وقف بورڈ کی تشکیل جدید یا سہ رکنی کمیٹی کے قیام پر حکومت تلنگانہ کا غور

اسپیشل آفیسر کے تقرر پر عدالت سے راحت حاصل کرنے کی بھی کوشش۔ تعطل سے بورڈ میں روز مرہ کا کام بھی متاثر

حیدرآباد۔/31مارچ، ( سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت وقف بورڈ کے اُمور کی نگرانی کیلئے دو امکانات پر غور کررہی ہے جن میں وقف بورڈ کی تشکیل جدید یا پھر سہ رکنی کمیٹی کا قیام شامل ہے۔ہائی کورٹ کی جانب سے وقف بورڈ اسپیشل آفیسر کے تقرر کے احکامات کو معطل کرنے کے بعد بورڈ کی سرگرمیاں متاثر ہوچکی ہیں۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف تلنگانہ حکومت ہائی کورٹ سے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ہائی کورٹ نے 24مارچ کو اسپیشل آفیسر کے تقرر سے متعلق احکامات کو کلعدم قرار دیتے ہوئے حکم التواء جاری کیا تھا۔ سنگل بنچ کے اس فیصلہ کے خلاف حکومت ڈیویژن بنچ پر اپیل کی تیاری کررہی ہے۔ اس کے علاوہ سنگل جج کے اجلاس پر جوابی حلف نامہ داخل کیا جارہا ہے۔ سنگل بنچ پر ریلیف ملنے کی صورت میں اسپیشل آفیسر کی خدمات بحال ہوں گی بصورت دیگر حکومت اس فیصلہ کے خلاف ڈیویژن بنچ پر اپیل کرے گی۔ اسپیشل سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل نے آج اس مقدمہ کے سلسلہ میں ایڈوکیٹ جنرل رام کرشنا ریڈی سے ملاقات کی اور ان کی رائے حاصل کی۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت نے ایڈوکیٹ جنرل سے سہ رکنی کمیٹی کی تشکیل کے امکانات پر بھی قانونی رائے حاصل کی ہے۔ واضح رہے کہ 1996ء میں عدالت کی جانب سے سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی تاکہ وقف بورڈ کے اُمور کی نگرانی کی جاسکے۔ اس کمیٹی میں حسن الدین احمد، ای اسمعیل اور عثمان الدین شامل تھے۔ سہ رکنی کمیٹی کی اس نظیر کو بنیاد بناکر تلنگانہ حکومت موجودہ صورتحال میں وقف بورڈ کیلئے کمیٹی تشکیل دے سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں ماہرین قانون کی رائے اور عدالت میں اپیل پر فیصلہ کے بعد ہی کوئی قدم اٹھایا جائے گا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ماہرین نے موجودہ وقف ایکٹ کے مطابق اسیپشل آفیسر کی موجودگی کے امکانات کو موہوم قرار دیا ہے۔ نئے وقف ایکٹ کے تحت وقف بورڈ پر فرد واحد کے کنٹرول کے بجائے افراد کے تقرر کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اسپیشل آفیسر کی عدم موجودگی کے باعث وقف بورڈ میں پیدا ہونے والے مسائل اور مختلف رکاوٹوں کو دیکھتے ہوئے حکومت کے پاس صرف دو راستے رہ جاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکومت وقف بورڈ کی تشکیل کے اقدامات کا آغاز کرے یا پھر سہ رکنی کمیٹی تشکیل دے جو وقف بورڈ کے اُمور کی نگرانی کرے۔ ماہرین کے مطابق ہائی کورٹ کی جانب سے موجودہ مقدمہ میں حکومت کو کسی ریلیف کے امکانات کم ہیں لہذا حکومت کو جلد از جلد سہ رکنی کمیٹی تشکیل دینی ہوگی۔ اسپیشل آفیسر کی عدم موجودگی کے سبب روز مرہ کے مسائل اور ضروری فائیلوں کی یکسوئی متاثر ہوچکی ہے۔ وقف بورڈ کے ملازمین کو تنخواہوں کی اجرائی کا مسئلہ درپیش ہوچکا ہے۔ تنخواہوں کی اجرائی کیلئے اسپیشل آفیسر کی دستخط لازمی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ مقدمہ میں ہائی کورٹ کی جانب سے ریلیف نہ ملنے کی صورت میں اسپیشل سکریٹری اقلیتی بہبود کو تنخواہوں کی اجرائی کیلئے دستخط کا اختیار حاصل ہے۔ حکومت نے محکمہ اقلیتی بہبود اور وقف بورڈ سے سہ رکنی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق 1996 کے عدالت کے فیصلہ کی تفصیلات حاصل کرلی ہے۔اسی دوران مختلف گوشوں سے سہ رکنی کمیٹی میں شمولیت کیلئے زبردست پیروی شروع ہوچکی ہے۔ برسر اقتدار ٹی آر ایس اور اس کی حلیف جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کمیٹی میں شمولیت کیلئے چیف منسٹر اور وزراء کے دفاتر میں پیروی کا آغاز کرچکے ہیں۔ ان میں بعض ایسے بھی افراد شامل ہیں جو مختلف اوقافی اداروں کے متولی یا پھر نگرانکار ہیں۔ اوقافی اُمور میں دلچسپی رکھنے والے افراد خود کو اس کمیٹی میں شامل کرنے کیلئے دوڑ دھوپ کررہے ہیں۔ چونکہ وقف بورڈ کی تشکیل کیلئے بورڈ کی تقسیم تک انتظار کرنا ہوگا لہذا سہ رکنی کمیٹی کی تشکیل کے امکانات روشن ہیں۔ مرکزی حکومت نے وقف بورڈ کی تشکیل سے متعلق فائیل کو ابھی تک منظوری نہیں دی ہے۔ وقف بورڈ کی تشکیل کیلئے بورڈ کا دونوں ریاستوں میں منقسم ہونا ضروری ہے۔