وضو کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھنا

سوال : سوال یہ ہیکہ وضؤ کے آغاز میں بسم اللہ اگر نہ پڑھی جائے تو وضو ہوتا ہے یا نہیں ؟ اسی طرح اگر کوئی وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے ۔ درمیانِ وضو میں یاد آئے اور وہ بسم اللہ پڑھ لے تو کافی ہوجائے گا یا نہیں ؟ وضو سے قبل بسم اللہ پڑھنے کا مسنون طریقہ کیا ہے ؟
محمد اویس ، دبیرپورہ
جواب : وضو کے شروع میں تسمیہ یعنی بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے ۔ اگر کوئی وضو کے آغاز میں تسمیہ یعنی بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو دورانِ وضو جب یاد آئے پڑھ لینا چاہئے ۔ گرچہ برمحل سنت کو قائم کرنے یعنی آغاز وضو میں تسمیہ پڑھنے کی تلافی تو نہ ہوگی لیکن وضو تسمیہ سے خالی نہ ہوگا۔ عالمگیری جلد اول کتاب الطھارۃ ، الفصل الثانی فی سنن الوضوء ص : 6 میں ہے : (منھا التسمیۃ) التسمیۃ سنۃ مطلقا غیر مقید بالمستیقظ و تعتبر عند ابتداء الوضوء حتی لو نسیھا ثم ذکر بعد غسل البعض و سمی لایکون مقیما للسنۃ بخلاف الأکل نحوہ ھکذا فی التبیین فان نسیھا فی اول الطہارۃ اتی بھا متی ذکرھا قبل الفراغ حتی لا یخلو الوضوء عنھا کذا فی السراج الوہاج۔
وضو کے شروع میں تسمیہ کے وقت ’’بسم اللہ العظیم والحمد للہ علی دین الاسلام (یعنی اللہ کے نام سے وضو شروع کرتا ہے جو نہایت عظمت و بزرگی والا ہے اور دین اسلام کی نعمت پر تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے سزاوار ہے) پڑھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے چنانچہ اس کتاب کے اسی صفحہ میں : المنقول عن السلف فی تسمیۃ الوضوء باسم اللہ العظیم والحمد للہ علی دین الاسلام و فی الخبازیۃ ھو المروی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کذا فی معراج الدرایۃ۔

باؤلی میں بچھو کا مرنا
سوال : ہماری مسجد کی چھوٹی سی باؤلی ہے ، موٹر سے پانی ٹینک میں بھرا جاتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ باؤلی صاف کی جارہی تھی تو اسمیں ایک بچھو مرا ہوا نظر آیا ۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ پوری باؤلی صاف کرنے کی ضرورت ہے اور بعض دو سو ڈول کے برابر پانی نکالنے کی رائے دے رہے ہیں۔ شرعی لحاظ سے اگر باؤلی میں بچھو یا اس جیسے کوئی چیز مرجائے تو اس پانی کا کیا حکم ہوگا ؟
محمد اقبال ، خلوت
جواب : باؤلی میں بچھو مرجائے یا مرنے کے بعد باؤلی یا پانی میں ڈالا جائے تو پانی ناپاک نہیں ہوتا ۔ عالمگیری جلد اول ص : 24 میں ہے : و موت مالیس لہ نفس سائلۃ فی الماء لا ینجسہ کالبق والذباب والزنابیروالعقارب ونحوھا… ولا فرق فی الصحیح بین ان یموت فی الماء او خارج الماء ثم یلقی فیہ کذا فی التبیین۔

طلاق کے بعد رجوع کا مسئلہ
سوال : لڑکا لڑکی شادی کے بعد بیرون ملک چلے گئے اور ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے ۔ ان کو ایک لڑکا ہے۔ ایک دن کسی وجہ سے دونوں میں اختلاف ہوا اور بحث و تکرار ، سوال و جواب زیادہ ہوگئے تو شوہر غصہ میں بیوی کو ایک طلاق دیدیا ۔ تھوڑی دیر میں دونوں بہت پشیمان ہوئے اور اپنی غلطی پر نادم ہوگئے ۔ شوہر نے بیوی سے کہا تم میری بیوی ہو، غصہ میں میں نے طلاق دیدی ، ہم پہلے جیسے تھے ویسے خوش رہیں گے ۔ اس کے بعد لڑکی بھی شوہر کی بات کو مان لی اور اس طرح رہنے لگے۔ بیوی زچگی کیلئے انڈیا آئی ہوئی ہے ۔ اس نے اپنے ماں باپ کو سارے حالات سے اب ایک سال بعد واقف کروایا ۔
کیا ایسی صورت میں دونوں کا نکاح باقی ہے یا نہیں ؟ کیا ان دونوں کو دوبارہ نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں کرنے کی ضرورت تھی یا نہیں ؟ براہ کرم اس بارے میں شرعی حکم سے آگاہ فرمائیں تو مہربانی ہوگی ؟
نام مخفی
جواب : شوہر بیوی کو مطلق ایک طلاق دے تو بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے اور شوہر کو اندرون عدت (تین حیض) بیوی کو رجوع کرنے کا اختیار رہا ہے ۔ اگر وہ رجوع کرلے تو دونوں میں نکاح بدستور برقرار رہتا ہے۔عالمگیری جلد اول ص : 470 میں ہے : اذا طلق الرجل امراتہ تطلیقۃ رجعیۃ او تطلیقتین فلہ ان یرا جعھا فی عدتھا رضیت بذلک او لم ترض کذا فی الھدایۃ
اگر شوہر بیوی سے کہے کہ میں نے تم کو رجوع کرلیا ہے تو رجوع کرنا صحیح ہوگا۔ البتہ رجوع پر دو گواہ رکھنا مستحب ہے ۔ اگر بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے رجوع کرلے اور گواہ نہ رکھے تو رجوع تو ثابت ہوجائے گالیکن اس طرح رجوع کرنا خلاف سنت یعنی بدعی کہلائے گا۔ اسی کتاب کا صفحہ : 468 الباب السادس فی الرجعۃ میں ہے : (فالسنی) ان یرا جعھا بالقول و یشھد علی رجعتھا شاھدین و یعلمھا بذلک فاذا راجعھا بالقول نحو ان یقول لھا راجعک او راجعت امراتی ولم یشھد علی ذ لک او اشھد ولم یعلمھا بدلک فھو بدعی مخالف للسنۃ والرجعۃ صحیحۃ۔
پس صورت مسئول عنھا میں شوہر نے بیوی کو ایک طلاق دینے کے بعد اندرون عدت کہا کہ ’’تم میری بیوی ہو ، غصہ میں میں نے طلاق دیدی۔ ہم پہلے جیسے تھے ویسے خوش رہیں گے‘‘۔ تو ان الفاظ سے رجوع ثابت ہوگیا ۔ بعد ازاں وہ دونوں حسب سابق میاں بیوی کی زندگی گزارتے رہے تو شرعاً دونوں میں نکاح قائم و برقرار ہے۔ رجوع کرنے پر گواہ نہ رکھنے کی بناء نکاح پر کچھ اثر نہیں ہوا ۔ اسی میں ہے : (والکنایۃ) انت عندی کماکنت و أنت امرأتی فلا یصیر مراجعا الا بالنیۃ کذا فی فتح القدیر۔

متروکہ جائیداد میں بیٹیوں کا حصہ
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک متروکہ جائیداد جو چار بھائی اور چار بہنوں میں مشترک ہے ۔ بہنیں شادی شدہ ہیںاور اپنے سسرال میں رہتی ہیں۔ تقسیم جائیداد کا ان کی جانب سے کوئی مطالبہ نہیں۔ بھائیوں کا اس گھر میں رہنا کیا ہے جبکہ بھائیوں کے پاس کوئی اور گھر نہیں اور بھائیوں کی شادی باقی ہے ۔ حسب موقع بھائی بہنوں کا حصہ ادا کردیں گے ۔ تمام بہنیں اس بات پر متفق ہیں، کوئی فی الفور حصہ کا مطالبہ نہیں۔ ایسی صورت میں کیا اس گھر میں بھائیوں کا رہنا گناہ ہے؟
نام …
جواب : شریعت میں صاحب جائیداد کے انتقال کے ساتھ ہی اس کی مملوکہ تمام تر جائیداد میں اس کے ورثاء اپنے اپنے حصہ شرعی کے حقدار ہوجاتے ہیں ۔ نیز ایک وارث دوسرے وارث کے حق و حصہ میں بالکل اجنبی ہوتا ہے ۔ اس کو دوسرے وارث کے حق و حصہ میں اس کی ا جازت و مرضی کے بغیر تصرف کرنے کا کوئی حق نہیں۔ در مختار کی کتاب الفرائض جلد پنجم میں ہے : وھل ارث الحی من الحی ام من المیت ؟ المعتمد الثانی ۔ عالمگیری جلد 6 کتاب الفرائض میں ہے : والارث فی اللغۃ البقاء و فی الشرع انتقال مال الغیر الی الغیر علی سبیل الخلافۃ کذا فی خزانۃ المفتین ۔ ھدایۃ کی کتاب الشرکتہ میں ہے : فشرکۃ الا ملاک العین یرثھار جلان او یشتر بانھا فلا یجوز لا حدھما ان ینصرف فی نصب الا خرالا باذنہ و کل واحد منھما فی نصب صاحبہ کالا جنبی ۔
پس صورت مسئول عنھا میں تمام متروکہ جائیداد کے بعد ادائی حقوق متقدمہ علی المیراث بارہ حصے ہوکر لفجوائے آیت قرآنی ’’للذکر مثل حظ الاتئین‘‘ چاروں لڑکوں کو دو دو اور چاروں لڑکیوں کوایک ایک حصہ ملے گا ۔ چاروں لڑکے اپنی بہنوں کے حصہ شرعی میں ان کی مرضی و اجازت سے رہ سکتے ہیں۔ ان میں سے جو بھی تقسیم کا مطالبہ کرے وہ اپنا حق پانے کی شرعاً حقدار ہے ۔ بہنوں کو ان کے حصہ رسدی سے منع کرنے کا کسی و حق ن ہیں ۔ خواہ لڑکے شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں۔ البتہ اگر بہنیں راضی ہوں تو بھائیوںکا اس گھر میں رہنے میںکوئی مضائقہ نہیں۔

ائمہ اربعہ کی سنہ ولادت و وفات
سوال : میں نے سنا کہ چار ائمہ میں سب سے پہلے حضرت امام مالک کی ولادت ہوئی، اس کے بعد حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت ہوئی۔ بعض کہتے ہیں کہ امام اعظم کا زمانہ پہلے کا ہے ۔ براہ کرم آپ سے التجا ہے کہ ائمہ اربعہ میں سب سے پہلے کس کی ولادت ہوئی اور ان کی عمر یں کتنی رہیں بیان فرمائیں ؟
محمد فرقان، شاہ علی بنڈہ
جواب : ائمہ اربعہ میں سب سے پیشرو حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ ہیں، آپ کی ولادت 80 ھ میں ہوئی اور آپ 150 ء میں رحلت فرمائے ۔ آپ کی کل عمر ستر (70) برس تھی۔ امام مالک رحمتہ اللہ کی ولادت 90 ھ میں ہوئی اور آپ 179 ء میں وفات پائے، آپ کی کل عمر (89) رہی۔ حضرت امام شافعیؒ 150 ھ میں پیدا ہوئے اور 204 ھ میں انتقال کئے اور 54 سال حیات رہے۔ امام احمد بن حنبل 164 ھ میں تولد ہوئے اور 241 میں فوت ہوئے۔ اس طرح آپ جملہ 77 سال حیات رہے۔
لہذا ائمہ اربعہ میں سب سے پہلے ولادت حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی ہوئی اور سب سے طویل عمر حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ پائے ۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے رد المختار جلد اول ص 71 مطبعہ دارالفکر بیروت)

طلاق کا نازک مسئلہ
سوال : اگر کوئی لڑ کا اپنی اہلیہ سے فون پر بات کرے۔ بعد ازاں اپنی ساس سے یہ کہے: ’’ میں نے طلاق دی‘‘ طلاق دی ۔ دی۔ اس بارے میں کیا حکم ہے۔ طلاق واقع ہوئی یا نہیں۔ طلاق دیتے وقت لڑکی کا نام نہیں لیا۔
نام مخفی
جواب : طلاق کے واقع ہونے کیلئے شوہر کا بیوی کو مخاطب کر کے طلاق کہنا یا بیوی کی طرف طلاق کی نسبت کرنا ضروری ہے ۔ بھجۃ المشتاق فی احکام الطلاق ص : 15 میں ہے: لابدفی الطلاق من خطابھا اوالاضافۃ الیھا کما فی البحر۔ نیز شوہر بیوی کی طرف نسبت کئے بغیر صرف طلاق ہے کہے اور اس سے پوچھا جائے کہ تو نے کس کو طلاق دی ہے ، اس سے کون مراد ہے ، وہ کہے کہ میری بیوی مراد ہے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس کتاب میں البحر الرائق سے منقول ہے : اذا قال طالق فقیل لہ من عنیت فقال امراتی طلقت۔
پس صورت مسئول عنہا میں طلاق کے واقع ہونے کے ضمن دونوں پہلو ہیں۔ خط و کتابت سے نفس مسئلہ تک رسائی مشکل ہے اور چونکہ یہ مسئلہ نہایت نازک ہے۔ آپ فی الفور دارالافتاء جامعہ نظامیہ رجوع ہوں۔ مفتی صاحب کی خدمت میں ساری روئیداد اور تفصیل پیش کریں۔ بالخصوص ساس سے کیا گفتگو ہورہی تھی اور وہ کس بات پر ’’طلاق دی‘‘ کہا اور کتنی مرتبہ کہا اور کیا الفاظ استعمال کیا ۔ ان ساری تفصیلات کو لکھ کر دیا جائے تو مناسب ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ جب اس نے طلاق دی ہے کہا تو لازمی طور پر اس کی نیت بیوی کو طلاق دینی کی ہوگی ۔ اس لئے مفتی صاحب سے بالمشافہ ملاقات کر کے مسئلہ کا حل دریافت کریں۔