والدین کی اولاد پر زیادتی

محمد ابراہیم
اللہ تعالی نے انسان کو اولاد ایک انمول نعمت عطا کی ۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے بہت کم ہے ۔ اگر ہم ان حضرات کو دیکھیں جو اس انمول نعمت سے محروم ہیں تو اس قیمتی نعمت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔ اس سے ان کے خیالات اور ان کی چاہت کا پتہ چلتا ہے ۔ہم اب ابتداء والدین کی ذمہ داری اپنی اولاد پر کیا ہوتی ہے کے ذکر سے آگے بڑھتے ہیں۔ ہر ماں باپ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ اعلی تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اس میں سب کو کامیابی نہیں ملتی بلکہ چند افراد کو اس کا اعزاز حاصل ہوتا ہے ۔ رفتہ رفتہ زندگی آگے بڑھتی جاتی ، بچے اپنی تعلیم پر توجہ دے کر اپنے والدین کی سختی اور لاڈ پیار کے ذریعہ اپنے مشن کو پورا کرتے ہیں ۔ بعض حضرات اپنے بچوں کی پسند کا لحاظ رکھتے ہوئے پڑھاتے ہیں اور بعض حضرات اپنی مرضی کے مطابق اپنی پسند کی پڑھائی ان پر زبردستی مسلط کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ اس میں کامیاب ہوتے باقی ناکام ہوتے ہیں ۔ ایک اپنی پسند اور ایک اولاد کی پسند دونوں میں ایک پر عمل ہوتا ہے اور بعض لوگ اپنی لڑکیوں کو ملازمت کرواتے ہیں لڑکوں کو تو کسی بھی صورت میں ملازمت کرنا پڑتا ہے یا اعلی تعلیم یافتہ بزنس مین بننا پڑتا ہے ۔

دوسرا پہلو والدین اپنی اولاد کے ساتھ برتاؤ میں یکسانیت نہیں رکھتے ایک پر زیادہ دلچسپی اور دوسرے پر عدم دلچسپی جس سے بچوں کے دل میں عجیب قسم کے خیالات نمودار ہوتے ہیں ۔ بعض بہ حالت مجبوری برداشت کرتے ہیں اور بعض اس کی انتقامی کارروائی کرتے ہیں اور والدین کو ان دنوں کی یاد دلاتے ہیں ۔ ملازم پیشہ لڑکیاں اپنی ملازمت پر روزانہ حسب معمول جاتی اور آتی ہیں ۔ کافی دن کمانے کے بعد اپنی شادی کے لئے پیسہ جمع کرتی ہیں پھر والدین کو بعد میں ان کی شادی کرنے کا خیال آتا ہے اور سوچتے ہیں کہ اب وقت آگیا کہ جلد سے جلد لڑکی کی شادی کردیں اور اچھا رشتہ کرنا اور اچھے گھرانے میں تعلیم یافتہ لڑکے کو جس کی صورت و سیرت اچھی ہو کو ترجیح دیتے ہیں ، رفتہ رفتہ رشتے ڈھونڈنے کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اپنے دوست احباب رشتے دار یا محلے والے یا اپنی ذاتی کوشش کرتے ہیں ۔ جیسے جیسے دن گذرتے ہیں اگر کسی قسم کی تاخیر ہورہی ہو تو ان کی قوت برداشت آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتی ہے اور وہ اچھے اور برے میں فرق کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں کیونکہ موجودہ حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے نت نئی چیزیں دیکھنے کا سابقہ پڑتا ہے ۔ لڑکی کو ہر جگہ دکھایا جاتا ہے یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ لڑکے کے گھر کے لوگ کیسے ہیں کیا ہم سے میل کھاتے ہیں یا نہیں جہاں اپنا جی چاہے اور جو بھی دیکھنے کو آئے بتاتے ہیں ۔

جیسے جیسے لڑکی کا رشتہ تاخیر کا شکار ہوتا ہے اس بیچاری لڑکی کو اپنے ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں ۔ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کتنے رشتے آرہے ہیں مگر کوئی بھی لڑکی کو پسند نہیں کرتا اور لڑکی کو دیکھنے کے بعد اس لڑکی کو طرح طرح سے اذیت دیتے ہیں ۔ سب کی شادی آسانی سے ہوجاتی ہے صرف ہماری لڑکی ہی کی شادی نہیں ہورہی ہے ۔ اس معصوم لڑکی کو یہ نہیں معلوم کہ اس کا قصور کیا ہے ۔ شادی میں تاخیر ہونا اور پسند ناپسند کرنا اس لڑکی کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ لڑکی کو اس قدر تنگ کردیتے ہیں کہ اس کا جینا محال ہوجاتا ہے جب کبھی دوسرا رشتہ دیکھنے لوگ آتے ہیں اس لڑکی کی شامت پھر آجاتی ہے والدین کے زہریلے جملے اس کے کلیجے کو چیر دیتے ہیں ، ویسے اگر پھر ناکامی ہوتی ہے تو بیچاری لڑکی کو کیا کرنا چاہئے ۔ وہ کچھ کرنے سے قاصر رہتی ہے وہ اس قدر غم میں مبتلا ہوجاتی ہے کہ میں اپنے والدین پر ایک بہت بڑا بوجھ بن گئی ہوں ۔ والدین آخر میں یہ طے کردیتے ہیں چاہے جو کوئی بھی آئے کیسا بھی ہو جوڑ ہو یا بے جوڑ ، پڑھا لکھا ہو نہ ہو ، غریب سے غریب بھی ہو تو اس لڑکی کو کسی بھی طرح سے گھر سے جلد از جلد دفع کیا جائے تاکہ ہم سکون کی سانس لے سکیں اور اس طرح سے رشتہ طے ہوجاتا ہے ۔ لڑکی کی پسند اور ناپسند کا بھی خیال نہیں کیا جاتا ہے ۔ بے بس اور مجبور لڑکی کی شادی انجام پاتی ہے جبکہ کافی لوگوں کی تنقیدوں ، اپنے رشتے دار بھائی بہن کی رائے کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ اپنی من مانی اور ہٹ دھرمی سے شادی ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد بھی اپنی لڑکی پر ظلم و زیاتی کا سلسلہ جاری رہتا ہے کہ جو بھی ہمر شتہ کرے اس کے ساتھ ہی زندگی گذارنا ہے ۔ اگر کسی قسم کی حرکت کریں گے تو پھر تم ہماری لاش ہی دیکھنا کہہ کر مزید دھمکیاں دیتے ہیں ۔ پھر اس لڑکی کا کیا ہوگا ، وہ کسی بھی طرح نہیں چاہتے ہوئے بھی اپنی زندگی کے ارمانوں کا قتل کرتے ہوئے بھی خوشحال نہیں رہ سکتی ۔ کیا والدین اپنی لڑکی کو بوجھ سمجھ کر پالتے ہیں پھر ان کے ساتھ اس طرح کا غیر انسانی سلوک کیوں کیاجاتا ہے ؟ اولاد کو بوجھ سمجھ کر اپنے سخت قسم کے فیصلے مسلط کریں تو سماج میں لڑکی کا جینا محال ہوجائے گا ۔ کیا لڑکی پیدا ہونا جرم ہے

جبکہ تم کو اللہ تعالی نے ایک انمول نعمت سے سرفراز کیا ہے تو تم اپنی اس عظیم ذمہ داری سے بھاگتے ہو ۔ تو تم کس طرح سے اس معصوم کی زندگی کو جہنم بنادیتے ہو ۔ کیا انسان کا دل پتھر بن گیا جسے کسی کی آواز نہیں سنائی دے رہی ہے اور سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہم کس سمت میں بڑھ رہے ہیں ۔ کیا یہ راستہ صحیح ہے یا غلط ہے ۔ کیا اپنی اولاد کو تکلیف میں مبتلا کرکے والدین سمجھتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری اب ختم ہوگئی ۔ ہرگز نہیں ۔ جب تک تمہاری لڑکی خوش نہیں رہتی ، سسرال کی زندگی بڑی دشوار زندگی ہوتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے زندگی جینا آسان کام نہیں ہے ۔ حقائق کو جانو اور پہچانو کہ ہم کہاں غلط ہیں اور کہاں صحیح ۔ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجاؤ ورنہ بہت دیر ہوجائے گی ، کیونکہ اللہ تعالی کا قانون بہت وسیع ہے تم کو اس دنیا سے رخصت ہونا ہے پھر بعد میں وہاں کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تم دنیا میں جیسا کروگے دنیا میں ہی اس گھناؤنے جرم کی سزا کاٹوگے ۔ دنیا کو دھوکہ دے سکتے ہیں جھوٹ کے بل بوتے پر ، دولت کے بل پر اور تعلیم کے بل پر مگر ضمیر کو ہرگز دھوکہ نہیں دے سکتے ، کیونکہ ضمیر کی آواز ایک ایسی آواز ہے جس سے انسان کو ہمیشہ پچھتاوا ہوتا ہے اور زندہ رہتے ہوئے اپنی ہٹ دھرمی کا احساس اپنی ڈھلتی عمر کے ساتھ ہوتا ہے جب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اس کو بدل نہیں سکتے پھر اس دنیا سے رنج و غم کی حالت میں اپنے ضمیر کی آواز کی تکلیف سے اس دنیا سے کوچ کرتے ہیں دنیا بھی خراب اور آخرت بھی خراب ۔

آخر میں تمام والدین سے گذارش ہے کہ حقیقت کو جانیئے اچھی طرح اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں ، انھیں بوجھ نہ سمجھیں ۔ یہ ایک اللہ کی آزمائش ہے کیونکہ ہم کو یہیں پر جینا ہے اور یہیں پر مرنا ہے ۔ رشتے جڑتے بھی یہاں اور ٹوٹتے بھی یہاں ہیں ہم کو اللہ کے عدل و انصاف کا سامنا کرنا ہے ۔ وہاں کوئی نہیں ہوگا نہ تمہاری اولاد نہ تو والدین نہ خاوند سب کے سب رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ، سب چھوٹ جاتے ہیں ۔