وجودِ زن

شاہانہ اقبال
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
جی ہاں! یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کا احساس اِس دنیا میں موجود ہر عورت کو ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ جس دور سے گزرتی ہے اُسے ہی دنیا کا سب سے سنہرا دور سمجھتی ہے۔ نہ گذرا ہوا دور اُس کے لئے اہم ہوتا ہے اور نہ ہی آنے والا کل کسی اہمیت کا باعث ہوتا ہے۔ وہ آج کے دور میں جیتی ہے اور اپنے آپ کو اُسی دور کی ہیروئین سمجھتی ہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ زندگی کے مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے اُس کے احساسات کیا ہوتے ہیں۔

عمر کے چار سال پورے ہوتے ہی اُسے اپنی اہمیت کا احساس یوں ہونے لگتا ہے کہ وہ جس محفل میں جاتی ہے لڑکیوں اور خواتین کی نگاہوں کا مرکز بن جاتی ہے۔ اس کی گوری گوری رنگت اور سیاہ ریشمی بالوں میں بندھی ٹائی نما رِبن، کانوں میں پہنے ہوئے چھوٹے چھوٹے بُندے اور کلائیوں میں پہنی فراک کی ہم رنگ خوبصورت چوڑیوں کے ساتھ وہ یوں اِتراتی پھرتی ہے جیسے ساری دُنیا میں وہی ایک قابل توجہ ذات ہو، ہر کوئی اُسے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا ہوتا ہے جس کی تپش سے اُس کے گالوں پر گلاب کھلنے لگتے ہیں۔
نو سال کی عمر میں لڑکپن کے حدود پھلانگتے ہوئے اُسے محسوس ہوتا ہے کہ اُس کے چاہنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا ہو۔ ہر کسی کی زبان پر اُسی کا نام ہوتا ہے۔ دادی اور نانی، اُس پر واری نیاری جاتی ہیں۔ اُسے قدم قدم پر خود کو سنبھالے رکھنے کی ہدایتیں دیتی ہیں۔ بیٹی یوں کرو ، یوں نہ کرو، جیسے وہ لڑکی نہیں کچّی مٹّی کا برتن ہو جو ذرا سی بد احتیاطی سے ٹوٹ جائے گا۔ گھر آنے والوں کی آنکھوں میں پسندیدگی کا تاثر دیکھ کر یوں اٹھلاتی پھرتی ہے جیسے پہاڑی پگڈنڈی پر چھلانگیں مارتی ہوئی ہرنی، اُسے ہر پل اور ہرلمحے ہر خیال گھیرے رہتا کہ وہ اپنے چہیتوں کی نگاہوں کا مرکز بننے لگی ہے۔

بارہ سال کی ہوئی تو اُس کی بند بند پلکوں کے درمیان خوابوں کے حسین قافلے اُترنے لگے۔ نت نئے، دل کو گدگدانے والے خیالات میں گِھری وہ نئی راہ پر چل پڑتی ہے۔ ایک ایسی راہ پر جس سے وہ اب تک انجان تھی۔ اِس راہ پر قدم رکھتے ہوئے وہ بہت مسرور تھی جیسے اُسے منزل تک پہنچنے کا راستہ مل گیا ہو۔ گھر کے سارے افراد رات دیر گئے تک خوش گپیوں میں مصروف رہتے لیکن اُس کا دل چاہتا وہ جلد سے جلد سوجائے تاکہ رنگین سپنوں کا سلسلہ دوبارہ وہیں سے شروع ہوجائے جہاں کل رات وہ جاگنے سے پہلے دیکھ رہی تھی۔ اپنے ان آدھے ادھورے خوابوں سے گذرتے ہوئے اُسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی زندگی کے حسین دور میں ہو۔
سولہ سال کے ہوتے ہوتے اُس کے گالوں پر پکے ہوئے سیبوں کی طرح سُرخی چمکنے لگی، آنکھوں میں عجیب سی کشش آگئی تھی۔ نرم و نازک ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑیوں سے تعبیر کیا جانے لگا۔ چنچل اور کُھل کُھل جانے والی سیاہ زُلفیں بہت بے باک ہوگئی تھیں جو کبھی اُس کے ماتھے پر جھولتیں تو کبھی اُس کے گالوں کا بوسہ لینے لگتیں۔ اُس کی گوری گوری گردن سے یوں لپٹ جاتیں جیسے اُس کی خوبصورت صراحی دار گردن پر قربان ہورہی ہیں۔ بناؤ سنگھار کے بغیر وہ چودھویں کا چاند لگنے لگی تھی۔ مستی بھرے طوفان سے گذرتے ہوئے وہ اپنے بارے میں پہروں سوچتی کیا زندگی کا کوئی دور اِتنا دلکش ہوسکتا ہے۔
Teen age کو الوداع کرتے ہی والدین کی سرگوشیاں سُن کر اُس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور سانسیں غیر ہموار ہونے لگیں جو آئے دن اُس کو گھر سے رُخصت کرنے کے منصوبے بنارہے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُسے بابل کے آنگن سے اپنے ساتھ لے جانے والا اجنبی اُسے اپنا ہمسفر بنائے اُسے ایک نئی دنیا میں لینے آیا جہاں والدین، بہن بھائی، اور عزیز، درشتے داروں سے دور ہونے کے باوجود نئے رشتوں سے ملے پیار و محبت اور چاہت کے احساس سے وہ سرشار ہوگئی۔ اس دور کو قریب سے دیکھا تو یقین ہوگیا کہ زندگی کا سب سے سنہرا دور تو یہی ہے جہاں اپنے آپ کو کسی کی ذات میں گُم کرکے اُس کی مسحور کن سنگت میں بہت مسرور تھی۔ پل پل کا ساتھ، خود پر نچھاور ہونے والی نظروں کے سحر کا احساس اور بے شمار التفات کا حصول اُسے اپنی ہی نظروں میں منفرد اور پُروقار بنارہا تھا۔
شوہر کے اٹوٹ پیار اور ساس سُسر کی شفقتوں سے وہ پوری طرح سیراب ہونے بھی نہ پائی تھی کہ اُسے محسوس ہوا کہ اُس کے قدموں کے نیچے جنت کی تعمیر کا آغاز ہونے لگا ہے۔ اس نوید کے ملتے ہی اُس پر نوازشوں اور محبتوں کی برسات ہونے لگی، جیسے اُس نے کوئی ایسا انوکھا کام کردیا ہو جو آج تک دنیا میں کسی نے نہ کیا ہو۔ اُس کے چہرے پر قوس و قزح کے ساتوں رنگ بیک وقت نظر آنے لگے تھے جس سے اُس کا چہرہ دلکش دکھائی دے رہا تھا۔ منٹ منٹ کی توجہ اور دیکھ بھال نے اُسے اپنے آپ میں کلیوں کے چٹکنے کے لطیف احساس سے روشناس کروایا تھا، وہ بہت خوش تھی اور رہ رہ کے سوچتی حیات کا یہ دور پچھلے سارے ادوار سے جُدا اور سرور بخش ہے۔
نو ماہ کے جہدِ مسلسل کے بعد اُس کی زندگی میں وہ گھڑی آئی جب اُسے غازی کا مرتبہ حاصل ہوا۔ وہ، وہ ساری تکلیفیں بھول گئی جس سے وہ گذری تھی۔ ماں بن کر وہ نہال ہوگئی۔ ممتا کے جذبے نے اُس کے تقدس میں چار چاند لگادیئے تھے۔ بیٹے کے روپ میں اُس کے اپنے جسم کا ایک حصہ اُس کی چھاتی سے چمٹا لگا اپنی بھوک مٹا رہا تھا۔ اُس کے جسم میں دوڑتے سرخ خون کے قطرے سفید دودھ میں تبدیل ہوکر اُسے زندگی کے سب سے بلند و بالا مرتبہ ’’ماں‘‘ کا رُتبہ دے رہے تھے۔ ننھے سے وجود کو اپنی آغوش میں سمیٹے وہ سوچ رہی تھی کیا زندگی کا کوئی اور دور اِس دور سے زیادہ خوبصورت ہوسکتا ہے جسے عورت کی تکمیل کا دور کہا جاتا ہے۔

’’تیسی تو کھیسی‘‘ عورت کے تعلق سے یہ کہاوت مشہور ہے۔ ہوسکتا ہے حُسن و جمال اور جسمانی توانائی کی وجہ سے یہ کہاوت درست ہو لیکن اِس عمر کو پہنچ کر وہ شعور اور تجربے کے جس دور میں داخل ہوئی تھی وہ کوئی غیر اہم نہیں تھا۔ ننھے سے بیٹے اور بیٹیوں کی نگہداشت میں اُس نے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ لگادیا۔ بچوں کے چھوٹے رہتے اُس نے اُن کی زندگی کی بنیادی ضرورت گھر کی تعمیر کے سلسلہ میں اپنی پائی پائی کرکے جوڑی گئی رقم اور اپنے قیمتی زیورات فروخت کردیئے جس سے اُس کی جذباتی وابستگی تھی۔ یہاں اُس نے جس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا تھا یہ اُس کا دل جانتا ہے۔ بچوں کی اس بنیادی ضرورت کی تکمیل کرکے وہ بہت خوش تھی۔ ہر تقریب میں بنا زیورات کے جانے کے باوجود اُس کی گردن فخر سے تنی رہتی۔ محفل میں جب بھی وہ زیورات سے سجی سنوری خواتین کو دیکھتی اُسے لگتا جیسے اُنھوں نے اپنی نامکمل ضروریات کا طوق اپنی گردن میں ڈال رکھا ہو۔ اپنے ذاتی گھر میں بچوں اور شوہر کے ساتھ رہتے وہ اپنے آپ کو دُنیا کی خوش نصیب عورت سمجھتی تھی۔ جسے اللہ نے اپنی ہر عنایت سے نوازا تھا۔ اُسے اُس ذاتی گھر کی مالکن بنادیا تھا جس کے خواب وہ برسوں سے دیکھتی چلی آئی تھی۔

اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت میں بھی اُس کا بڑا ہاتھ تھا۔ میاں کی تنخواہ ہزار روپیے بڑھتی تو کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے اخراجات دو ہزار بڑھ جاتے۔ بچوں کی فیس بھی کئی گنا بڑ چکی تھی جس کے لئے اُسے ذاتی خرچوں میں کٹوتی کرنی پڑی یوں اُس کی کئی ضرورتیں پوری ہونے سے رہ جاتیں۔ پہلے تو اُس نے باہر سے سودا سُلف لانے والی کی چُھٹی کردی پھر گھریلو کام کاج میں مدد کرنے والی ملازمہ کو بھی فارغ کردیا۔ دن بھر وہ کام کاج میں مصروف رہتی لیکن اُس کے چہرے پر تھکن کا کوئی احساس نظر نہیں آتا۔ شائد اس لئے کہ وہ کام کہاں کرتی تھی وہ عبادت کیا کرتی تھی جس کے عوض اللہ نے بے شمار انعام و اکرام سے نوازنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ دُنیا میں ملنے والی سرخروئی سے تو وہ پہلے ہی بڑی سرشار تھی۔ زندگی کے کسی اور دور میں وہ اتنی سرشار کبھی نہیں تھی۔ اپنے تینوں بچوں کو بام عروج پر پہنچانے کا خیال اُسے ہر پل تازہ دم رکھتا تھا۔

اُس کی دن رات کی کاوشوں کے بدلے اُس کے بیٹے نے بی ۔ ای کرلیا اور دونوں لڑکیاں گریجویٹ ہوگئیں۔ اب اُن کی شادیوں کا مسئلہ سامنے کھڑا تھا۔ بیٹیاں بے شک خوبصورت تھیں۔ ماں کی تربیت نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا تھا لیکن لڑکیوں کی شادی کے لئے ایک خطیر رقم کی ضرورت تھی جو اُس کے پاس نہ ہونے کے برابر تھی۔

پچھلے سال جب اُس کے والد فوت ہوئے تو اُسے ترکے میں ایک مکان ملا تھا جسے آمدنی میں اضافے کی خاطر اُس نے کرایہ پر اُٹھایا ہوا تھا۔ ترکہ میں ملا مکان فروخت کرکے اُس نے دونوں بیٹیوں کی شادی کردی۔ دونوں بیٹیاں اپنے اپنے سسرال میں خوش تھیں اپنے بیٹے کی شادی بھی وہ وقت پر کرنا چاہتی تھی۔ گوکہ اُس کی تنخواہ بہت کم تھی اور اُس کے پاس بھی کچھ نہیں بچا تھا لیکن اُس نے سوچا بیٹے کی شادی کے لئے رقم جمع کرنے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے وہ کسی ایسے گھر کی لڑکی بیاہ کر لائے گی جہاں نہ لین دین کی شرط ہو اور نہ ہی کوئی مطالبات۔ وہ اپنے بیٹے کی جوانی کے وہ سنہری سال محفوظ کرنا چاہتی تھی جو آگے وہ لاکھوں روپئے دے کر بھی واپس نہیں لاسکتی تھی۔ بیٹے کی شادی کرنا یوں بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ بیٹے کی محبت کو بانٹنے والی کو لانے کے لئے حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی ازدواجی زندگی میں جوڑی، ایک ایک چیز بہو کے لئے کرنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ اِس کٹھن دور میں بھی اُس نے صبر و استقلال سے کام لیتے ہوئے سارا گھر اور اُس کے اختیارات بہو کے حوالے کرکے وہ اپنے شوہر کے ساتھ اُس کمرے میں منتقل ہوگئی جو گھر کے بزرگوں کے لئے مختص تھا۔

زندگی کے ہر دور کو اُس نے بڑی فراخدلی سے ہنستے کھیلتے جیا تھا۔ زندگی کے ہر دور کی اپنی خوشیاں اور اپنے مراحل ہوتے ہیں جسے کبھی اُس نے ناقابل حل نہیں سمجھا۔ اُس نے اپنی ساری زندگی قابل رشک انداز میں گذاری تھی۔ وہ اپنی زندگی سے بہت خوش اور مطمئن تھی لیکن زندگی کا آخری امتحان ابھی باقی تھا۔ ایک چھوٹی سی پھنسی نے کینسر کی شکل اختیار کرلی اور اُسے اِس موذی مرض کا مقابلہ کرنے تیار ہونا پڑا۔ زندگی کے آخری مرحلہ میں جب انسان کسی موذی مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے تو وہ آہ و بکا کے ذریعہ خود اپنی اور گھر والوں کی زندگی جہنم بنادیتا ہے لیکن اُس نے ایسا کچھ نہیں کیا صبر و ضبط سے اِس آخری امتحان سے بھی گذر گئی۔ اُسے احساس تھا کہ زندگی کا ہر مرحلہ دشوار ترین ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی بنایا جاسکتا ہے۔ وقتِ مرگ اُس کے چہرے پر وہ مسکراہٹ تھی جو کسی غازی کے چہرے پر ہوتی ہے اور لوگ اُس کی موت پر رشک کررہے تھے۔