وقف قانون کی خلاف ورزی ‘ جماعت کو 2500گز وقف اراضی حوالے

حیدرآباد ۔ 30 ۔ جنوری (سیاست نیوز) محکمہ اقلیتی بہبود اور وقف بورڈ پر سیاسی دباؤ کے نتیجہ میں عہدیدار کئی ایسے فیصلے کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں، جو وقف قانون کے خلاف ہیں۔ تازہ واقعہ میں حکومت کی حلیف جماعت کے دباؤ پر سکریٹری اقلیتی بہبود جو وقف بورڈ کے عہدیدار مجاز بھی ہیں، شہر میں 2500 مربع گز وقف اراضی مقامی جماعت کے تعلیمی ٹرسٹ کو 30 سالہ لیز پر الاٹ کردی۔ لیز کے الاٹمنٹ میں وقف قواعد کی سنگین خلاف ورزیوں کی شکایات ملی ہیں۔ وقف بورڈ کی جانب سے خامیوں کی نشاندہی کے باوجود سکریٹری ا قلیتی بہبود نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے 30 سالہ لیز کو منظوری دیدی اور احکامات جاری کردیئے گئے ۔ واضح رہے کہ عنبر پیٹ میں واقع جامع مسجد کے تحت 2500 گز وقف اراضی موجود ہے جس کے احاطہ میں عثمانیہ ماڈل ہائی اسکول قائم ہیں۔ اسکول کیلئے گزشتہ برسوں میں ہر تین ماہ کی لیز منظور کی جاتی رہی۔ وقف ایکٹ کے مطابق تین سالہ لیز کی منظوری کیلئے وقف بورڈ کو اختیارات حاصل ہیں لیکن 30 سالہ لیز کیلئے ضروری ہے کہ اوپن آکشن کیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 30 سالہ لیز کے ذریعہ یہ اراضی سالار ملت ایجوکیشن ٹرسٹ کے حوالے کردی گئی ۔ سکریٹری اقلیتی بہبود نے پہلے جی او جاری کیا جس کے بعد وقف بورڈ سے احکامات کی اجرائی عمل میں آئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ماہانہ 15000 روپئے کے معمولی کرایہ پر لیز کو منظوری دی گئی اور ہر سال صرف 5 فیصد کا اضافہ ہوگا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ 2014 ء میں وقف بورڈ کی جانب سے کرایہ کے سلسلے میں جو تجویز روانہ کی گئی تھی ، اسی کرایہ کو عہدیدار مجاز نے منظوری دیدی جبکہ وقف ایکٹ کے مطابق مارکٹ ویلیو کے اعتبار سے کرایہ مختص کیا جانا چاہئے ۔ 2013 ء میں عہدیداروں نے اسکول کے لئے تین سالہ لیز کا کرایہ 11 تا15 ہزار روپئے ماہانہ مقرر کیا ہے ۔ ایک طرف حکومت نے مقامی جماعت کو خوش کرنے کیلئے 30 سالہ لیز کو منظوری دیدی اور ساتھ ہی صرف 15000 کا کرایہ مقرر کیا ہے۔ وقف ایکٹ کے سیکشن 52/2 کے تحت حکومت کو تعلیمی اور طبی اغراض کیلئے اراضی 30 سالہ لیز پر دینے کا اختیار حاصل ہے لیکن یہ کھلے ہراج کے ذریعہ ہونا چاہئے ۔ وقف بورڈ کے عہدیداروں کی جانب سے سکریٹری اقلیتی بہبود کو وقف ایکٹ کے سلسلہ میں توجہ دہانی کے باوجود بھی انہوں نے وقف ایکٹ کی پرواہ نہیں کی اور مقامی جماعت کے حق میں فیصلہ کردیا۔ وقف ماہرین کے مطابق 30 سالہ لیز کیلئے اوپن آکشن لازمی ہے۔ اس کے علاوہ مذکورہ فیصلے میں 4 سال پرانے کرایہ کو منظوری دی گئی جبکہ موجودہ مارکٹ ویلیو کے اعتبار سے کرایہ مقرر کیا جانا چاہئے تھا ۔ اس طرح وقف بورڈ کے اہم فیصلوں پر مقامی جماعت کا زبردست دباؤ دیکھا جارہا ہے اور اعلیٰ عہدیدار ان کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ سکریٹری اقلیتی بہبود جو وقف بورڈ کے مجاز بھی ہیں ، انہیں مقامی جماعت کی سرپرستی حاصل ہے اور وہ ان کی پیش کردہ تجاویز سے متعلق فائلوں کی یکسوئی میں غیر معمولی تیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کئی فائلوں کی یکسوئی انتہائی رازداری کے ساتھ انجام دی جاتی ہے جس کی اطلاع وقف بورڈ تک بھی نہیں پہنچ پاتی۔ عنبرپیٹ کی 2500 مربع گز اراضی کو 30 سالہ لیز پر دینے کے احکامات بھی انتہائی رازداری میں جاری کئے گئے اور وقف بورڈ کی پروسیڈنگ کو بھی راز میں رکھا گیا ہے تاکہ کوئی اعتراض نہ کرے ۔ وقف ماہرین کا ماننا ہے کہ عہدیدار مجاز کی اس طرح کی کارروائیاں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے بجائے ان کی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔ حالیہ عرصہ میں مقامی جماعت کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کو قبول کرتے ہوئے 11 اوقافی اراضیات کو ڈیولپمنٹ کیلئے لیز پر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اوقاف سے متعلق امور میں اقلیتی بہبود کے اعلیٰ عہدیداروں کو بسا اوقات حکومت میں شامل اور برسر اقتدار پارٹی کے عوامی نمائندوں کی بھی پرواہ نہیں اور وہ صرف مقامی جماعت کے اشاروں پر کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔