ورقہ بن نوفل

سوال : حدیث شریف میں حال ہی میں یہ بات مطالعہ میں آئی کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی کا نزول ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری تفصیلات بی بی خدیجتہ الکبری سے ذکر فرمائیں تو بی بی خدیجتہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی خواہش پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری روئیداد ورقہ بن نوفل سے ذکر کیں۔ ورقہ بن نوفل نے تفصیلات سماعت کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی ۔
آپ سے گزارش یہ ہے کہ آخر ورقہ بن نوفل کون تھے ، کیا وہ عیسائی تھے یا یہودی تھے ۔ اس سلسلہ میں روشنی ڈالیں تو مہربانی ہوگی۔
سید حامد علی چشتی، منگل ہاٹ
جواب : ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ، زمانہ جاہلیت کا ایک عیسائی عالم ، جو مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھا۔ انہوںنے دین حق کی تلاش میں انجیل کا مطالعہ کیا اور اتنا متاثر ہوئے کہ عیسائیت قبول کرکے نصرانی بن گئے ۔ وہ عربی اور عبرانی دونوں زبانیں بہ آسانی لکھ پڑھ سکتے تھے۔ اس زمانے میں انہوں نے انجیل کو عربی زبان میں لکھا تھا اور وہ خاصا عمر رسیدہ شخص تھا ۔ آخری عمر میں بصارت جاتی رہی تھی ۔
ورقہ بن نوفل ان عرب دانشمندوں میں سے ایک شخص تھا جس نے زمانہ جاہلیت میں جوا ، شراب دیگر نشہ آور اشیاء کو ترک کردیا تھا (المحبر، ص : 237 ) ورقہ بن نوفل کے اور بھی ہم خیال لوگ تھے جن میں ایک شخص ان کا خاص دوست زید بن عمر و بن نفیل بن عبدالعزی العدوی تھا ۔ جس نے زمانہ جاہلیت میں بت پرستی سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اور مردار ، خون اور بتوں کے نام پر ذبح کئے گئے جانوروں کو بھی کھانے سے پرہیز کرتا تھا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق غار حرا میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ جو پہلی وحی کا نزول ہوا اور جو گفت شنید رہی ، ساری تفصیلات نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی خدیجتہ الکبری سے ذکر کیں اور اندیشہ کا اظہار کیا کہ اس پیغام حق کے اعلان و دعوت پر آپ کی قوم آپ کو برداشت نہیں کرسکے گی ۔ حضرت بی بی خدیجتہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنھا جو بڑی دانشمند خاتون تھیں۔ انہوں نے آپ کو تسلی دی کہ ایسے نیک سیرت خوش اطوار بلند کردار اور بنی نوع انسان کے ہمدرد و خیر خواہ یتیموں و بیواؤں کے غمگسار و مددگار کو اللہ تعالیٰ تنہا نہیں چھوڑے گا ۔ حضرت خدیجتہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے اپنے ابن العم ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ جنہوں نے تفصیلات سن کر جہاں مقدس فرشتے کی تصدیق کی اور کہا کہ یہی وہ ناموس (فرشتہ ) ہیں جو حضرت موسی علیالصلاۃ والسلام کے پاس آیا کرتے تھے وہیں ورقہ بن نوفل نے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم اس اندیشہ کی کہ قوم آپ کو نکالے گی کی تائید کی اور اپنے قلبی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ : کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو شہر بدر کردے گی کیونکہ جب بھی کوئی نبی اللہ کا پیغام لیکر آئے تو قوم نے ان سے اذیت ناک سلوک کیا اور شہر چھوڑنے پر مجبور کردیا ۔اگر میں ز ندہ رہا تو آپ کی تصدیق و حمایت کروں گا ۔ تھوڑے عرصہ بعد ورقہ بن نوفل وفات پاگیا ۔ ان کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی (جمھرۃ انساب العرب ص: 491 بحوالہ اردو دائرۃ معارف اسلامیہ)

بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب
سوال : میں اپنے شوہر کا بہت خیال رکھتی ہوں۔ ان کی فرمانبرداری کرتی ہوں، ان کی مرضی کے مطابق کام کرنے کی پوری کوشش کرتی ہوں۔ اس کے باوجود وہ مجھ سے ناراض رہتے ہیں۔ خوشی اور مسرت کا اظہار نہیں کرتے۔ میرا خیال نہیں رکھتے۔ کیا شریعت میں صرف عورتوں کو مردوں کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کا حکم ہے۔ مردوں پر عورتوں کے لئے کچھ بھی احکام نہیں ؟
نام مخفی
جواب : اسلام نے بیویوں کے فرائض کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کو بھی بیان کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف (سورہ بقرہ)۔ (عورتوں کے فرائض کی طرح ان کے حقوق بھی ہیں)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندانی زندگی میں عورت کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: الدنیا کلھا متاع و خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ (مشکوۃ المصابیح) یعنی ساری کی ساری دنیا نعمت ہے اور بہترین نعمت نیک بیوی ہے۔ آپ نے مزید فرمایا: تم میں بہتر وہی ہے جس کا سلوک اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے اور میرا سلوک میری بیویوں سے سب سے اچھا ہے (ترمذی) ۔ لہذا مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہئے اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وعاشروھن بالمعروف (سورہ نسائ) یعنی تم اپنی بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت سے پیش آؤ۔ اگر شوہر کو بیوی کی کوئی عادت پسند نہ ہو تو یقیناً کوئی دوسری عادت ضرور پسند ہوگی تو پسندیدہ عادت کی قدر کرے اور ناپسندیدہ عادت کو درگزر کرے اور صبر کرتے ہوئے بتدریج اس کی اصلاح کی کوشش کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا : تم عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو وہ تمہیں اللہ کی امانت کے طور پر ملی ہیں اور خدا کے حکم سے تم نے ان کا جسم اپنے لئے حلال بنایا ہے۔ تمہاری طرف سے ان پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کسی غیر کو (جس کا آنا تم کو گوارا نہیں)۔ اپنے پاس گھر میں آنے نہ دیں، اگر وہ ایسا کرے تو تنبیہ کا حق مردوں کو ہے۔(ترمذی، ابن ہشام جلد 4 صفحہ 251) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے لئے سراپا محبت و شفقت اور رأفت و رحمت تھے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ھن لباس لکم کی مجسم تصویر تھے۔ لاڈ پیار ، ناز برداری، روٹھنا منانا، دلچسپی کے پہلو پیدا کرنا، رائے لینا اور ناموافق رائے کو برداشت کرنا وغیرہ یہ سب امور جو ایک ازدواجی زندگی میں پیش آتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب میں محبت ، نرمی ، مودت اور رحمت کا پیکر تھے۔ لہذا شوہر کو چاہئے کہ وہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کو اپنے پیش نظر رکھے تاکہ دین و دنیا کی سعادت نصیب ہو اور معلوم ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے ساتھ کیسا حسن سلوک فرمایا۔ علاوہ ازیں اگر شوہر بیوی کے ساتھ حسن سلوک نہ کرے،بیوی کی فرمانبرداری، اطاعت گزاری کے باوجود اس سے خوش نہ ہو تو بیوی کو ان حالات میں صبر سے کام لینا چاہئے اور اپنے حسن سلوک اور اطاعت و فرمانبرداری کو جاری رکھنا چاہئے کیونکہ ہر حال میں شوہر کی زیادتی پر صبر کرنے کا اجر و ثواب اللہ سبحانہ تعالیٰ کے پاس محفوظ رہے گا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب یعنی اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر و ثواب عطا فرماتا ہے۔

داڑھی کترنے والے کی امامت
سوال : اس سال رمضان المبارک میں ایک مسجدمیں شبینہ پڑھنے کا اتفاق ہوا، مسجد کے امام صاحب کا عمل قلبی تشویش کا باعث رہا، امام صاحب بظاہر شریعت کے پابند نظر نہیں آئے، ایک مشت سے داڑھی کم تھی، تراویح پڑھانے کیلئے جو حافظ صاحب تشریف لائے وہ شریعت کے پابند عالم دین اور متشرع تھے ۔ مسجد کے امام صاحب فرض نماز پڑھائے۔ تراویح اور وتر پڑھے بغیر چلے گئے ، امام صاحب کی داڑھی یکمشت سے کم ہونے کی بناء ان کی اقتداء بوجھل معلوم ہورہی تھی۔ براہ کرم شرعی نقطہ نظر واضح فرما کر رہنمائی فرمائیں۔
محمد برہان الدین خان، ملک پیٹ
جواب : ازروئے فقہ حنفی داڑھی مونڈھنا حرام ہے اور داڑھی کترنا (یکمشت سے کم رکھنا) بھی شرعاً جائز نہیں۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 5 ص : 269 کتاب الحظر والاباحتہ میں ہے : یحرم علی الرجل قطع لحینہ ای کتاب کی جلد 2 ص : 123 میں ہے: واما الأخذمنھا وھی دون القبضۃ کما یفصلہ بعض المغاربۃالخ۔
شرعاً امامت کیلئے ہر وقت اس مسجد کا رات دن نماز پڑھانے والا امام اولیٰ ہے جبکہ وہ پابند شریعت ہو اور اگر مقتدی امام میں واقعی کسی شرعی فساد کے پائے جانے کی وجہ سے اس کی اقتداء سے ناراض ہوں اور ایسے افراد موجود ہوں جو امامت کیلئے اس سے زیادہ حقدار ہوں تو ایسی حالات میں امام کی نماز مکروہ تحریمی ہے۔ عالمگیر جلد اول ص: 83 میں ہے: دخل المسجد من ھوا اولیٰ بالامامۃ من امام المحلۃ اولیٰ کذا فی القنیہ۔ درمختار برحاشیہ رد المحتار جلد اول ص : 391 میں ہے(والاحق بالامامۃ ) تقدیماً ۔الخ۔ردالمختار میں ہے: ای للامام الراتب (الا علم باحکام الصلاۃ) ۔الخ۔ اور اسی میں ہے (ولو ام قوما وھم لہ کارھون) ان الکراھۃ (لفساد فیہ او لانھم احق بالامامۃ کرہ)لہ ذلک تحریماً لحدیث ابی داؤد لا یقبل الہ صلاۃ من تقدم قوما وھم لہ کارھون۔

تاریخ ولادت با سعادت میں اختلاف
سوال : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد ساری دنیا میں بارہ ربیع الاول کو بڑی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہے ۔ لیکن بعض حضرات بارہ ربیع الاول کے بجائے دوسری تواریخ کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ قطعی طور پر ولادت نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کیا ہے وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیں تو مہربانی ؟
محمد تجمل احمد ، ملے پلی
جواب : رسول مقبول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت موسم بہار میں دوشنبہ کے دن 12 ربیع الاول سنہ اعام الفیل / (20 اپریل ) 570 ء کو مکہ مکرمہ میں ہوئی ۔ تاریخ انسانیت میں یہ دن سب سے زیادہ با برکت ، سعید اور درخشاں و تابندہ ہے۔
آپؐ کی ولادت کے سلسلے میں یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ اور دوشنبہ کا دن تھا اور وقت بعد از صبح صادق و قبل از طلوع آفتا ب۔ دوشنبہ (پیر) کا دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ کو پیدا ہوئے ۔ دوشنبہ کے دن آپؐ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا ۔ دوشنبہ کو مکے سے مدینے کو ہجرت کے لئے نکلے اور دوشنبہ کو آپؐ مدینے میں (شاید قباء مراد ہے جو مضافات مدینہ میں ہے) تشریف فرما ہوئے ۔ دوشنبہ کے دن آپؐ نے دارفانی کو خیر باد کہا اور دوشنبہ کے دن ہی آپؐ نے حجر اسود کو (25 برس کی عمر میں) بیت اللہ میں نصب فرمایا تھا (ابن کثیر : السیرۃ النبویہ ، 198:1 ) ، ایک روایت میں دوشنبہ کے ساتھ 12 ربیع الاول کا بھی ذکر ہے اور ساتھ ہی معراج نبوی کا دن بھی دوشنبہ بتایا گیا ہے (کتاب مذکور ، 199:1 ) ۔ جمہورؒ کے نزدیک ولادت مبارک کی تاریخ قمری حساب سے 12 ربیع الاول ہے، مگر کتب سیرت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سلسلے میں اور تاریخیں بھی مذکور ہیں۔ (شبلی نعمانی نے سیرت النبی (171:1 ) میں مصر کے مشہور ہیئت دان محمود پاشا فلکی کی تحقیقات کے پیش نظر 9 ربیع الاول 20 اپریل 571 ء کو ترجیح دی ہے ۔ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری نے اپنی کتاب رحمت للعالمین (40:1 ) میں آپؐ کی پیدائش 9 ربیع الاول ، عام الفیل / 22 اپریل 571 ء / یکم جیٹھ 628 بکرمی قرار دی ہے ۔ اس وقت شاہ ایران نوشیروان کے جلوس تخت کا چالیسواں سال تھا اور اسکندر ذوالقرنین کی تقویم کی رو سے سنہ 882 تھا ۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تحقیق کے مطابق عیسوی تاریخ 17 جون 569 ء تھی دیکھئے Muhammad Rasullah ص : 1 کراچی 1979 ۔ وہی مصنف ، Jurnal of Pak. Historical Society ، 1968 ء کراچی ، 216:16 تا 219 ) ۔