وزیر تعلیم کی تعلیم

میرا کالم سید امتیاز الدین
وزیر اعظم کی کابینہ نے اپنا کام شروع کردیا ہے ‘ قلمدانوں کی تقسیم ہوچکی ہے ۔ وزراء نے نہ صرف کام سنبھال لیا ہے بلکہ اُن کو 100دن کی کارگزاری پیش کرنی ہے ۔ اب کون کیا کرتا ہے اور کتنا کامیاب ثابت ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات طئے شدہ ہے اور یہ بات صرف ہمارے ملک تک مخصوص نہیں ہے ۔ ہر ملک میں حکومت کی کارکردگی سے صرف حکومت وقت مطمئن رہتی ہے۔ جو پارٹیاں اپوزیشن میں بیٹھتی ہیں اُن کو کوئی کام اچھا نہیں لگتا‘ جب کانگریس برسراقتدار تھی تو حکومت کی کارکردگی مخالف جماعتوں کو بالکل پسند نہیں تھی ۔ اب بی جے پی برسراقتدار ہے تو کانگریس کو اُس کے کام کب پسند آئیں گے ۔ ایسے میں اعتراض کا کوئی اچھا موقع ہاتھ آئے تو کوئی بھی اُسے گنوانا نہیں چاہے گا ۔ نئی سرکار میں وزارت تعلیم کا عہدہ سمرتی ایرانی کو دیا گیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ سمرتی ایرانی نے اپنے بارے میں الیکشن کمیشن کو بتایا تھا کہ انہوں نے بی کام پارٹ ون تک دہلی یونیورسٹی میں تعلیم پائی تھی۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جب تک کوئی کالج سے گریجویشن نہیں کرلیتا اُسے میٹرک یا بارھویں جماعت کامیاب ہی سمجھا جاتا ہے ۔ سمرتی ایرانی پر اعتراض یہ ہے کہ وہ انڈر گریجویٹ ہیں اور وزیر تعلیم بن بیٹھی ہیں ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب ملک کی وزیر تعلیم کی تعلیمی قابلیت یہ ہو تو ملک کی طلباء برادری پر اس کے کیا اثرات ہوں گے ۔

اصولی طور پر دیکھا جائے تو یہ اعتراض کچھ ایسا ناواجبی بھی نہیں ہے ۔ وزیر تعلیم کو یقیناً قابل ہونا چاہیئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر محکمہ کا وزیر اپنے محکمہ کے پورے اُمور کا ماہر ہو ۔ سائنسی اُمور اور خلائی تحقیقات سے وابستہ وزیر راکٹ چھوڑنے کا ماہر نہیں ہوسکتا ‘ ریلوے کے وزیر سے آپ یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ وقت پڑنے پر انجن ڈرائیونگ کا کام بھی کرے یا وزیر زراعت ٹریکٹر چلانے سے واقف ہو ۔ مشہور مزاح نگار پطرس سے سرظفر اللہ خان نے سوال کیا تھا کہ ’’آپ ریڈیو کے ڈائرکٹر جنرل ہیں ‘ بتلایئے سارنگی اور ستار میں کیا فرق ہے ‘‘ ۔ پطرس نے اُن سے پوچھا ’’ آپ کی عمر کیا ہے ‘‘ ظفر اللہ خان نے اپنی عمر بتائی ساٹھ سال ‘ پطرس نے اُن سے کہا ’’ جب سارنگی اور ستار کے فرق کو جانے بغیر ساٹھ سال گزر گئے تو دو چار سال اور سہی ۔ رہی بات ریڈیو کے ڈائرکٹر جنرل ہونے کی تو قبلہ محض اس فرق کو جاننے کیلئے ریڈیو کا ڈائرکٹر جنرل ہونا ضروری نہیں ‘‘ ۔

قابلیت کا ایک معیار ڈگری ضرور ہے لیکن ڈگری ہی سے قابلیت نہیں پیدا ہوتی ۔ ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد تھے ‘ وہ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے ۔ بچپن میں اُن کی والدہ اُن سے عربی ہی میں بات کیا کرتی تھیں ۔ مولانا عربی کے جید عالم تھے ‘ بعد میں انہوں نے فارسی ‘ اردو اور دیگر مشرقی علوم پر عبور حاصل کیا ۔ انہوں نے جس میدان میں قدم رکھا یکتا ثابت ہوئے ۔ بحیثیت صحافی الہلال اور البلاغ جاری کئے ۔ الہلال میں ان کے مضامین زبان و ادب کے ایسے شہ پارے ثابت ہوئے جن کی نظیر آج تک نہیں پیش کی جاسکتی ۔ بحیثیت مقرر اُن کا مقام اتنا بلند ہے کہ خطابت کیلئے اُن کا نام مثال کی حیثیت رکھتاہے ۔ بحیثیت وزیر تعلیم اُن کے کارنامے بے مثال ہیں ۔

یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا قیام ‘ کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ ‘ ساہتیہ اکیڈیمی ‘ سنگیت ناٹک اکیڈیمی ‘ للت کلا اکیڈیمی انہیں کے دورِ وزارت میں وجود میں آئے ۔ مولانا کو ملک کے علمی ورثے سے اتنی گہری وابستگی تھی کہ وہ انڈیا آفس لائبریری کو واپس ہندوستان لانا چاہتے تھے ۔ اس مقصد کیلئے وزیر تعلیم کی حیثیت سے اپنی کبر سنی اور خرابی صحت کے باوجود لندن تشریف لے گئے اور حکومت برطانیہ سے بات چیت کی ۔ گو برطانوی حکومت اس لائبریری کو واپس کرنے پر راضی نہیں ہوئی لیکن مولانا کی اس کوشش کو سب نے سراہا۔ مولانا انگریزی اور فرانسیسی سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے ۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر خورشید الاسلام کا ایک مضمون علیگڑھ کے محلے میں چھپا تھا‘ وہ مضمون مولانا کی نظر سے گزرا ۔ مولانا نے اُس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ اس مضمون کے طرز نگارش میں مضمون نگار نے ایک فرانسیسی ادیب کا تتبع کیا ہے ۔ مولانا کی رائے چھپنا تھا کہ پروفیسر خورشید الاسلام کا قد ادب میں بلند ہوگیا ۔ اسی طرح مولانا نے اردو کے نامور شاعر اخترالایمان کے نام پر ہلکا سا اعتراض کیا تھا کہ یہ ترکیب درست نہیں ہے کیونکہ اختر فارسی لفظ ہے اور ایمان عربی ۔ اختر الایمان نے اس کے جواب میں ایک دلچسپ نظم کہی تھی جس کا ماحصل یہ تھا کئی لوگوں کے نام کچھ ہوتے ہیں لیکن اُن کی شخصی صفات نام سے میل نہیں کھاتیں ۔ رابندرناتھ ٹیگور پہلے ہندوستانی تھے جنہیں نوبل پرائز ملا تھا ۔ انہوں نے وشوا بھارتی یونیورسٹی قائم کی جو اپنی طرز کی واحد یونیورسٹی ہے ۔ ہمارا قومی ترانہ ٹیگور کی دین ہے ۔ اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ ان ہستیوں کی ڈگریاں کیا تھیں اور یہ کس یونیورسٹی سے فارغ تھے تو یہ ہنسی کی بات ہوگی ۔
ہمارا خیال ہے کہ ہم نے اوپر بہت بڑی مثالیں دے دی ہیں ‘ ان عظیم المرتبت شخصیات کے ساتھ سمرتی ایرانی کا نام نہیں جوڑا جاسکتا ۔ ہم تو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قابلیت کا تعلق صرف ڈگریوں سے نہیں ہے ۔ مغل شہنشاہ اکبر اعظم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن انہوں نے اپنے دربار میں نورتن جمع کرلئے تھے ۔ آج کل وزارتیں صرف وزیروں سے نہیں چلتیں بلکہ قابل اور بااعتماد مشیروں اور معتمدوں سے چلتی ہیں ۔ سمرتی ایرانی کو بھی اپنے لئے نورتن تلاش کرنے ہوں گے ۔

عملی میدان میں کامیابی ایک تحفہ خداوندی ہے ‘ ہمیں ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا ۔ قدیم ریاست مدراس میں ایک بہت ذی اثر صاحب تھے جن کا نام تھا سرمحمد عثمان ‘ ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن اُن کے قریبی دوست تھے ۔ ایک مرتبہ سر محمد عثمان کا ایک تہنیتی جلسہ ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر رادھا کرشنن نے کی ۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے اُس موقع پر ایک دلچسپ تقریر کی ۔ انہوں نے کہا کہ ’’شاید ہی کوئی سر محمد عثمان کو اِس قدر قریب سے جانتا ہو جتنا میں انہیں جانتا ہوں ۔ طالب علمی کے زمانے میں وہ مجھ سے سینئر تھے ‘ پھر میرے ہم جماعت بنے ۔ اُس کے بعد وہ مجھ سے جونیئر ہوگئے اور بالآخر میرے طالب علم رہے لیکن جب میں یونیورسٹی کا پروفیسر ہوا تو وہ اسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے اور جب میں وائس چانسلر بنا تو وہ چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے ‘‘ ۔ بظاہر ڈاکٹر رادھا کرشنن نے مزاحیہ انداز اختیار کیا لیکن سر محمد عثمان کی عملی زندگی میں کامیابی کا اعتراف بھی کیا۔
دنیا میں کئی مثالیں ملتی ہیں جب بعض ہنرمند لوگوں نے اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پہچانا اور وہ راہ اختیار کی جس میں وہ بے انتہا کامیاب ثابت ہوئے ‘ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے ہمارے ملک کے عظیم فن کار دلیپ کمار اور راج کپور نے کالج کی تعلیم مکمل نہیں کی تھی ‘ ہمارے عہد کی عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر کی تعلیمی قابلیت کیا ہے لیکن اُس کی آواز ہمارے دلوں کو سکون بخشتی ہے ۔ اُس کی مادری زبان مراٹھی ہے لیکن بے شمار زبانوں کے گانے اُس نے اہل زبان کی طرح گائے ہیں ۔ نہ جانے کتنی یونیورسٹیوں نے دلیپ کمار اور لتا منگیشکر کو ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں دی ہیں ۔ سچن تنڈولکر نے بارھویں جماعت کا امتحان کامیاب نہیں کیا لیکن کرکٹ کے میدان میں اُس کے ریکارڈ ناقابل تسخیر ہیں ۔ سرڈانالڈ براڈ مین کی اُن کے آخری دنوں میں ایک خواہش یہ تھی کہ وہ تنڈولکر سے ملیں ۔ چنانچہ تنڈولکر آسٹریلیا جاکر اُن سے ملے ۔

چلتے چلتے ہمیں ایک چھوٹی سی مثال اور یاد آگئی ۔ ہماری ریاست کے آنجہانی چیف منسٹر ٹی انجیا کی تعلیمی قابلیت کیا تھی ہم خود نہیں جانتے ۔ اُن کی اصل شناخت لیبر لیڈر کی تھی ۔ بحیثیت مرکزی وزیر اور چیف منسٹر وہ کسی سے کم بھی نہیں تھے ۔ جب وہ چیف منسٹر تھے تو اکثر مواقع پر چھٹی کا اعلان کردیا کرتے تھے اس لئے طلبہ اور سرکاری ملازمین ٹی انجیا کو محبت سے تعطیل انجیا کہا کرتے تھے ۔
سمرتی ایرانی ایک اچھی ٹی وی آرٹسٹ رہی ہیں ‘ اداکاری اور حکومت کی کارکردگی میں بہت فرق ہوتا ہے لیکن اسٹیج کا فنکار بھی عوامی زندگی سے اسی طرح جُڑا ہوا ہوتا ہے جس طرح ایک جمہوری حکومت کا وزیر عوام سے وابستہ ہوتا ہے ۔ ہم سمرتی ایرانی کی وکالت نہیں کررہے ہیں لیکن ہم کو اُن سے اچھی توقعات ہیں ۔