حاصل کیا جاسکتا ہے اس لئے جب بھی نئے اضلاع کی تشکیل کے لئے جائزہ اجلاس منعقد ہوتا ہے، چیف منسٹر ان اضلاع میں اراضیات کی قیمتوں کے بارے میں متعلقہ کلکٹرس سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔

ابتداء میں اقتدار حاصل ہونے کی خوشی میں انہوں نے حیدرآباد کے تعلق سے کئی خوش کن اعلانات کئے، حیدرآباد جی ایچ ایم سی کے سی آر کی ترجیحی فہرست میں ہوتے تھے لیکن جب سے جی ایچ ایم سی اور حیدرآباد کے مسائل کی ذمہ داری اپنے فرزند کے ٹی راما راؤ کے تفویض کئے ہیں حیدرآباد کی سیاست میں ان کی دلچسپی یکلخت ختم ہوگئی ہے۔ شہر کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ حیدرآباد میں مسلسل بارش اور تباہ کاریوں پر کے سی آر نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ان دنوں وہ حیدرآباد کے بجائے وہ سب سے زیادہ اضلاع کے بارے میں دلچسپی دکھارہے ہیں۔ شمالی تلنگانہ پر زیادہ توجہ دینے والے کے سی آر نے اس بات کا بھی ثبوت دیا ہے کہ انہیں شمالی تلنگانہ سے دلچسپی ہے۔

بارش سے ہونے والے نقصانات کی اطلاع ملتے ہی کے سی آر دہلی سے فوری واپس ہوئے اور سیدھے شمالی تلنگانہ کے اضلاع میں بارش کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیا اور وہاں کے ڈیمس کی تعمیر میں خامیوں پر ٹنڈرس منسوخ کرکے نئے ٹنڈرس طلب کرنے کی ہدایت اور اس علاقہ میں بدعنوانی کے مرتکب عہدیداروں کے خلاف سخت کارروائی کا انتباہ دیا جبکہ حیدرآباد میں جی ایچ ایم سی کے عہدیداروں نے رشوت کے ذریعہ کئی عمارتوں کو نالوں، تالابوں میں تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی۔ بارش نے جب ہنگامہ مچادیا تو تالابوں، نالوں پر ناجائز قبضے اور تعمیرات کی نشاندہی کرتے ہوئے 28000 عمارتوں کو منہدم کرنے کااعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ان عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دینے اور زمینات پر قبضہ کرکے انہیں متوسط اور غریب عوام کو فروخت کرنے والے لینڈ گرابرس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بلدیہ کے عملے کو سڑکوں کی صفائی، مرمت اور بارش سے ہوئی تباہ کاریوں کو بہتر بنانے کیلئے مصروف کرنے کے بجائے عمارتوں کو منہدم کرنے میں لگادیا گیا جس سے شہر میں ہر سڑک پرگرد اور ریت کا طوفان اُٹھ رہا ہے۔ موٹر رانوں، راہگیروں کو اس دھول و گرد کی وجہ سے آنکھوں میں جلن، سانس لینے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
شہر حیدرآباد کو بری طرح نظر انداز کرتے ہوئے چیف منسٹر نے بارش سے معمولی نقصان ہونے کا استدلال پیش کیا۔ کے سی آر کی نظر میں شہر کی صرف 10فیصد سڑکیں ہی خراب ہوئی ہیں۔ اپنی ہر بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے کے سی آر نے تلگو اور انگلش میڈیا کا بھی سہارا لیا ہے۔ ان کی پارٹی کے اہم قائدین کی جانب سے شائع کئے جانے والے اخبار کا انتظامیہ ایک انگریزی اخبار بھی شائع کررہا ہے جس میں صرف ٹی آر ایس حکومت کی تعریفیں اور حکمرانوں کی ستائش و دل فریب تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ ٹی وی چیانلس کی بھی سرپرستی حاصل کرکے ایک طرح سے ریاست کے شہری اور دیہی عوام کو گمراہی کا شکار بنادیا جارہا ہے۔ کسی بھی خرابی کو زیادہ دیر تک دبا کر رکھا نہیں جاسکتا۔ اگر عوام کے اندر یہ احساس جاگ جائے کہ ان کی منتخب حکومت ان کے توقعات کے مطابق نہیں ہے تو پھر وہ اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کے مجاز ہیں۔

ماضی کے سیاسی حالات سے واقف اور تجربات رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ خود کو ناقابلِ تسخیر سیاسی طاقت تصور کرنے والے قائدین کو تلنگانہ کے عوام نے گھر کا راستہ بھی دکھا دیا ہے۔ سفید بالوں کو کالا کرنے کیلئے چاہے جتنی بھی کالک تھوپ لی جائے چند دنوں بعد سفیدی خودبخود جھانکنے لگتی ہے۔ بالوں کو کالا کرنے سے عمر ڈھلنے کا احساس کم نہیں ہوتا، روز ملنے والے سامنے والے کی ڈھلتی عمر کو تو محسوس نہیں کرتے مگر روز ملنے والے سچ بھی نہیں بولتے۔ ان دنوں جس طرح کی بات کی ہوا نکالی جارہی ہے ٹی وی چیانلوں پر شور کیا جارہا ہے کہ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ لفافہ خور صحافی سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بولنے کا ہُنر رکھتے ہیں اور حکومت کو خوش کرتے ہیں جیسا کہ آپ روزانہ قومی چیانلوں پر دیکھ رہے ہیں کہ لفافہ خور صحافی کس طرح چیخ چیخ کر ہند۔ پاک میں دشمنی کو ہوا دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

کشمیر مسئلہ پر اپنی ذاتی رائے یا سیاسی آقاؤں کی دی گئی اسکرپٹ کے مطابق نیوز پروگرامس مرتب کرکے پوری قوم کو گمراہ کرتے جارہے ہیں۔ تلنگانہ میں بھی حکومت کے حامیوں اور کارندوں نے اپنے اپنے اخبارات اور اپنے اپنے چیانلس شروع کئے ہیں تو اپوزیشن والوں نے بھی چیانلس اور اخبارات اپنے لیڈروں کی طرح سارا دن مکھیاں مارنے اور راتوں کو مدِ مقابل کے کیڑے نکالنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں اور ان کے قائدین اپنی سیاسی زندگیوں کو عجیب و غریب چیزوں سے خوشگوار بناکر مطمئن ہیں۔یہ ساری سیاسی ڈرامہ بازی حکومت کی ناکامیوں کو پوشیدہ رکھنے کے لئے ہی ہوتی ہے، اس لئے کسی سے بحث کرنا فضول ہے۔ چلتے چلتے جنگل کا قصہ ملاحظہ کیجئے کہ گھوڑے اورگدھے میں آسمان کے رنگ کے مسئلہ پر بحث ہوئی ، گھوڑا آسمان کا رنگ نیلا جبکہ گدھا کالا ہونے کی ضد کررہا تھا۔ دونوں نے طئے کیا کہ اس کا تصفیہ جنگل کے راجہ کے پاس کرواتے ہیں۔ دونوں نے شیر کے پاس پہنچ کر قصہ سنایا، شیر نے پوری کہانی سن کر گھوڑے کو جیل میں ڈال دینے کا حکم دیا۔ گھوڑا احتجاج کرتا رہا کہ میری بات درست ہے، مجھے انصاف چاہیئے آخر مجھے جیل میں کیوں ڈالا جارہا ہے۔؟اس پر شیر نے کہا کہ یہاں معاملہ بات تیری صحیح یا غلط ہونے کا نہیں ہے بلکہ تیرا قصور یہ ہے کہ تو نے ایک گدھے سے بحث کیوں کی ۔؟
kbaig92@yahoo.com