ولی تنویر: افسانہ نگاری سے اشتہار سازی تک

محمود سلیم
ولی تنویر بھی نے اپنی زندگی کو بامقصد بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی یہ کوشش تا ہنوز جاری ہے۔ ولی تنویر ایک جانب اپنے آبائی مقام کوہیر میں ایک دینی ادارہ’’ مدرسہ عربیہ نورالعلوم‘‘ کے سرپرستوں میں شامل ہیں تو دوسری طرف وہ ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں’’ تنویر ایڈورٹائزنگ سرویس‘‘ کے ذریعہ اپنی صلاحیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ تیسری جانب وہ ایک اچھے افسانہ نگار کے طور پر بھی اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہاں ان کی افسانہ نگاری کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔

ولی تنویر کی زندگی جدوجہد سے عبارت رہی ہے ، لیکن صبر و استقلال کا دامن انہوں نے کبھی نہیں چھوڑا، جس کام میں لگے اسے بحسن و خوبی انجام دیا۔کسی بھی پیشے کو اپنانے میں انھوں نے عار محسوس نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک معمولی سے تاجر کی حیثیت سے کیا بلکہ ابتداء میں وہ ایک دکاندار تھے لیکن بہت جلد انہوں نے دکانداری کو خیرباد کہا، اور ایک پیشہ ورمشتہر کے طور پر کام کرنے لگے ۔انہوں نے 1972ء کے آس پاس ’’تنویر ایڈورٹائزنگ سرویس ‘‘ کا آغاز کیا اور اس میدان میں جو امتیازی شناخت قائم کی وہ انہی سے عبارت ہے۔اشتہارات کے مختصر جملوں میں ادبیت پیدا کرنا، اور اس کی تزئین و آرائش کے ذریعے مؤثر ترین بنانا ان کی خصوصیت رہی، دیکھتے ہی دیکھتے انہیں اس میدان میں پورے حیدرآباد میں امتیازی مقام حاصل ہوگیا۔ بلکہ انہوں نے اس پیشے کو اپنا کر مسلم قوم کو یہ پیغام بھی دیا کہ اشتہار سازی کے پیشے کو اپناکر بھی آدمی کروڑ پتی بن سکتا ہے اور آج وہ کروڑ پتی ہیں۔ فی الوقت ’’ تنویر ایڈورٹائزنگ سرویس‘‘ کا کاروبار ان کی اولادیں سنبھال رہی ہیں۔ ان کے اشتہاری جملوں پر ایک نظر ڈالیئے اور پھر اشتہارات سازی کے میدان میں ان کی جدت طبعی ملاحظہ کیجئے:۔

ایک شوروم کا اشتہار کچھ اس انداز سے پیش کیا: ’’ ہمارے شوروم میں آدمی اور انسان ہر ایک کے لئے ملبوسات کا تازہ اسٹاک ملاحظہ کیجئے‘‘۔ دوسرا اشتہاری جملہ دیکھیئے: ’’ بچپن سے پچپن تک ہر عمر کے ملبوسات پیش ہیں ‘‘۔ تعمیراتی ساز و سامان کے ایک دکان کا اشتہار انھوں نے اس طرح بنایا: ’’ گھر بنالینے اور مکان تعمیر کروانے میں بڑا فرق ہے۔ ہمارے یہاں تمام تعمیری سازو سامان دستیاب ہے‘‘۔ دیدہ زیب ملبوسات کی دکان کا ایک اشتہار دیکھیئے : ’’ دلہن بہر حال دلہن ہے جانے والی بیٹی کی صورت میں ہو یا آنے والی بہو کی شکل میں ہر دو کے لئے ہمارے یہاں دیدہ زیب ملبوسات کا تازہ اسٹاک پیش ہے‘‘۔ اشتہارات کو پیش کرنے کے ان کے منفرد انداز کوآپ نے ملاحظہ فرمایا۔ اب آیئے ان کی افسانہ نگاری پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

ولی تنویر کو بچپن سے کہانی لکھنے اور پڑھنے کا شوق تھا۔انہوں نے ابتدائی دور میںبچوں کے لئے کہانیاں لکھیں ۔ ان کے افسانے ’’ رہنمائے دکن‘‘ کے بچوں کے صفحات اور ’’ پیام تعلیم ‘‘ نئی دہلی میں شائع ہوئے۔ ان کا سب سے پہلا افسانہ 13 جولائی 1963ء کو ’ رہنمائے دکن ‘ کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوا۔ اس کے بعد وہ باضابطہ طور پر افسانہ نگاری سے وابستہ ہوگئے۔ ہندوستان اور پاکستان کے متعدد رسائل و اخبارات میں ان کے افسانے شائع ہوئے جن میں ہندوستان سے شائع ہونے والے رسائل بیسویں صدی، شمع، ( دہلی )، نیا دور ( لکھنؤ)، شب خون ‘ ( الہ آباد )، بانو، کھلونا ( نئی دہلی )، شاعر ( بمبئی)، پیام تعلیم اور خاتون مشرق ( نئی دہلی ) شامل ہیں۔ ان کی مقبول ترین کہانی ’’ لیلیٰ‘‘ پہلی دفعہ ’خاتون مشرق‘ ( دہلی ) میں اگست 1994ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہی کہانی ’’ سیاست‘‘ میں کچھ عرصہ قبل شائع ہوئی جسے قارئین نے پسند کیا۔ اس کہانی میں ایک بے یارو مددگار خاتون کی کسمپرسی کی داستان عبرت آموز ہے۔ افسانہ ’’ لیلیٰ ‘‘ اس خاتون کی کہانی ہے جس کی شادی ایک بوڑھے شخص سے کردی جاتی ہے، جس میں اسے قطعی دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔ جوانی کے عالم میں ہی اس کے شوہر کا انتقال ہوجاتا ہے اور وہ اس کی موت کے بعد سکون کی سانس لیتی ہے۔ ’’ لیلیٰ ‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:۔

’’ وہ ایک غریب کسان لڑکی تھی، بچپن ہی میں اس کی ماں کا انتقال ہوگیا تھا، باپ نے پال پوس کر بڑا کیا۔ جب وہ جوان ہوئی تو اس کا علاقہ بھر میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ ایک غریب کسان کے گھر میں حسین لڑکی کا ہونا ہی اس کے لئے سب کچھ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ حسین لڑکی بہت دولت لائے گی۔ اس کے باپ نے اس کی جوانی اور جذبات کا لحاظ کئے بغیر ایک کھاتے پیتے مگر بوڑھے آدمی سے اس کی شادی کردی جو مریض تھا۔ لیلیٰ کو اپنے بوڑھے مریض شوہر سے کوئی ہمدردی نہ تھی، وہ دل ہی دل میں اس سے نفرت کرتی تھی۔ وہ اپنے بوڑھے شوہر کے دو بچوں کی ماں بھی بن گئی تھی لیکن اس کی نفرت میں فرق نہیں آیا۔ اور ایک دن اس کا بوڑھا مریض شوہر بھی مر گیا۔ لیلیٰ نے ایک سکون کا سانس لیا۔ اس کے جذبات اور ارمانوں کا خون ہوچکا تھا۔ وہ اپنے حریص باپ اور بوڑھے مرحوم شوہر کو اپنی خوشیوں کا قاتل سمجھتی تھی۔ وہ اس قدر بے حِس ہوچکی تھی کہ لوگ اسے پاگل سمجھنے لگے تھے۔‘‘

کہانی ’’لیلیٰ ‘‘ کے اس اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ولی تنویر افسانہ لکھنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ ’’ لیلیٰ ‘‘ ایک خاتون کی حقیقی زندگی کا ایک قصہ ہے جسے کہانی کے روپ میں ولی تنویر نے پیش کیا۔ اس کے کلیدی کردار سے اس کے اطراف کے لوگ بھی شناساتھے ، اس لئے برسوں بعد جب یہ کہانی روز نامہ ’’سیاست‘‘ میں دوبارہ شائع ہوئی تو نہ صرف لوگوں نے پسند کیا بلکہ اس پر اپنے تاثرات بھی تحریری طور پر پیش کئے جو ’سیاست‘ کے مراسلات کے کالم میں شائع ہوئے۔ ولی تنویر کے افسانے کے موضوعات جہیز، معاشرتی اور خاندانی مسائل، اُردو تحریکات، فسادات اور بابری مسجد کی شہادت کے اِرد گرد گھومتے رہتے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر انہوں نے ایک افسانہ ’’ موسم بہار کا پہلا آدمی ‘‘ لکھا تھا جو حیدرآباد کے مشہور اخبارات میں شائع ہوا، اور ملک کے دیگر رسائل و اخبارات نے بھی اسے ڈائجسٹ کیا۔ گجرات فسادات کے تناظر میں انہوں نے ایک علامتی افسانہ ’’ 72 گھنٹے کا دن ‘‘ لکھا تھا۔ اس میں گجرات فسادات کی خونریزی اور مسلم کشی کو موضوع بنایا گیا۔ یہ افسانہ سب سے پہلے روز نامہ ’’ سیاست ‘‘ میں 2003ء میں شائع ہوا تھا۔