وقارلطیف

 

میرا کالم مجتبیٰ حسین
میرے لئے یہ اطلاع جس قدر مسرت انگیز ہے اتنی ہی حیرت انگیز بھی ہے کہ وقار لطیف کے افسانوں کا مجموعہ شائع ہو رہا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ افسانہ نگار وقار لطیف تو میرے لئے کب کا افسانہ بن چکا تھا ۔ میں ہی کیا خود وقار لطیف بھی اس بات کو بھول چکا تھا کہ وہ کبھی افسانہ نگار بھی تھا ۔ دو ایک بار اسے یاد دلانے کی کوشش بھی کی کہ ’’میاں وہ جو تم افسانے لکھا کرتے تھے ، دل بے قرار کے تو وہ کیا ہوئے ، انہیں چھپواتے کیوں نہیں ہو‘‘ ۔ اس کے جواب میں وقار لطیف کچھ ایسی بے نیازی کا مظاہرہ کرتا تھا جیسے وہ ان افسانوں کو چھپوانے کے نہیں بلکہ انہیں چُھپانے کے جتن کر رہا ہو ۔ اب جب کہ وقار لطیف کے افسانوں کا مجموعہ منظر عام پر آرہا ہے تو میں اس کے سوائے اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے بلکہ وقار لطیف کہتے ہیں ۔ حتی کہ لیٹ لطیف تک کہہ سکتے ہیں ۔

وقارؔ لطیف کے ان افسانوں کی اشاعت کی جتنی خوشی مجھے ہو رہی ہے اتنی شاید خود وقار کو بھی نہ ہو ۔ یوں لگ رہا ہے جیسے یہ افسانے وقارؔ نے نہیں بلکہ میں نے لکھے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ جن دنوں وقار لطیف افسانے لکھا کرتا تھا میں نے لکھنا شروع بھی نہیں کیا تھا ۔ اس خوشی کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ان افسانوں سے میری ایک جذباتی ، روحانی اور رومانی وابستگی ہے ۔
یادش بخیر ! اس بات کو 32 برس بیت گئے جب ہم دونوں کی عمریں بیس اکیس برس کی ہوں گی ۔ ہائے وہ بھی کیا دن تھے جب پسینہ گلاب تھا ۔ دنیا کو کتنی حیرت، تجسس اور اشتیاق کے ساتھ دیکھا کرتے تھے ۔ حیدرآباد کے اورینٹ ہوٹل کی وہ شامیں یاد آتی ہیں تو یقین ہی نہیں آتا کہ ان شاموں سے ہم گذر چکے ہیں یا یہ شامیں ہم پر سے گذر چکی ہیں ۔آدمی کی زندگی میں وہ مرحلہ بڑا عجیب و غریب ہوتا ہے ۔ جب اسے اپنا ہی ماضی کسی اور کا ماضی نظر آنے لگے ۔ بظاہر ان تیس برسوں میں کچھ بھی نہیں ہوا ۔ وہی دنیا ہے ، وہی چاند اور وہی سورج ہے ، موسموں کا وہی حال ہے البتہ وقار اب لندن میں ہے ۔ میں دہلی میں ہوں اورینٹ ہوٹل کی جگہ کئی منزل والی عمارت کھڑی ہوگئی ہے ۔ اب ہم اُن لمحوں کی زندگی شاید کبھی جی نہیں سکیں گے ، جو تیس برس پہلے ہمارے حصہ میں آئے تھے ۔ کہنے کو تو دنیا ایک ہی ہے لیکن ایک دنیا میں بھی لاکھوں کروڑوں دنیائیں آباد ہیں ۔ جذبوں کی دنیائیں ، لمحوں کی دنیائیں ، رشتوں کی دنیائیں ۔ تیس بتیس برس پہلے ہم ایک ہی لمحہ میں صدیوں کی زندگی جی لیتے تھے ۔ اب کئی کئی برس گذار لیتے ہیں لیکن وہ لمحہ نہیں آتا جس میں آپ سچ مچ زندہ رہ سکیں ۔

1956ء کے نومبر کا مہینہ تھا جب وقارؔ سے میری پہلی ملاقات اورینٹ ہوٹل میں ہوئی تھی ۔ پتہ چلا انجینئیرنگ کا طالب علم ہے لیکن اردو میں افسانے لکھتا ہے ۔ اُن دنوں وہ بے حد جذباتی اور رومانی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت خود آراء خود بین اور خود پسند نوجوان تھا ۔ اورینٹ ہوٹل کے ٹائلیٹ کے آئینہ میں جتنی بار وہ اپنی شکل دیکھتا تھا شاید ہی کوئی اور دیکھتا ہو ۔ وہ بے حد سنجیدہ متین اور حساس تھا ۔ اسی لئے دوستوں کے انتخاب کے معاملے میں وہ بے حد محتاط تھا ۔ مجھے اکثر حیرت ہوتی تھی کہ وہ آخر میرا دوست کیسے بن گیا ۔ وہ اپنے بارے میں کسی کا کوئی چبھتا ہوا فقرہ یا تبصرہ برداشت ہی نہیں کرسکتا تھا ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ دوستوں سے ناراض ہوجاتا تھا اور حسب توفیق کئی کئی دن اُداس رہتا تھا ۔ وہ میری جملہ بازی سے اکثر پریشان تو ہوجاتا تھا لیکن ناراض نہیں ہوتا تھا ۔ بلکہ بعض صورتوں میں تو میری جملہ بازی سے متفق بھی ہوجاتا تھا ۔ اکثر اوقات وہ دوستوں سے خفیہ طور پر یہ جاننے کی کوشش بھی کرتا تھا کہ میں اس کے غیاب میں اُس کے بارے میں کیا کہتا ہوں ۔ وہ نہایت نفیس لباس پہنتا تھا ۔ سماجی رویوں کے اعتبار سے ہم دونوں ایک دوسرے کیلئے بڑے ’’ مشکل دوست ‘‘ تھے لیکن پھر بھی نہ جانے کیا بات تھی کہ وقار سے ایک دن بھی ملاقات نہ ہوتی تھی تو دل بے چین ہو اٹھتا تھا ۔

اِس ذہنی اور جذباتی قربت کی وجہ غالباً ادب اور آرٹ میں ہم دونوں کی دلچسپی تھی ۔ میں اُن دنوں لکھتا تو نہیں تھا البتہ دنیا بھر کے ادب کو پڑھنے کا چسکا لگ چکا تھا ۔ وقار کے افسانے ’’ ادب لطیف ‘‘ ، ’’سویرا‘‘، ’’ صبا اور ساقی ‘‘ جیسے رسائل میں چھپتے تھے ۔ اُس کے ہر افسانے سے میرا ایک جذباتی تعلق سا بن جاتا تھا ۔ وہ افسانے سناتے وقت بے حد جذباتی ہوجاتا تھا بلکہ اکثر اوقات مجھ جیسا آدمی بھی جذباتی ہونے پر مجبور ہوجاتا تھا ۔ مجھے اس کے افسانوں کی فضا بہت پسند تھی ۔ ایسی فضاء جو ان دنوں ہمارے مزاج اور ماحول سے بہت مطابقت رکھتی تھی ۔ افسانہ میں کوئی اچھا فقرہ یا جملہ آجاتا تو پڑھتے پڑھتے فوراً رک جاتا تھا اور اپنا سر پیٹنے لگ جاتا تھا ، کہتا تھا ،’’ یار مجتبیٰ ! دیکھو تو کیا جملہ لکھا ہے ۔ ہائے ہائے غضب کا جملہ ہے ’ اور میں کہتا ’’ ابھی تو تم صرف اپنا سر پیٹ رہے ہو جب یہ چھپ جائے گا تو کیا عجب کہ پڑھنے والے اپنا سر پیٹنے کے علاوہ تمہیں بھی پیٹنے لگ جائیں ‘‘ ۔
اردو میں شفیقؔ الرحمن اور قرۃ العین حیدر اُس کے پسندیدہ ادیب تھے ۔ انگریزی میں وہ نہ جانے کتنے ادیبوں کو پسند کرتا تھا البتہ ان میں ٹامسؔ مان ، ورجینیاؔ وولف اور آلڈسؔ بکسلے سرفہرست تھے ۔ مجھے اُن ادیبوں کی کتابیں پڑھنے کی ضرورت یوں لاحق نہیں ہوئی کہ جب وقار کے پاس سنانے کیلئے اپنا کوئی افسانہ نہیں ہوتا تھا تو وہ مندرجہ بالا ادیبوں کی کتابیں پڑھ کر سناتا تھا اور انہیںپڑھتے ہوئے وہ اِن ادیبوں کی تخلیقات کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتا تھا جو اپنے افسانوں کے ساتھ کیا کرتا تھا ۔ یعنی اچھے جملوں پر اپنے ماتھے کو پیٹنا شروع کردیتا تھا ۔ ایک دن وہ اورینٹ ہوٹل میں ملا تو میں نے پوچھا ۔’’ لگتا ہے کہ آج تم نے بہت زیادہ مطالعہ کیا ہے ‘‘ حیرت سے کہنے لگا ’’ ہاں ! آج میں نے ٹامس مان کی پوری کتاب پڑھ ڈالی ہے ۔ مگر تمہیں کیسے پتہ چلاکہ آج میں نے بہت زیادہ پڑھائی کی ہے ‘‘ ۔ میں نے کہا ’’ تمہاری پیشانی جو لال ہوئی جارہی ہے ۔ نہ صرف لال ہو رہی ہے بلکہ سوج بھی گئی ہے ۔ اتنا مطالعہ کیوں کرتے ہو کہ مرہم پٹی کیلئے ڈاکٹر کے پاس جانے کی نوبت آجائے ‘‘ ۔ یہ سن کر وہ پہلے تو اپنی پیشانی سے پسینہ کے قطروں کو پونچھتا رہا ۔ پھر اچانک اُٹھ کر ٹائلیٹ میں چلا گیا ۔ واپس آیا تو بڑی دیر تک مجھ سے اس مسئلہ پر بحث کرتا رہا کہ میری پیشانی اتنی لال بھی نہیں ہے کہ تم یہ اندازہ لگا سکو کہ میں نے ٹامس مان کو پڑھا ہے ‘‘ ۔ پھر ہر دوست کے سامنے اُس نے اپنی پیشانی پیش کی اور ٹامس مان کا حوالہ دیا ۔ پھر اُس نے اپنی پیشانی اور پشیمانی دونوں کو ہمارے ایک ایسے دوست کے سامنے پیش کیا جو وقار کی پیشانی کو تو جانتا تھا لیکن ٹامسؔ مان کو نہیں جانتا تھا ۔ لہذا وقارؔ پھر اپنی پیشانی کو پیٹ کر رہ گیا ۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ انگریزی کے بہت سے ادیبوں کو میں نے وقار لطیف کے اُکسانے پر ہی پڑھا ۔ وہ رہتا بھی انگریزوں کی طرح تھا ۔ انگریزی بھی بی بی سی کی انگریزی کے معیار کی بولتا تھا ۔ مغربی موسیقی کا بھی دیوانہ تھا ۔ اس کے پاس مغرب کے سارے عظیم موسیقاروں کے لانگ پلے ریکارڈز تھے ۔ اب مجھے یاد نہیں کہ میں نے اپنی عمر عزیز کی کتنی قیمتی ساعتیں وقارؔ کے گھر پر بیتھون ، موتزارٹ ، باخ ، واگنسر ، چیکووسکی کی سمفینوں کوسننے میں گذاردیں ۔ رات کا پچھلا پہر آجاتا تھا اور ہم سمفینوں میں کھوئے رہتے تھے ۔ وقار جب 1964ء میں انگلستان گیا تو میں نے اپنے دوستوں سے مذاق مذاق میں کہا تھا ۔ ’’ وقار کا انگلستان چلاجانا ہندوستان پر برطانوی اقتدار کے تابوت میں آخری کیل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ہندوستان کی آزادی تو آج مکمل ہوئی ہے ‘‘۔

وقارؔ کے انگلستان جانے کے بعد مغرب سے میرا جو راست تعلق تھا وہ تقریباً ٹوٹ سا گیا ۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ میرے وہ سارے دوست جن کے وسیلے سے میں مغرب کے ادیبوں ، فنکاروں اور موسیقاروں سے جُڑا ہوا تھا ایک ایک کرکے انگلستان چلے گئے۔ جیسے نقی تنویر ، پروفیسر حسن عسکری ، ڈاکٹر یوسف علی خان اور میں یہاں خالص ہندوستانی زندگی جینے کیلئے رہ گیا ۔ وہ محفلیں اُجڑ گئیں ، وہ دن ہوا ہوئے مگر اُن دنوں کی یاد اب بھی دل میں تازہ ہے ۔ کبھی ہیتھونؔ کی سمفنی کی آواز کانوں میں پڑتی ہے تو ہیتھون کی نہیں وقار کی یاد آتی ہے ۔ موتزارٹ کو سُن کر موتزارٹ کی نہیں نقیؔ کی یاد آتی ہے ۔ نطشے کی کوئی کتاب پڑھتا ہوں تو حسن عسکری ذہن میں اُبل پڑتے ہیں ۔ چیکو وسکی کی موسیقی ڈاکٹر یوسف کی یاد کو چمکا دیتی ہے ۔ یاروں نے اب اپنی بستیاں اتنی دور بسائی ہیں کہ انہیں اب ایسے ہی غیر شخصی حوالوں کے ذریعہ یاد کیا جاسکتا ہے ۔ اگرچہ انگلستان جانے کے بعد وقار سے گہرا ربط ضبط نہیں رہا مگر شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا جاتا ہو جب اُس کی یاد نہ آتی ہو ۔ انگلستان جاکر وہ اچانک شاعر بن گیا ۔ اُس کا کلام بھی پڑھا ۔ شاعری میری سمجھ میں نہیں آتی اسی لئے وقارؔ کو کوئی رائے نہیں دی ۔ 1964ء کے بعد اس سے حیدرآباد میں صرف ایک بار ملاقات ہوئی اور وہ بھی سرسری سی ۔ البتہ 1984 ء میں جب ایک مہینہ کے قیام کیلئے میں لندن گیا تو وقار سے بے شمار ملاقاتیں رہیں ۔ اُس کے گھر بھی جانا ہوا ۔ میں نے ہیتھو ون کی سمفنی سننے کی فرمائش کی تو اس نے روی شنکر کے ستار کا کیسٹ بجادیا اور اپنا ماتھا پیٹنے لگا ۔ میں نے واگنر کا نام لیا تو اس نے مہدی حسن کی غزلوں کا کیسٹ بجادیا اور حسب معمول ماتھا پیٹنے لگا ۔ میں نے ٹامس مان کا حوالہ دیا تو وہ کلیات فیض کے حوالے سے اپنے سر تک پہنچ گیا ۔
میں نے کہا ’’یار وقارؔ ! اگر تمہیں انگلستان آکر ان باتوں پر بھی ماتھاپیٹنا تھا تو پھر یہ کام تو ہندوستان میں رہ کر بھی کیا جاسکتا تھا ‘‘ ۔
وفا کیسی؟ کہاں کا عشق ، جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیراہی سنگِ آستاں کیوں ہو
گمبھیر لہجہ میں بولا ’’ اب اگر زخموں کو کُرید نے کی کوشش کروگے تو میں تمہیں پیٹنے لگ جاؤں گا ؟ ایک مہینہ نہ جانے کس طرح بیت گیا ۔ اگر چہ ہم سب انگلستان میں تھے لیکن اُن ہی باتوں کو یاد کرتے تھے جن کا انگلستان سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔

ایک بار ہم سب دوست لندن میں عامرؔ موسوی کے گھر پر جمع ہوئے ۔ حسنؔ عسکری بھی تھے اور نقی تنویرؔ بھی ۔ ڈاکٹر یوسف علی خان بھی تھے اور عباسؔ زیدی بھی ۔ وقار لطیف تو تھا ہی ۔ ہائے ہائے کیا محفل تھی ۔ مجھے شبہ ہے کہ یہ سارے دوست اب پھر کبھی ایک ہی وقت میں ایک ہی مقام پرجمع بھی ہوسکیں گے یا نہیں ۔ وہ دوست جو تیس بتیس برس پہلے ہر شام کو اورینٹ ہوٹل میں ملا کرتے تھے اتفاق سے سب کے سب کئی برس بعد ایک جگہ جمع ہوگئے تھے ۔ آپ اس محفل کی ہنگامہ خیزی اور گرما گرمی کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔ رات دیر گئے تک محفل جمی ۔ رات کے پچھلے پہر سب کے سب عامرؔ موسوی کے گھر میں ہی پڑ رہے ۔ کون کہاں سویا اس کا مجھے بھی اندازہ نہیں تھا ۔ میں اور نقی تنویرؔ ایک کمرے میں سو گئے ۔ صبح کو آنکھ کھلی تو میں نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ وقار اور حسن عسکری کس کمرے میں سو رہے ہیں تاکہ انہیں جگایا جاسکے ۔ میرا کمرہ نیچے تھا ۔ اتنے میں اُوپر کی منزل سے کھانسی کی آواز آئی اور میں نے اس کھانسی کو راہبر مان کر ایک کمرہ پر دستک دی ۔ وقار نے دروازہ کھولا ۔ بڑی گرمجوشی سے بغلگیر ہوا۔ پوچھا ’’ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں اس کمرہ میں سو رہا ہوں ؟
میں نے کہا ’’ تمہاری کھانسی کی آواز پر یہاں پہنچا ہوں‘‘ ۔
وقار نے حیرت سے پوچھا ’’ میری کھانسی ‘‘؟
میں نے کہا ’’ ہاں ہاں تمہاری کھانسی ! ابھی ابھی تو تم کھانس رہے تھے ۔ اسی کھانسی کی ڈور کو پکڑ کر تمہارے کمرے تک پہونچا ہوں ‘‘۔
وقارؔ نے اچانک اپنے ماتھے کو پیٹتے ہوئے کہا ’’ یار مجتبیٰ ! حد کرتے ہو ۔ میری کھانسی ؟ یار میری کھانسی۔ تم میرے اتنے پرانے دوست ہو میری کھانسی کو نہیں پہچانتے ۔ میں نے کہا ۔ ’’ہوسکتا ہے مجھ سے غلطی ہوگئی ہو ۔ عسکری نے شاید کھانسا ہو اور میں نے اسے تمہاری کھانسی سمجھ لیا ہو ‘‘۔ اس کے جواب میں وقارؔ نے زور سے اپنا ماتھا پیٹا اور مجھے کمرے سے باہر لے گیا ۔ بولا ۔ اب تو تم اور بھی حد کر رہے ہو ۔ کہاں میری کھانسی اور کہاں عسکری کی کھانسی ! میں نے کہا ۔ یار اس میں اتنا سنجیدہ ہونے کی کیا بات ہے ۔ کبھی کبھی کھانسی میں توارد بھی تو ہوسکتا ہے ۔ بولا یار! یہ توارد نہیں ۔ کھانسی کا سرقہ ہے ۔ سرقہ ۔ تم عسکری کی کھانسی کو مجھ پر مسلط کر رہے ہو ۔ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ تم میرے اتنے پرانے دوست ہو مگر میری کھانسی کو نہیں پہچانتے ۔ میں نے کہا ’’ یار میں عسکری کی چھینک سے تو واقف ہوں لیکن اُن کی کھانسی سے میری اتنی آشنائی نہیں ہے ۔ غلط فہمی میں اگر میں نے اُن کی کھانسی کو تمہاری کھانسی سمجھ لیا تو اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے ‘‘۔
بولا ’’ کھانسی تو ایک ذیلی اور فروعی چیز ہے ۔ اصل بات رشتہ کی ہے ۔ اگر تم میرے دوست ہوتو تمہیں میری کھانسی سے بھی واقف ہونا چاہئے ۔ میری کھانسی میرے وجود کا حصہ ہے۔ اس نے نچلی منزل سے نقی کو بلایا اور پوچھنے لگا ۔ یار ! یہ بتاؤ میری اور عسکری کی کھانسی میں کہیں کوئی مماثلت ہے ۔ کوئی یکسانیت ہے۔ پھر اس نے اپنی کھانسی کھانس کر دکھائی ۔ پھر نمونے کے طور پر عسکری کی کھانسی کی بھی نقل اُتاری اور پوچھا ۔ ’’ بتاؤ ان دنوں کھانسیوں میں کوئی قدر مشترک ہے‘‘ ۔ نقی اُسی وقت نیند سے جاگا تھا اس نے ٹالنے کیلئے کہہ دیا ۔ بھئی ان دونوں کھانسیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ وقارؔ کی کھانسی میں جو گہرائی ہے جو تہہ داری ہے اور جو قلندرانہ شان ہے وہ عسکری کی کھانسی میں کہاں !عسکری کی کھانسی تو بہت سطحی اور عامیانہ سی ہے ۔ وقارؔ بولا ۔ دیکھو مجتبی! یہ ہے میرا دوست نقی تنویرؔ جو نہ صرف مجھے جانتا ہے بلکہ میری کھانسی کو اور اس کی انفرادیت کو بھی جانتا ہے ۔ تم کیسے دوست ہو آخر۔ میں نے اُس سے معافی مانگی ۔ اُس نے معاف بھی کردیا ۔ لیکن وقار کی کھانسی اب تک میرا پیچھا کرتی ہے ۔ کیا میں وقار کو اس کی کھانسی کو جانے بغیر پہچان نہیں سکتا ۔

اس واقعہ کو سنانے کا مقصد وقارؔ لطیف کی کھانسی پر روشنی ڈالنا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ میرا پیارا دوست وقار سب سے الگ تھلک ہے ۔ اُس کی ہر بات انوکھی اور منفرد ہے ۔ وہ دنیا میں اپنی شناخت کو الگ سے برقرار رکھنا چاہتا ہے ۔ افسانہ سے لے کر کھانسی تک وہ اپنی انفرادیت کو برقرار رکھنے کا قائل ہے اور وقارؔ کی یہی ادا مجھے سب سے زیادہ بھاتی ہے ۔ میں نے سوچا تھا کہ نہایت عجلت میں وقارؔ لطیف کے بارے میں دو تین پیراگراف لکھوں گا لیکن لکھتے لکھتے میری بات کئی صفحوں تک پھیل گئی ۔ مختصر تحریر لکھنے کیلئے جتنے وافر وقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ میرے پاس نہیں ہے ۔ میں وقار لطیف کو اُس کے افسانوں کے مجموعے کی اشاعت پر دلی مبارکباد دیتا ہوں ۔ جی تو چاہتا تھا کہ میں بھی اس موقع پر لندن میں موجود ہوتا ۔( ہم گھر میں ہیں اور بیاباں میں بہار آئی ہے ) جوں جوں میں اپنی تاریخ پیدائش سے دُور اور تاریخ وفات سے قریب ہوتا جارہا ہوں دوستوں کی درازئی عمر کی دعائیں مانگنے کو میرا جی چاہنے لگا ہے ۔ میں اپنی نوجوانی کے دوست وقار لطیف کی درازی عمر کی دعاء مانگتا ہوں ۔ میں اس کے لئے ہزاروں سال کی عمر کی دعا بھی مانگنا نہیں چاہتا ۔ بس اتنی سی خواہش یہ ہے کہ جب دو سو برس بعد میری پہلی صد سالہ برسی منائی جائے تو وقارؔ اُس میں میرے بارے میں اظہار خیال کرے۔ ( آمین )

(وقارؔ لطیف کے افسانوں کے مجموعہ ’’رومانے‘‘ کی رسم اجراء کے موقع پر یہ خاکہ 5 مارچ 1988 ء کو لندن کی ایک محفل میںپڑھ کر سنایا گیا۔ افسوس کہ اس کے کچھ ہی مہینوں بعد وقارلطیف اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔)