وطن کا پھیرا

کے این واصف
خلیجی ممالک میں کام کرنے والے این آر آئیز چھوٹے بڑے وقفہ سے اپنے وطن کا چکر لگاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ خلیجی ممالک میں رہنے والے ہندوستانی تارکین وطن جسمانی طور پر تو غیر ملک میں رہتے ہیں مگر ان کا دل، دماغ وطن میں رہتا ہے۔ ویسے ہندوستانی باشندے تقریباً دنیا کے ہر ملک میں آباد ہیں۔ وہاں ملازمتیں کرتے ہیں یا اپنے ذاتی کاروبار لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی اکثریت کچھ عرصے بعد ان ممالک کی قومیت بھی حاصل کرلیتی ہے اور وطن سے تقریباً ناطہ ختم کرلیتے ہیں۔ دوسری طرف اعلی تعلیم کی غرض سے یورپی ممالک اور امریکہ جانے والے تعلیم مکمل کرکے وہیں کے ہورہنے والوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ اس کے برعکس خلیجی ممالک میں رہنے والے ہمیشہ اپنوں اور اپنی مٹی سے مضبوطی کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ وطن کے ایک ایک پل کی خبر رکھتے ہیں۔ دن ورات اپنے عزیز و اقارب اور احباب سے رابطہ میں رہتے ہیں۔ اپنی ساری کمائی وطن بھیجتے ہیں اور اپنی دولت وطن ہی میں خرچ بھی کرتے ہیں جس سے ہندوستان کو بڑی مقدار میں زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ این آر آئیز ہندوستانی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ خلیجی ممالک کی حکومتیں ان ممالک سے ہونے والے ترسیل زر کے اعداد و شمار پر حیرت زدہ رہتے ہیں۔ بلکہ پچھلے چند سال سے ان حکومتوں نے غیر ملکیوں کی جانب سے اپنے وطن بھیجی جانے والی رقم پر کچھ تحدیدات بھی لاگو کردی ہیں۔ لیکن اب بھی ایک خطیر رقم ہر سال حلیجی ممالک سے دنیا کے دیگر ممالک کو روانہ کی جاتی ہے اور خلیجی ممالک میں بسے ہندوستانیوں کے وطن آتے جاتے رہنے سے ملک کی قومی ایرلائین اور دیگر فضائی کمپنیوں کو کروڑہا روپیہ کا بزنس ملتا ہے۔
خلیجی ممالک میں بسے ہندوستانی باشندوں کی سب سے بڑی فکر یا پریشانی وطن میں اپنے اہل و عیال اور اپنے اہل خاندان کی حفاظت ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں دنگے فساد وقفہ وقفہ سے پھوٹ پڑتے ہیں۔ ہندوستان میں فرقہ واری دنگوں کی تاریخ آزاد ہندوستان کی تاریخ کے برابر ہے۔ لیکن پچھلے چار ساڑھے چار سال کے عرصہ میں ہوئے فرقہ واری دنگے یا اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی نوعیت پچھلے 60 تا 65 سالوں میں ہوئے فرقہ واری دنگوں سے مختلف ہے۔ پچھلی حکومتوں کے دور میں دنگے ہوجاتے تھے اور موجودہ حکومت میں دنگے منظم کئے جارہے ہیں اور ظلم در ظلم یہ کہ اب قانون کے محافظوں کی سرپرستی یا پشت پناہی میں دنگے ہورہے ہیں۔ غنڈوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اب زانیوں، قاتلوں اور بدکاروں کو سماج کے اہم ذمہ داروں اور قائدین کے ہاتھوں تہنیت پیش کی جاتی ہے۔ ان کے حوصلے بڑھائے جاتے ہیں۔ انہیں مالی اور قانونی امداد فراہم کی جاتی ہے۔
ہم بھی ایک مختصر عرصہ کے لیے پچھلے ہفتے اپنے وطن عزیز کے دورے پر تھے کہ ظلم و بربریت کا ایک اور واقعہ سامنے آیا۔ گروگرام (ہریانہ) میں اکثریتی علاقہ میں رہنے والے محمد ساجد اور ان کے اہل خانہ کو چند اشرار نے ان کے گھر میں زبردستی داخل ہوکر بے دردی سے زدوکوب کیا۔ ان وحشی ظالموں نے عورتوں اور معصوم بچوں کو تک نہیں بخشا۔ اس مسلم خاندان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک اکثریتی طبقہ کے محلے میں رہتے تھے۔ یہ نہ صرف اقلیتی طبقہ پر ظلم ہے بلکہ ہماری جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ اور ہمارے آئین کی ذلت کے مترادف ہے۔ اس واقعہ پر مزید افسوس یہ جان کر ہوا کہ اس مسلم خاندان کی لڑکیاں مکان کی چھت پر جاکر مدد کے لیے چیختے چلاتے رہے لیکن پاس پڑوس کا کوئی بندہ ان کی مدد کے لیے آگے نہیں آیا۔ دراصل فرقہ پرست اور اقلیت دشمن تنظیم جس کا آج ملک میں طوطی بول رہا ہے نے پچھلے 70 سال میں اپنی انسان دشمنی کی آئیڈیالوجی سے ملک کے کروڑوں ذہنوں کو آلودہ کیا ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات کندہ کردی گئی کہ شرافت، بھائی چارگی، امن وامان اور انسانیت جیسے جذبوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف اپنی ظلم و شر کی آئیڈیالوجی پر عمل پیرا رہنا ہے۔ انہیں قومی سطح پر ملک کے مستقبل، امن و امان، معیشت، ترقی جیسے کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔ نہ ہی انہیں بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی ہی کا خیال ہے۔

ہمیں حیدرآباد میں اپنے اس مختصر قیام کے دوران کچھ تقاریب میں شرکت کا موقع بھی ملا۔ تلنگانہ فوٹوگرافی اکیڈیمی کے زیر اہتمام ایک قومی کنونشن منعقد ہوا۔ اکیڈیمی کے سکریٹری کے وشویندر ریڈی نے ہمیں خصوصی طور پر اس کنونشن میں مدعو کیا تھا۔ ضلع ورنگل میں منعقد اس سہ روزہ کنونشن میں 200 سے زائد فوٹو گرافی میں دلچسپی رکھنے والوں نے شرکت کی۔ یہ وہ فوٹو گرافرز تھے جو فن فوٹو گرافی کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں۔ اپنی تصویروں کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر منعقد فوٹوز کی نمائش میں پیش کرتے ہیں۔ تلنگانہ ٹورازم ڈپارٹمنٹ ورنگل کو سیاحتی مرکز کے طور پر ابھارنا چاہتا ہے۔ اسی لیے محکمہ سیاحت تلنگانہ نے اس کنونشن کو اسپانسر بھی کیا تھا اور تمام فوٹو گرافرز سے کہا وہ ورنگل کی تاریخی مقامات کی بہترین تصویر کشی کریں اور ہندوستان میں اپنے اپنے شہروں میں ان کی نمائش کے ذریعہ تشہیر کریں تاکہ سیاح ورنگل کی طرف راغب ہوں۔

حیدرآباد کے ایک صحافی محمد عبدالرشید جنید نے ’’خلیجی ممالک میں اردو کی نئی بستیاں‘‘ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ پیش کرکے پچھلے سال مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) سے Ph.D کی ڈگری حاصل کی اور اب اپنے اس مقالہ کو ایک کتابی شکل دی ہے جس کی رسم اجراء مانو کے وائس چانسلر کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ اس تقریب کو مخاطب کرتے ہوئے وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ڈاکٹر اسلم پرویز نے اس بات پر زور دیا کہ یونیورسٹیز سے زیادہ اردو کے اچھے اور معیاری پرائمری اسکولوں کے قیام کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ نئی نسلوں کی آبیاری اور شخصیت سازی کا سلسلہ ابتدائی عمر سے شروع ہونا چاہئے۔ انہوںنے کہا کہ اچھے اساتذہ کو پرائمری اسکول کی تعلیم پر توجہ دینی چاہئے۔ مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ نظامیہ، مولانا خواجہ بہاء الدین (فاروق انجینئر)، شہ نشین موجود تھے۔ محترمہ فاطمہ بیگم پروین سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ نے صدارت کی۔ پروفیسر ایس اے شکور اور ڈاکٹر عابد معز نے مہمانان اعزازی کے طور پر شرکت کی۔ ڈاکٹر فاضل حسین پرویز نے خیرمقدم کیا۔ سید خالد شہباز نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ پروفیسر فاطمہ پروین نے اپنے خطبہ صدارت میں جامعہ نظامیہ حیدرآباد کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالرشید جنید نے جس محنت کے ساتھ خلیجی ممالک میں اردو کی نئی بستیاں تلاش کی ہیں وہ قابل ستائش ہے۔ پروفیسر ایس اے شکور نے ریاستی حکومت کی جانب سے اردو کی ترقی، بقاء، ترویج و اشاعت کے لیے کئے جانے والے اقدامات کا تفصیلی طور پر ذکر کیا۔ ڈاکٹر عابد معز نے اپنے خطاب میں رشید جنید کا اس مقالہ کی تکمیل میں جاں فشانی اور محنت کا ذکر کیا۔

ایک تقریب جو گجویل (سدی پیٹ) میں منعقد ہوئی، میں بھی شرکت کا موقع ملا۔ یہ تقریب ’’الحق ایجوکیشنل سوسائٹی‘‘ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی۔ گجویل میں سوسائٹی کا قائم کردہ ایک ہائی اسکول ہے جس کی یہ سالانہ تقریب تھی جس میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اسلم پرویز نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی۔ اس کے علاوہ اس تقریب میں ضلع کے سیاسی قائدین، مختلف سرکاری اداروں کے اعلی عہدیدار، اولیائے طلباء اور دیگر مہمانوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ خصوصاً عبدالرشید صاحب بانی مدرسہ نے اپنی کبرسنی کے باوجود حیدرآباد سے طویل مسافت طے کرکے اس تقریب میں شرکت کی۔ تقریب کی صدارت مولانا محمد یوسف صدر الحق ایجوکیشنل سوسائٹی نے فرمائی۔ عبدالرشید جن کی عمر اب 90 سال سے تجاوز کرچکی ہے نے گجویل کا یہ اسکول کوئی چالیس سال قبل قائم کیا تھا۔ الحق سوسائٹی اکبرباغ حیدرآباد نے سابقہ ضلع میدک میں اب تک کوئی 200 مساجد تعمیر کی ہیں اور ہر مسجد سے منسلک ایک جزوقتی دینی مدرسہ بھی قائم ہے۔ گجویل کے اسکول میں عام اسکولز میں پڑھائے جانے والے نصاب کی تعلیم کے علاوہ طلباء و طالبات کو مکمل دینی تعلیم اور حفظ قرآن کرنے کی سہولتیں بھی فراہم کی گئی ہیں۔ اسکول کی اس سالانہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر اسلم پرویز نے تمام مسلمانوں کو قرآن فہمی پر توجہ دینے کی تلقین کی۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اسلم پرویز نے کہا کہ قرآن صرف ثواب حاصل کرنے یا ایصال ثواب کے لیے پڑھے جانے کے لیے نہیں نازل کیا گیا۔ مولانا یوسف نے بھی اپنے خطبہ صدارت میں قرآن فہمی پر زور دیا اور اولیائے طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی دینی اقدار پر تعلیم و تربیت کی جانی چاہئے۔ اس تقریب سے کئی غیر مسلم مقامی قائدین نے بھی خطاب کیا۔ انجینئر عبدالحمید نے پروفیسر اسلم پرویز کا تعارف پیش کیا۔ اسکول کے طلباء و طالبات نے متاثر کن انداز میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔

سعودی عرب میں کئی ایک سماجی اور ادبی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں، جو کمیونٹی اور ادب کی خدمات انجام دیتی ہیں۔ ان تنظیموں کے ذمہ داران بڑے شوق اور دلچسپی سے ان تنظیموں کو چلاتے ہیں اس پر اپنا وقت اور پیسہ صرف کرتے ہیں۔ لیکن یہ این آر آئیز وطن واپسی پر ان سرگرمیوں سے جیسے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ ان میں شاید ہی کوئی ہو جو سماجی یا ادب کی خدمت کے اس جذبہ کو برقرار رکھتے ہوں۔ سعودی عرب میں کوئی چار دہائیوں تک مقیم رہنے والے جاوید علی افروز اب مستقل طور پر حیدرآباد واپس ہوگئے ہیں۔ جاوید علی ریاض میں ادبی سرگرمیوں سے برسوں وابستہ رہے۔ یہاں بڑی پابندی سے نثری و شعری محافل کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے کو انہوں نے حیدرآباد میں بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے ’’ریت اس نگر کی ہے‘‘ کے عنوان سے ایک ادبی تنظیم قائم کی ہے۔ اس تنظیم کی سرگرمیوں میں ان کے معاون معروف اینکر اور ’’روبی ٹی وی‘‘ کے روح رواں آصف علی ہیں۔ پچھلے ہفتہ جاوید علی نے اپنی تنظیم کے زیر اہتمام ایک محفل کا اہتمام کیا جس میں ایک نثری اور شعری محفل منعقد ہوئی۔ اس محفل کی صدارت پروفیسر مجید بیدار صاحب سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ نے کی جبکہ مہمانان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر م۔ق۔سلیم صدر شعبہ اردو شاداں کالج، ڈاکٹر جہانگیر احساس کلچر سکریٹری احمد میموریل ایجوکیشن سوسائٹی رہے۔ نثری نشست میں صاحبزادہ مجتبیٰ فہیم، م۔ق۔سلیم اور راقم نے اپنی تخلیقات پیش کیں۔ شعری نشست میں زاہد ہریانوی، پروفیسر مجید بیدار، تجمل اظہر، ابراہیم حنفی، مجتبیٰ فہیم اور محبوب خاں اصغر نے اپنا کلام سنایا۔ آصف علی کے ہدیہ تشکر پر جاوید علی کی قیام گاہ پر منعقدہ اس محفل کا اختتام عمل میں آیا۔