وزیراعظم جن دھن یوجنا اسکیم کے تحت اکاونٹ کی کشادگی انتہائی مشکل

بینکوں کا کھاتہ کھولنے سے انکار، معاشی طور پر پسماندہ طبقات میں ناامیدی
حیدرآباد ۔ یکم ؍ ستمبر (سیاست نیوز) مرکزی حکومت کی جانب سے معاشی طور پر پسماندہ طبقات کیلئے شروع کردہ اسکیم وزیراعظم جن دھن یوجنا کے تحت بینکوں میں اکاونٹ کی کشادگی انتہائی مشکل ترین امر بن چکا ہے۔ بینکوں کی جانب سے اس اسکیم کے تحت کھاتے کھولنے کے متعلق صریح انکار کیا جارہا ہے جس کے سبب معاشی طور پر پسماندہ طبقات جو امید کے ساتھ بینک پہنچ رہے ہیں، انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد کی جانب سے معاشی طور پر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے شہریوں کیلئے علحدہ بزنس کرسپانڈنٹ سنٹر قائم کرتے ہوئے حکومت کی اسکیم کا مذاق اڑایا جارہا ہے چونکہ حکومت کی اسکیم کا مقصد معاشی طور پر پسماندہ طبقات کو بینک کاری نظام سے مربوط کرتے ہوئے انہیں سماج کے دیگر طبقات کے مساوی مقام عطا کرنا ہے لیکن اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد کی جانب سے کیا گیا یہ اقدام ان طبقات کو بینک کاری نظام سے دور رکھتے ہوئے انہیں دیگر کھاتے داروں سے علحدہ کرنے کی کوشش ہے جوکہ غریبوں کے ساتھ دوسرے درجہ کے شہری کے برتاؤ کے مماثل ہے۔ شاہ علی بنڈہ میں واقع اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد کے بزنس کرسپانڈنٹ سنٹر پر آج سینکڑوں برقعہ پوش خواتین کے علاوہ معصوم بچوں کو دیکھا گیا جو کہ حکومت کی اسکیم کے مطابق اپنے کھاتے کھلوانے کیلئے جمع تھے لیکن اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد کا یہ مرکز 12 بجے کے قریب تک بھی کھولا نہیں گیا تھا۔ اعلیٰ عہدیدار اس سنٹر کے متعلق بتاتے ہیں کہ اس مرکز سے متعلقہ برانچ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس مرکز کے قیام کا مقصد غریب طبقات کی رہنمائی کے ذریعہ ان کے کھاتے کھولنا ہے لیکن عہدیداروں کے اس بیان کو اگر درست تصور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بینک عہدیدار معاملہ کو ٹالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ غریب طبقات جو وزیراعظم کی جانب سے روشناس کروائی گئی اسکیم سے استفادہ کیلئے بینک پہنچ رہے ہیں، انہیں اس مرکز کا رخ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے چونکہ بینک میں دیگر کاروبار میں غرباء کی مداخلت کا سلسلہ نہ رہے۔ کئی اسکولی طلبہ جو اسکالر شپ کے حصول کیلئے بنیادی کھاتہ کھلوانے کے مقصد سے اس مرکز پر پہنچے تھے، ان کا نہ صرف دن ضائع ہوا بلکہ انہیں کوئی مناسب جواب بھی نہیں دیا گیا۔ بیشتر سرکاری بینکوں میں بھی مرکزی حکومت کی اس اسکیم پر مؤثر عمل آوری کیلئے کوئی میکانزم نظر نہیں آتا چونکہ بینک عہدیدار واضح طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ بنیادی کھاتہ کھولنے کے موقف میں نہیں ہے جس میں کھاتہ دار کو ایک روپیہ بھی ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ زیرو بیالینس اکاونٹ اور وزیراعظم جن دھن یوجنا اکاونٹ میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے لیکن بینکوں کی جانب سے ان کھاتوں کو کھولنے میں کی جانے والی ٹال مٹول سے ایسا محسوس ہوتا ہیکہ بینک کاری نظام کا ایک حصہ جو عہدیدار ہیں وہ نہیں چاہتے کہ غریب طبقات کو اس نظام سے مربوط کیا جائے۔ شاہ علی بنڈہ علاقہ میں آج عوام کو جو مشکلات پیش آئی، ان کے متعلق تفصیلات سے آگہی کے دوران یہ بات بھی واضح ہوئی ہیکہ اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد کے ان بزنس کرسپانڈنٹ مراکز پر قریبی متعلقہ برانچ کی جانب سے جتنے اکاونٹس کیلئے درخواستیں جاری کی جاتی ہے اتنی ہی تعداد میں درخواستیں ان مراکز پر موجود ہوتی ہیں جس کے باعث ان مراکز پر موجود عہدیدار جو کنٹراکٹ ملازم ہوتے ہیں وہ بھی صرف اتنے ہی درخواست فارموں کی اجرائی کے ذریعہ اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں۔ اعلیٰ عہدیدار ان غریب طبقات کی داد رسی یا شکایت کی سماعت کیلئے مرکز پر نہیں ہوتے اسی لئے کئی لوگ جو ان اسکیمات سے استفادہ کے خواہشمند ہیں، وہ اسکیم سے استفادہ نہیں کرپا رہے ہیں۔