وزیر اعظم کا مجوزہ دورہ کشمیر

مری کہانی تری داستاں سے ملتی ہے
کہیں تو جاکے زمیں آسماں سے ملتی ہے
وزیر اعظم کا مجوزہ دورہ کشمیر
وزیر اعظم نریندر مودی کل ہفتہ کو جموں و کشمیر کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس دورہ کی میڈیا میں زبردست تشہیر ہو رہی ہے اور کشمیر میں بڑے پیمانے پر تیاریاںبھی چل رہی ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے اس دورہ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔ ریاست میں پی ڈی پی ۔ بی جے پی حکومت کو اس دورہ سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔ ریاست کے عوام بھی منتظر ہیں اور یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دینے والے وزیر اعظم کشمیر کیلئے کیا کچھ اعلانات کرتے ہیں۔ مودی کے دورہ سے قبل سب سے زیادہ توجہ سکیوریٹی پر دی جا رہی ہے ۔ اس دورہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے بے شمار گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ کئی افراد کو گھروں پر نظربند کیا جا رہا ہے ۔ عوام کی نقل و حرکت پر تحدیدات عائد کی جا رہی ہیں۔ اور یہ سب کچھ ایک ہندوستانی ریاست میں ہندوستانی وزیر اعظم کے دورہ کیلئے کیا جا رہا ہے ۔ اس سے ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی حقیقی صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے ۔ اس دورہ کے جہاں سیاسی اثرات ہونگے وہیں اس کے ریاست کی معاشی ترقی اور اس کے مستقبل پر بھی اثرات مرتب ہونگے ۔ جموں و کشمیر کی ریاست ایسی ریاست ہے جو سرحدی ہونے کی وجہ سے بے انتہا حساس ہے ۔ اس کے علاوہ یہاں مسائل بھی بے شمار ہیں ۔ ایک دہے سے زیادہ عرصہ تک عسکریت پسندی اور تخریب کاری کا شکار رہنے کی وجہ سے یہاں معاشی سرگرمیاں اور ترقی ٹھپ ہوکر رہ گئی تھیں۔ اس کے نتائج آج تک ریاست کے عوام کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ سیاحت ختم ہونے کے قریب پہونچ گئی تھی ۔ عوام کو گذر بسر کے مواقع بآسانی میسر نہیں آ رہے تھے ۔ اب جبکہ حالات میں کافی تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور تخریب کاری کا اثر زائد ہوگیا ہے ایسے میں عام حالات کی بحالی اور اس میں مرکزی حکومت کی کوشش بہت اہمیت کی حامل ہوگی ۔ ریاست میں گذشتہ سال آئے بھیانک سیلاب کے متاثرین آج تک وزیر اعظم سے امداد اور کسی خصوصی پیکج کے منتظر ہیں۔ ریاست میں صنعتی سرگرمیوں کا نئے سرے سے آغاز کرنے اور سیاحت کو بحال کرنے کیلئے بھی خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ان سب کیلئے وزیر اعظم کے دورہ پر سبھی گوشوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔
وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ ریاست کیلئے ایک خصوصی معاشی پیکج کا اعلان کریں۔ اس بات پر توجہ کی ضرورت ہے کہ سیلاب متاثرین کیلئے اب تک بے شمار اعلانات ہوئے ہیں لیکن ان پر عمل ندارد رہا ہے ۔ ریاست کو نہ صرف امدادی پیکج کی ضرورت ہے بلکہ وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ ریاست کے سیاسی و معاشی چیلنجس پر بھی توجہ دیںاور ریاست کے عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے اقدامات کی تفصیلات پیش کریں۔ ریاست میں بے شمار نوجوا ن ایسے ہیں جو روزگار کے متلاشی ہیں لیکن انہیں مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ ان نوجوانوں کو قومی دھارے سے وابستہ رکھنے کیلئے انہیں معاشی سرگرمیوں سے جوڑنا ضروری ہے ۔ ریاست میں جو سیاسی عدم استحکام کی فضا حکومت کی حصہ دار جماعتوں میں اختلافات کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے اس کو ختم کرنے پر بھی وزیر اعظم کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ نریندر مودی کو اس دورہ کے سیاسی فائدوں پر نظر رکھنے کی بجائے قومی مفادات اور ریاست کی ترقی اور معاشی خوشحالی کو بحال کرنے پر توجہ کی ضرورت ہے ۔ ملک میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے بے شمار مواقع ہیں اور ان سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن ایک سرحدی ریاست میں معاشی اور سیاسی چیلنجس سے نمٹنے کی حکمت عملی فی الحال وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ ترقیاتی ایجنڈہ پر عمل کا ادعا کرنے والے وزیر اعظم سے اس دورہ کے موقع پر کافی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔
وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ ریاست کے جملہ مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش کریں۔ انہیں یہ تاثر دینے کی ضرورت ہے کہ جس طرح سے کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اسی طرح کشمیری عوام بھی ہندوستانی سماج اور قومی دھارے کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ جب تک ریاست کے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں میں یہ احساس پیدا نہیں کیا جاتا اس وقت تک ریاست کی ترقی کیلئے اقدامات ثمر آور ثابت نہیں ہوسکتے ۔بی جے پی کی جانب سے ادعا کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کی ریلی میں ایک لاکھ عوام شرکت کرینگے ۔ یہ کوئی انتخابی ریلی نہیں ہے اور نہ ہی طاقت کا مظاہرہ ہے ۔ یہ اہمیت نہیں ہے کہ ریلی میں کتنے لوگ شرکت کرینگے بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ اس ریلی میں ریاست کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی کیا کچھ اعلانات کرتے ہیں۔