والدین سے قبل حج کرنا

سوال : میں سعودی عرب میں مقیم ہوں، میں نے گزشتہ سال حج کیا ہے، اس سال بھی توقع ہے کہ ایام حج میں مجھے مکہ مکرمہ جانے کا موقعہ مل جائے اور اس بار بھی حج ادا کرسکوں۔
آپ کی اطلاع کیلئے میرے والدین حج نہیں کئے ہیں اور ان کے پاس سرمایہ بھی نہیں ہے اور ہماری بہنوں کی شادیاں بھی باقی ہے جو میری آمدنی میں سے انجام پانی ہے ۔ ہمارے بعض عزیز و اقارب کا خیال ہے کہ والدین سے پہلے میرا فریضۂ حج اداکرنا اور اس سال اگر موقع ہو تو دوبارہ حج کرنا صحیح نہیں ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ شرعی نقطہِ نظر سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں تاکہ الجھن دور ہو۔
نام…
جواب : جو شخص ایام حج میں بیت اللہ شریف کو پہنچ سکتا ہو، اس پر حج فرض ہے ۔ حج کی فرضیت ، صاحب استطاعت پر ہے۔ والد صاحب استطاعت ہوں تو ان پر فرض ہے اور لڑکا صاحب استطاعت ہو والد صاحب استطاعت نہیں تو لڑکے پر حج فرض ہے۔ صاحب استطاعت لڑکے کا قدرت کے باوجود فریضۂ حج کو محض اس وجہ سے ترک کرنا کہ ان کے والد حج نہیں کئے ہیں، شرعاً صحیح نہیں۔ آپ نے جو حج ادا کیا ہے وہ حج ادا ہوگیا اور اس سال آپ کو موقع ہو اور آپ حج کرلیں تو یہ آپ کا نفل حج ہوجائے گا ۔ والدین حج نہیں کئے ہیں اور ان کے پاس سرمایہ بھی نہیں ہے تو ان پر حج فرض نہیں البتہ ان کی اولاد اپنے سرمایہ سے ان کو حج کراتی ہے تو یہ اولاد کی سعادت مندی اور خوش بختی ہے اور اجر و ثواب کا باعث ہے۔

بیمار شخص اور وقوف عرفات
سوال : سعودی عرب میں حج کے وقت اگر کوئی عازم حج بیمار ہوجائے اور شریک دواخانہ رہے، اس اثناء میں 9 ذوالحجہ آجائے تو حکومت کی طرف سے عازم حج کو میدان عرفات لایا جاتا ہے ۔ بعض بیمار ہوش و حواس میں رہتے ہیں اور بعض تو بیہوش ہی رہتے ہیں اور جو ہوش و حواس میں رہتے ہیں وہ اس قدر تکلیف میں ہوتے ہیں کہ ان کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کس وقت عرفات کے حدود میں داخل ہوئے اور کس وقت عرفات کے حدود سے نکل گئے اور جو لوگ بیہوش ہوتے ہیں ، ان کو تو کچھ پتہ ہی نہیں رہتا۔
ان حالات میں ایسے بیمار و بے ہوش افراد کا فریضۂ حج تکمیل پاتا ہے یا نہیں ؟
محمد اسحاق ، تگل کنٹہ
جواب : شریعت میں وقوف عرفات کیلئے نیت کی شرط نہیں۔ یعنی اگر کوئی 9 ذوالحجہ کو احرام کے ساتھ زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب سے پہلے میدان عرفات میں داخل ہوجائے تو وقوف عرفات ادا ہوجائے گا اگرچہ بیماری یا بے ہوشی کی بناء میدان عرفات میں داخلہ کی نہ نیت کی ہو اور نہ ہی وقوف عرفات کا اسوقت ارادہ کیا ہو، محض حدود عرفات میں اس کے متعینہ اوقات میں داخلہ سے وقوف عرفات کی فرضیت و رکنیت کی تکمیل ہوجائے گی۔

داماد کے ساتھ سفر حج
سوال: میری بیٹی اور داماد اور میرے دو نواسے اور نواسیاں حج کیلئے جارہی ہیں۔ کیا میں بھی ان کے ساتھ حج کیلئے جاسکتی ہوں یا نہیں؟ بعض خواتین کا کہنا ہے کہ داماد کے ساتھ پردہ ہے اس لئے ان کے ساتھ حج کو نہیں جاسکتے ۔
نام ……
جواب : شرعاً داماد ساس (خوشدامن) کا محرم ہے اور محرم کے ساتھ سفر حج پر جاسکتے ہیں۔ پردہ کے سلسلہ میں اجانب اور محارم دونوں کے علحدہ احکام ہیں۔ محارم ان رشتہ داروں کو کہتے ہیں جن سے ابدی طور پر رشتہ نکاح حرام ہو ۔ جیسے باپ ، دادا، بیٹا، پوتا ، نواسا ، بھائی ، بھتیجہ ، بھانجہ ، ماموں ، چچا، داماد، خسر وغیرہ۔
پس محارم کے ساتھ سفر حج پر روانگی شرعاً درست ہے۔

حالت احرام میں عورت کا بال کاٹنا
سوال : چند سال قبل ہم لوگ حج کو گئے تھے ، وہاں ایک واقعہ پیش آیا کہ جب ہم دس ذی الحجۃ کو منیٰ پہنچے،سب سے پہلے شیطان کو کنکریاں مارے پھر مرد حضرات جاکر سب کیلئے قربانیاں کئے جب وہ واپس ہوئے تو ہم لوگ ایک دوسرے کے بال کاٹے۔مرد حضرات مرد حضرات کے بال کاٹے اور خواتین ایک دوسرے کے بال کاٹے۔ اب بعض حضرات کا کہنا ہے کہ جو خاتون احرام میں تھیں وہ کسی دوسری عورت کے بال نہیں کاٹ سکتی اور جو کاٹی ہے اس کو دم دینا چاہئے۔ ہم لوگ یہاں آگئے اور اب تک قربانی نہیں دیئے ۔ ہمارے لئے شرعی اعتبار سے کیا حکم ہے ؟
پروین ریحانہ ، سلیم نگر
جواب : جو شخص عمرہ یا حج کے احرام میں ہو اور وہ عمرہ و حج کے تمام مناسک ادا کرچکا ہو تو وہ اپنے بال کاٹ سکتا ہے اور اس شخص کے بال بھی کاٹ سکتا ہے جو افعال حج و عمرہ کی تکمیل کرچکا ہو۔ لباب المناسک میں ہے : اذا حلق ای المحرم رأسہ نفسہ أورأس غیرہ ای ولوکان محرما عند جواز التحلل ای الخروج من الاحرام بأداء افعال النسک لم یلزمہ شئی الاولی لم یلز مھما شئی و ھذا حکم یعم کل محرم فی کل وقت
مذکورہ بالا عبارت کی رو سے افعال حج کی تکمیل کے بعد حالت احرام میں دوسری خاتون کے بال کاٹنے کی بناء آپ پر شرعاً کوئی قربانی کا لزوم نہیں ہوا۔

ٹوپی اور عمامہ پر مسح کرنا
سوال : ایک اہم مسئلہ سے متعلق یہ چند سطور لکھی جارہی ہیں۔ امید کہ آپ جواب دیں گے۔ کیا کوئی مرد اپنی ٹوپی یا عمامہ پر مسح کرسکتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ مسح کرے تو یہ کافی سمجھا جائیگا یا نہیں ؟ اسی طرح کوئی خاتون اوڑھنی یا حجاب پر سے مسح کرسکتی ہے یا نہیں ؟
ای میل
جواب : وضو میں مرد و خواتین کیلئے ایک چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض ہے۔ اور ٹوپی عمامہ اور اوڑھنی وغیرہ پر مسح کرنا جائز نہیں۔ صحابیٔ رسول حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عمامہ پر مسح کرنے سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : جائز نہیں یہاں تک کہ بالوں کو پانی (کی تری) لگے۔ روی محمد فی موطئہ (288, 287, 286/1 ) قال اخبرنا مالک قال بلغنی عن جابر انہ مسئل عن مسح العمامۃ فقال لا : حتی یمس الشعر الماء۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے منقول ہے کہ وہ اپنے ہاتھ کو اپنے خمار کے نیچے داخل کیں اور اپنے سر کا مسح کیں۔ اور فرمائیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اسی طرح حکم فرمایا ہے : روی عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ؟ انھا أدخلت یدھا تحت الخمار و مسحت برأسھا و قالت بھذا امرنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بیھقی سنن کبری)
بدائع الصنائع جلد اول ص : 71 میں ہے : ولا یجوز المسح علی العمامۃ والقلنسوۃ لانھما یمنعان اصابۃ الماء الشعر ولا یجوز مسح المرأۃ علی خمار ھا۔

زچگی کے چالیس دن بعد چنا ڈالنا
سوال : بعض دیہات وغیرہ میں یہ تاثر ہے کہ زچہ کے وہ کپڑے جو ناپاکی میں استعمال ہوتے ہیں اس کو بعد پاکی استعمال کرنا نحوست ہے اور یہ باور کروایا جاتا ہے کہ چالیس دن کے بعد گھر کو چنا ڈالنا ضروری ہے ، ورنہ آفات و بلیات آنے کا امکان رہتا ہے اور زچہ کے کمرے میں نماز نہیں پڑھی جاسکتی ۔ یہ چند باتیں ہیں جو گھریلو خواتین کے ذہنوں میں بار بار ابھرتی ہیں۔ شریعت کی روشنی میں ان کی وضاحت کی جائے تو مہربانی ۔
داؤد خان، پٹیل نگر
جواب : بعد وضع حمل خاتون کی ناپاکی کی مدت میں اس کے استعمال کردہ اشیاء کو منحوس سمجھنا چالیس دن کے بعد چنا ڈالنا ، آہک پاشی نہ کی گئی تو کسی مصیبت و بلا کے زد میں آنے کا گمان کرنا قطعاً بے اصل ہے ۔ توہمات پر مبنی ہے ۔ توہمات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ نفاس والی عورت کے چلنے پھرنے ، رہنے سے کوئی مقام ناپاک نہیں ہوتا ، اس لئے نفاس والی خاتون کے کمرے میں نماز پڑھنے میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔

قسم پر قائم نہ رہنا
سوال : میرے اور میرے شوہر کے درمیان عموماً ہماری ساس کی وجہ سے جھگڑے ہوتے رہتے تھے اور ساس کی غلطی ہوتی تو بھی میرے شوہر مجھ پر غصہ ہوتے۔ جب ان کو ہماری ساس کی غلطیوں کا اندازہ ہوا تو انہوں نے قسم کھائی کہ کبھی ہمارے درمیان ساس کی وجہ سے کوئی جھگڑا نہیں ہوگا ۔ تاہم وہ اپنی قسم پر قائم نہیں رہ سکے اور ہمارے درمیان کئی جھگڑے ہوئے ۔ صرف ساس کی وجہ سے ۔ اب اس کا کفارہ کیا ہے ؟
عظمیٰ ، ای میل
جواب : صورت مسئول عنہا میں آپ کے شوہر نے قرآن کی قسم کھائی تھی کہ والدہ کی وجہ سے ہم میاں بیوی کے بیج کبھی لڑائی نہیں ہوگی لیکن وہ اس قسم پر قائم نہیں رہ سکے اور قسم توڑ دیئے اس لئے آپ کے شوہر پر قسم توڑنے کا کفارہ دس مسکینوں کو صبح و شام کھانا کھلانا ، یا دس مسکینوں کو متوسط کپڑا پہنانا یا تین دن روزہ رکھنا لازم ہے۔ لایؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم بما عقدتم الایمان فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم او کسوتھم او تحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام ثلاثۃ ایام ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم ۔ (سورۃ المائدۃ 89/5 )

سلام کے بعد مصلیوں کی طرف رخ کرنا
سوال : ہماری مسجد کے امام صاحب ہمیشہ سلام پھیرنے کے بعد مصلیوں کی طرف رخ کیا کرتے تھے۔ اب چند دن سے کبھی وہ سیدھے جانب اور کبھی بائیں جانب رخ کر رہے ہیں۔ شرعی لحاظ سے صحیح طریقہ کیا ہے؟
نام …
جواب : سلام پھیرنے کے بعد امام کے پلٹنے کی کیفیت کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ سیدھے جانب رخ کرنا چاہئے اور بعض نے کہا کہ مصلیوں کی طرف رخ کرنا چاہئے اور بائیں جانب رخ کرنے کی بھی گنجائش ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد مسجد میں داخل ہونے والے کو کوئی شبہ باقی نہ رہے، اس لئے امام کو پلٹنے کا حکم ہے۔ اس کو تینوں جہتوں میں سے کسی بھی جانب رخ کرنے کا اختیار ہے۔ بدائع الصنائع جلد اول ، ص : 394 میں ثم اختلف المشائخ فی کیفیۃ الانحراف
قال بعضھم : ینحرف الی یمین القبلۃ تبر کا بالتیامن ۔ و قال بعضھم : ینحرف الی الیسار لیکون یسارہ الی الیمین ، و قال بعضھم : ھو مخیر ان شاء انحرف یمنۃ وان شاء یسرۃ، وھو الصحیح لان ماھوالمقصود من الانحراف وھو زوال الاشتباہ یحصل بالأمرین جمیعاً۔