واقعہ کی صداقت معلوم کرنے پاکستان میں پانچ رکنی کمیشن کا قیام

n چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کمیشن کے سربراہ
n کیا لڑکیاں اپنی مرضی سے حلقہ بگوش اسلام ہوئی تھیں ؟ سب سے اہم سوال

ہندو بہنوں کا اغواء معاملہ

اسلام آباد ۔2 اپریل ( سیاست ڈاٹ کام ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کے روز ایک پانچ رکنی آزاد کمیشن کا قیام عمل میں لایا ہے جو نابالغ ہندو لڑکیوںکے مبینہ اغوا ، جبری تبدیلی مذہب اور شادی کے واقعہ کی تحقیقات کرے گا ۔ صوبہ سندھ میں اس واقعہ کے پیش آنے کے بعد اقلیتی ہندو طبقہ نے ملک گیر پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کئے ہیں ۔ ہائیکورٹ کی ایک بنچ جس کی قیادت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رینا اور روینہ نامی دو ہندو لڑکیوں اور ان کے مبینہ شوہروں صفدر علی اور برکت علی کی جانب سے داخل کردہ عرضداشت کی سماعت کی ۔ اپنی درخواست میں لڑکیوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق گھوٹکی کے ایک ہندو خاندان سے ہے تاہم ان پر تبدیلی مذہب کیلئے کوئی زور زبردستی نہیں کی گئی بلکہ انہوں نے خود اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر مذہب اسلام قبول کیا جبکہ لڑکیوں کے والدین کے وکیل نے اس بات پر زور دیا کہ لڑکیوں کا جبری تبدیلی مذہب کروایا گیا ہے ۔ دوسری طرف لڑکیوں کے والد نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک دیگر عرضداشت بھی پیش کی ہے جو دراصل ایک میڈیکل بورڈ کے ذریعہ لڑکیوں کی قطعی اور صحیح عمر معلوم کرنے اور اسٹاک ہوم سائنڈ روم کا پتہ چلانے لڑکیوں کے ذہن کو بھی کھنگالا جائے ۔مذکورہ سائنڈروم دراصل اس دماغی کیفیت کا نام ہے جب مغویہ افراد اغوا کرنے والوں پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں اور انہیں چاہنے لگے ہیں ۔ اس موقع پر جسٹس من اللہ نے کہاکہ اس معاملہ کی شفافیت کے ساتھ تحقیقات ضروری ہے تاہم یہ حکومت کا فرض ہے ۔ اس موقع پر جسٹس من اللہ نے کہا کہ عدالت کو یہ یقین دلایا جائے کہ لڑکیوںکا جبری تبدیلی مذہب نہیں کروایا گیا اور اسی لئے بنچ نے ایک پانچ رکنی کمیشن قائم کیا ہے تاکہ اس معاملہ کی شفاف اور دیانتدارانہ تحقیقات ہوسکے ۔ کمیشن میں انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری ، پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے صدرنشین مہدی حسن ، قومی کمیشن برائے خواتین خاور ممتاز ، معروف انسانی حقوق جہد کار آئی اے رحمان اور معروف اسلامی عالم دین مفتی تقی عثمانی شامل ہیں ۔ یہ واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب ایک وائرل ہوئے ویڈیو میں ایک باپ اور ایک بھائی کو دکھایا گیا تھا جو یہ دعویٰ کررہے تھے کہ رینا اور روینہ کا اغوا کر کے انہیں جبری طور پرمذہب اسلام قبول کروایا گیا ہے ۔ اس کے فوری بعد ایک دیگر ویڈیو بھی وائرل ہوا تھا جس میں دونوں لڑکیوںکو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا تھا کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئی ہیں ۔