وزیراعظم اور خواتین غیر محفوظ یہ مودی کا ہندوستان ہے پیارے

ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کو یہ منفی اعزاز دیا ہے کہ یہ سرزمین خواتین کیلئے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔ یہاں عزت ریزی ، زنا بالجبر کے واقعات سب سے ز یادہ ہوتے ہیں۔ اب اس رپورٹ پر ہم ہندوستان ناز کریں یا پھر شرم سے ہمارے سر جھک جائیں۔ اسی دوران یہ بھی پتہ چلا ہے کہ آزاد ہندوستان کی 70 سالہ تاریخ میں ملک کے وزیراعظم کی جان کو بھی خطرہ ہے ، اس لئے ان کی حفاظت اور حفاظتی حلقوں میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ وزیراعظم مودی کیلئے S.P.G یعنی اسپیشل پروٹیکشن گروپ کی تعداد میں اضافہ رہے گی۔ اب آپ ہی سوچئے کہ جس وزیراعظم کو اپنی ہی جان کا خطرہ لاحق ہے ، وہ بھلا دیش کے عوام خاص طور پر خواتین کی کیا حفاظت کرسکتا ہے ۔ وزیراعظم مودی کی حفاظت کیلئے جو حلقے بتائے گئے ہیں ، ان کو تین گروپس میں تقسیم کردیا گیا ہے۔

پہلا حلقہ ایس پی جی کا دوسرا ، نیم فوجی دستوں اور تیسرا حلقہ مقامی پولیس پر مشتمل ہوگا۔ اب وزیراعظم کی سیکوریٹی کو گویا یقینی بنادیا گیا ہے ۔ دنیا کے کسی اور عوام کے ذریعہ منتخبہ لیڈر کویہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔ مسٹر مودی کو زیڈ پلس سیکوریٹی دی گئی ہے لیکن ان ہزاروں لاکھوں خواتین کو جن سے ملک کی حفاظت کی تو امید ہی نہیں کی جاسکتی ہے ۔ وزیراعظم یا وزیر داخلہ کو صرف وزیراعظم کی سیکوریٹی دکھائی دے رہی ہے ۔ بے شک ہمارے سیاسی نظام میں وزیراعظم ملک کی آن بان اور شان ہے لیکن ہماری جمہوریت میں ہر ہندوستانی باشندہ کو بھی حفاظت کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ملک کے کسی وزیر اعظم یا ان کی کابینہ کے ارکان کو حاصل ہے لیکن کسی کو کیا پتہ کہ خواتین ہمارے سماج کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ جب اتنے اہم حصہ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے ، انہیں اوران کے حقوق کو نظر انداز کیا جائے تو بھلا ہمارے موجودہ وزیراعظم کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ خواتین کی آبرو ریزی ان کو کم تر درجہ کا شہری سمجھنے والے یہ کیسے بھول جاتے ہیں۔ ان کی آغوش میں ملک کا مستقبل پروان پاتا ہے ۔ یہی مائیں اور بہنیں ان کی پرورش کرتی ہیں۔ ملک میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں کی تو ایک طویل داستان ہے ۔ ان کے جذبات ان کے حقوق کو روندا جاتا ہے تو کبھی کبھی یہ خواتین دہلی سے لے کر کنیا کماری تک پرجوش احتجاج کرتی ہیں۔ میڈیا میں ان مظلوم خواتین کی خوب تشہیر ہوتی ہے ۔

خواتین کی تنظیمیں بھی ابھر آتی ہیں۔ ٹی وی والوں کو بھی ایک تازہ خبر ہاتھ لگتی ہے ، وہ 24 گھنٹے یہی کہانی دہراتے ہیں۔ کچھ دن بعد معاملہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے ۔ عوام کی یادداشت سے بھی واقعہ بخارات کی طرح اڑجاتا ہے ۔ اب کوئی واقعہ تشہیر پاتا ہے تو اس کے بعد مودی سرکار اپنے خواب غفلت سے بیدار ہوکر کہیں کوئی قانون بناتی ہے جیسے 2015 ء میں دہلی ہی کے شہر میں ایک میڈیکل کی طالبہ کو چلتی بس میں برہنہ کر کے ایک دو نہیں پانچ درندوں نے اس سے زبردستی کی۔ قانون یہ بتایا گیا تھا نربھئے نام دیا گیا تھا ، اس قانون کے بعد جس میں زانی کو سزائے موت دینے کی شق بھی شامل ہے ۔ کئی زور زبردستی اور آبرو ریزی کے واقعات ہوئے ۔ اگر قانون کے احترام اور اس کے نتیجہ میں ایسے بھیانک واقعات ہوتے رہے اوران کا سلسلہ تواتر و تسلسل ہے کہ ختم ہونے کا ایک ہلکا سا اشارہ بھی ہوا ، وہی اختیار بے ڈھنگی جاری ہے۔ دہلی کے واقعہ میں یہ مظلوم اسٹوڈنٹ بالآخر فوت ہوگئی۔ قانون دھرا کے دھرا رہا ۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ قانون کا خوف ہی جاتا رہا ۔ پھر عدالتی پیچیدگی اور قانون کو لاکھوں کروڑوں ہندوستانی باشندے جانتے ہی نہیں۔ کسی موقع پر علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ’’مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا‘‘ کی صورتحال ہے ۔ وزیراعظم کی جان کو خطرہ ہے تو بھی صحیح ہے کہ عام شہری خصوصاً خواتین کی آبرو ریزی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک وزیراعظم کی سیکوریٹی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ وزیراعظم کے اطراف مختلف حفاظتی گروپس کی موجودگی ان کے تحفظ کیلئے شاید کافی ہو لیکن عوام خاص طور پر خواتین ، طالبات اور مختلف قسم کے دفاتر میں کام کرنے والی عورتوں کا کیا ہوگا ۔ کیا انہیں اسی طرح بے آسرا کر کے اپنی عزت و ناموس کی قربانی دینی ہوگی؟ ملک کے وزیراعظم کا تحفظ یقیناً ہوجائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خواتین کا تحفظ بھی کیا جانا چاہئے ۔ وزیراعظم اہم ترین شخص ہیں۔ ملک صرف ان کی حفاظت کے یہ سارے اقدامات درست ہیں لیکن اس صورت میں ہی درست ہیں جبکہ ملک کے ہر شہری میں اپنے محفوظ ہونے کا احساس پیدا ہو اور وہ بے خوف و خطر سڑکوں پر گلی کوچہ میں جائیں ، انہیں کسی درندہ صفت زانی اور بدکار کا سامنا نہ ہو، تب ہی ملک اور اس کے وزیراعظم خوش اور مطمئن ہوسکتے ہیں۔