وتر کی قضاء

سوال : احادیث کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی کہ رات کی آخری نماز (نماز وتر) ہے۔ نیز وتر کی نماز تہجد کی نماز کی ادائیگی کے بعد پڑھنا بہتر ہے ۔ وغیرہ وغیرہ۔
زید ا لحمد للہ ان روایات کے علم میں آنے کے بعد نماز وتر ’’ نماز تہجد کے بعد ادا کرنے کی ممکنہ کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں مزید چند ضروری معلومات کی ضرورت آپ کی طرف رجوع ہونے کی وجہ بنی ۔ امید کہ تشفی بخش معلومات فراہم کی جاکر مشکور فرمائیں گے۔
– 1 اگر نیند سے بیدار نہ ہو اور فجر کی اذاں ہوجائے تو کیا نماز وتر کی قضاء ادا کرنا ہوگا ۔ یعنی کیا نماز وتر کی قضاء ہے ؟
– 2 نماز وتر کی ادائیگی کے دوران فجر کی اذاں سنائی دے تو کیا نماز وتر ادا ہوجائے گی ؟
– 3 دوران رمضان تراویح کے بعد مساجد میں نماز وتر باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ کیا زید کو سابق کی طرح نماز تہجد کے بعد ہی نماز وتر ادا کرنا چاہئے یا نماز تراویح کے بعد باجماعت نماز وتر ادا کرنی چاہئے ؟ کونسا عمل افضل ہوگا ؟
محمد احمد، ملک پیٹ
جواب : فرض نماز یا واجب نماز ترک ہوجائے تو اس کی قضاء لازم ہے اور واجب الوتر کا وقت عشاء کا وقت ہے، اس لئے فجر کے وقت میں کوئی وتر ادا کرے یا وتر فوت ہوجائے تو اس کی قضاء لازم ہے۔ رمضان المبارک میں تنہا واجب الوتر پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ باجماعت ادا کی جائے تاکہ جماعت کا ثواب بھی حاصل ہوجائے۔

لڑکیوں کو بالکلیہ محروم کرنا گناہ ہے
سوال : میرے والد محترم کو 5 لڑکے اور 3 لڑکیاں ہیں اور میری والدہ کا انتقال ہوچکا ہے۔ میرے والد محترم کے 2 عدد مکانات ، 1 عدد دوکان ہے، ایک سال قبل میرے والد نے 2 مکانات میرے 5 بھائیوں میں قرعہ اندازی کے ذریعہ تقسیم کرچکے ہم تین بہنوں میں کوئی رقم تقسیم نہیں کئے اور نہ ہی رقم دینے کا وعدہ کیا اور اب حال ہی میں والد صاحب اور ہمارے بھائیوں نے مل کر 70 سالہ قدیم دوکان کثیر رقم کے عوض دوسروں کو دینے کا معاہدہ طئے کر کے بطور اڈوانسڈ کچھ رقم لے چکے ہیں۔ اور ایک مہینہ کے بعد قبضہ دے کر رقم لینے والے ہیں اور ہم نے والد صاحب اور بھائیوں کی زبانی یہ کہتے ہوئے سنا کہ دوکان میں سے کوئی رقم بہنوں کو نہیں ملے گی۔
مہربانی فرماکر قرآن اور حدیث کی رو شنی میں فتویٰ دیں کہ ہم تین بہنوں کو دو مکانات اور ایک دوکان میں سے بطور شرعی حساب کتنا حصہ ملے گا یا صرف مکانات سے یا مکانات اور دوکان سے دونوں میں حصہ ملے گا تو کتنا حصہ ملے گا ؟
فریدہ ملک، نامپلی
جواب : صاحب جائیداد کا اپنی زندگی میں جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا درحقیقت ہبہ ہے۔ وہ حسب مرضی تمام اولاد میں سب کو برابر برابر یا کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دے سکتا ہے۔ بشرطیکہ کسی کو نقصان پہنچانے کا قصد نہ ہو ورنہ بلا لحاظ ذکور و اناث سب کو برابر برابر دینے کا حکم ہے ۔ اولاد میں بعض کو دیکر بعض کو بالکلیہ محروم کردینا گناہ ہے۔
در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 4 کتاب الھبتہ میں ہے : وفی الخانیۃ لابأس بتفضیل بعض الاولاد فی المحبۃ لانھا عمل القلب و کذا فی العطایا ان لم یقصدبہ الاضرار وان قصدہ یسوی بینھم یعطی البنت کلابن عندالثانی و علیہ الفتوی ولو وھب فی صحتہ کل المال للولد جاز واثم۔ لہذا مذکور السئوال صورت میں صاحب جائیداد کا اپنے مکانات اور دوکان نرینہ اولاد میں تقسیم کرنا اور لڑکیوں کو مال و متاع جائیداد سے بالکلیہ محروم کرنا شرعاً گناہ ہے۔ لڑکیوں کو کچھ نہ کچھ ضرور دینا چاہئے ۔

جمعہ کی نماز میں بوقت اقامت کب کھڑا ہونا چاہئے
سوال : بعض مساجد میں جمعہ کے دن خطبہ ثانیہ کے بعد امام صاحب کی طرف سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ تمام اصحاب کھڑے ہوکر صف بندی کریں اور سل فون بند کرلیں۔ امام صاحب کے حکم کی بناء ۔
عموماً تمام لوگ صف بندی کرتے ہیں البتہ بعض اصحاب بیٹھے رہتے ہیں اور حی علی الفالح کے وقت کھڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے صف بندی میں خلل پیدا ہوجاتا ہے اور بعد میں پیچھے سے لوگ صف بندی کرتے ہیں۔ اقامت کے وقت کھڑے رہنے والوں کا عمل درست ہے یا بیٹھنے والوں کا عمل صحیح ہے ؟
براہ کرم تشریح شریعت کے مطابق فرمائیں تو مناسب ہے
عفان خان، حیدرگوڑہ
جواب : عام پنجوقتہ نمازوں میں بوقت اقامت امام مصلی کے قریب موجود ہو تو امام اور مقتدی سب کو حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا چاہئے اور اقامت کے وقت امام مصلی کے پاس موجود نہ ہو پیچھے سے آرہا ہو تو جس صف سے وہ گزرے وہ صف کھڑی ہوجائے اور یہ حکم آداب نماز سے ہے ۔ مراقی الفلاح ص 135 فصل من آدابھا میں ہے : (و) من الادب (القیام) ای قیام القوم والامام وان کان حاضر اتقرب المحراب (حین قیل) ای وقت قول المقیم (حی علی الفلاح) لأنہ أمربہ فیجاب وان لم یکن حاضرا یقوم کل صف حتی ینتھی الیہ الامام فی الاظھر۔ البتہ جمعہ کی نماز میں امام خطبہ ختم کرتے ہی اقامت شروع کردینی چاہئے۔ امام کو خود بیٹھنے کا موقع نہیں رہتا اور جب امام کھڑے رہے تو سارے مقتدیوں کو کھڑے ہوکر صف بندی کرنی چاہئے۔

نکاح میں ’’ کفو‘‘ کا سبب
سوال : ایک مسئلہ میں مجھے ایک عرصہ سے اشکال ہے‘ اگر آپ اس کو دور فرمادیں تو مہربانی ہوگی۔ یہ مشہور ہے کہ اسلام میں عظمت و فضیلت صرف تقوی کی وجہ سے ہے ‘ کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں ۔ نمازمیں آقا و غلام ‘ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب اسلام نے دنیا کو مساوات کا درس دیا ہے تو نکاح کے مسئلہ میں ’’ کفو‘‘ کا اعتبار کیوں کیا گیا۔ کیا صرف مسلمان ہونا کافی نہیں ہے ؟ کیا یہ اسلام کے درس مساوات کے خلاف نہیں ہے کہ مرد ‘ عورت کا برابر ہو۔اس بارے میں اگر آپ شریعت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں گے تو نوازش ہوگی۔
خلیل اللہ حسینی، مراد نگر
جواب : شریعت مطھرہ میں نکاح کے احکام پر غور کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان رشتہ نکاح مستحکم ہو اور ان کے درمیان باہمی ہم آہنگی و موافقت ہو تاکہ ان کی ازدواجی زندگی خوشحال رہے اور جب رشتے بے میل اور بے جوڑ ہوتے ہیں تو بالعموم زوجین میں موافقت اور ہم آہنگی باقی نہیں رہتی اور یہی چیز عموماً رشتہ نکاح کے ٹوٹنے کا سبب بن جاتی ہے اور بے جوڑ رشتے لڑکی کے خاندان والوں کے لئے شرمندگی و عار کا سبب بن جاتے ہیں اس لئے شریعت میں کفو کے مسئلہ کو اہمیت دی گئی کہ لڑکا نسب ‘ حریت ‘ اسلام ‘ دینداری ‘ مال ‘ پیشہ میں عورت کے برابر یا اس سے بہترہو اور یہ حکم صرف دنیوی مصلحتوں کی وجہ سے ہے۔ اخروی فضیلت کا دارومدار تو تقوی وپرہیزگاری پر ہے ۔ امام کردری صاحب فتاوی بزازیہ نے مناقب امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جلد دوم صفحہ 240 میں لکھا ہے: بل أمراشتراط الکفاء ۃ لتحقق المقاصد المطلوبۃ من النکاح من انتظام المصالح والمعاش فان الزوج یعلو علیھا بحکم المالکیۃ وھی تتعاظم بحکم ما فیھا من الشرف والدعۃ فلا یلتئم کل التصرف فانہ المقصد الاصلی والحکم الموضوع فلا یعادلہ ۔ پس خلاصہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو نگران بنایا‘ بیوی پر ایک درجہ فضیلت عطا کی اور بیوی جب شوہر سے حسب نسب مال و پیشہ وغیرہ میں اعلیٰ ہو تو شوہر اپنی بلندی ظاہر کرنا چاہے گا اور بیوی اپنے آپ کو اس سے بلند متصور کریگی اور دونوں میں میل اور ہم آہنگی باقی نہیں رہے گی اسی وجہ سے شریعت میں کفو کو مقرر کیا گیا ہے اور یہ حکم اسلامی مساوات کے منافی یا مخالف نہیںہے۔

بیوی کے زیور کا مسئلہ
سوال : شادی میں لڑکی کے ماں باپ جو زیور دیتے ہیں اور دولہے کی طرف سے بھی لڑکی کو جو کچھ زیور دیا جاتا ہے وہ شرعاً کس کی ملکیت ہے ؟ ایک شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور جو زیور لڑکی کے ماں باپ نے دیا تھا وہ تو لڑکی کو دیدیا لیکن جو زیور دولہے والوں کی طرف سے ڈالا گیا تھا اور جو تحفوں کی شکل میں رشتہ داروں نے دلہن کو دیا تھا وہ سب اپنے پاس رکھ لیا۔ آپ یہ بتایئے کہ کیا یہ تمام کا تمام زیور لڑکی کو مل جانا چاہئے یا شوہر نے جو کیا ہے وہ درست ہے ؟ دولہے والوں کا کہنا ہے کہ ہم اپنا زیور نہیں دیں گے۔ یہ ہم ڈالے تھے، یہ ہمارا ہے ؟
نام مخفی
جواب : بوقت عقد لڑکی کو اس کے والدین کی طرف سے جو زیورات ، ملبوسات اور تحفہ جات دیئے جاتے ہیں اسی طرح لڑکے والوں نے بطور چڑھاوا جو زیورات ، ملبوسات اور تحفہ جات دیتے ہیں وہ لڑکی کے حق میں ہبہ ہونے کی بناء لڑکی کی ملکیت قرار پاتی ہے ۔ بعد طلاق لڑکی ماں باپ کے زیورات اور چڑھاوے کے زیورات کی مالک رہتی ہے اس لئے بعد طلاق لڑکے والوں کا اپنے چڑھاوے کے زیوارت لڑکی کونہ دیکر اپنے پاس رکھ لینا شرعاً درست نہیں ہے۔

سردی کی بناء ، تیمم کرنا
سوال : میری عمر چھیسٹھ (66) سال ہے، میں صوم و صلوۃ کا بچپن سے پابند ہوں۔ حالیہ عرصہ میں بیمار ہوا تھا، الحمد للہ اب بہتر ہوں، بسا اوقات فجر کے وقت سردی محسوس ہوتی ہے تو کیا ایسے وقت میں مجھے تیمم کی اجازت مل سکتی ہے یا مجھے وضو کرنا چا ہئے؟
عبدالرحمن، ورنگل
جواب : سردی کی وجہ سے تمام ائمہ کے اجماع کے مطابق تیمم کرنا صحیح نہیں، البتہ اتنی سخت سردی ہو کہ جس کی وجہ سے عضو کے تلف ہوجانے کا اندیشہ ہو یا بیماری کے بڑھنے کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں تیمم کرنا درست ہے۔ نفع المفتی والسائل ص : 14 میں ہے : اذا الم تخف فوات العضو اوزیادۃ المرض وغیرہ من الاعذار المرخصۃ للتیمم لا یجوز التیمم بمجرد شدۃ البرد بالا جماع من خزانۃ الروایۃ عن الغیاثیۃ۔
لہذا حسب صراحت صدر آپ عمل کریں۔ تاہم سردی کے موقع پر آپ پانی گرم کر کے وضو کرلیا کریں تو بہتر ہے۔