نیاسال کیا سوغات لائے گا ؟

سال2014 کے متعلق بعض قیاس آرائیاں

صابر علی سیوانی
سالِ رواں کے یہ آخری ایام ہیں۔ جب یہ سال ختم ہونے کو ہے تو اب ہر شخص کے ذہن میں ایک بات گردش کرنے لگی ہے کہ آنے والا سال کونسا سوغات لے کر آئے گا ۔ اب آنے والے سال 2014 ء کے لئے طرح طرح کی پیش قیاسیاں شروع ہوچکی ہیں۔ سیاسی مبصرین کے علاوہ عام آدمی بھی 2014 ء کے بارے میں اپنے اپنے خیالات پیش کرنے لگے ہیں۔
عالمی معیشت

گزشتہ دو سال کے معاشی بحران کے بعد جو پوری دنیا میں دیکھا گیا، اب شرح ترقی میں بہتری آنی شروع ہوچکی ہے اور شرح نمو میں اب 3 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ شرح ترقی میں اہم رول ادا کرنے درج ذیل شعبے اہمیت کے حامل ہیں ۔ اقوام متحدہ کی معیشت کی ا یک بار پھر بہتر مظاہرہ کرنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ اس کے کچیلے رویے اور مختلف مثبت پالیسیوں کی وجہ سے اسے کم و بیش 3 فیصد شرح ترقی حاصل ہوسکتی ہے ، اس کے باوجود کہ اس کی داخلی سیاست افراطِ زر اور دوسری ناکام پالیسیوں کے معاملہ میں انتشار کا شکار ہے ۔

کچھ شبہات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چین کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ ملک 7 فیصد سے بھی زیادہ شرح ترقی کو حاصل کرسکتا ہے اور اس کی مختلف شعبوں میں بہتر کارکردگی کی توقع ہے ۔ چین نے اپنی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچھے اور نمایاں حصولیابیوں کو ممکن بناسکتا ہے ۔جاپان کی شیزو آبے پالیسی جو فیول کی ریکوری کے تعلق سے ہے، مسلسل دو فیصد کے نشانہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔شمالی ایشیا جو ایک بہتر اور قابل ذکر مظاہرہ کرنے والا خطہ ہے وہ جنوب مشرقی ایشیاء کی معیشت سے کہیں آگے نکل جائے گا جہاں پانچ ممالک انڈونیشیا ، تھائی لینڈ ، ملایشیا ، فلپائن اور ویتنام لگ بھگ 6 فیصد کی شرح ترقی تک پہنچنے والے ہیں۔ ذیلی سہارا افریقہ جو معیشت کے طور پر تیزی سے ترقی کر رہا ہے وہ مسلسل 6 فیصد کی شرح ترقی کے آس پاس ہے۔اس کے نشیبی حصے میں یوروپین اکانومی کا ایک بار پھر نیچے کی جانب بڑھنے کا امکان ہے ۔ اس کی معیشت میں بہتری کے امکانات کم ہیں اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ یوروپین ممالک عوامی قرض کے بوجھ تلے دبے رہیں گے۔ بینکنگ مشکلات ، سخت پروگرامس اور اس خطے میں واحد یورو کرنسی کی وجہ سے اسے معاشی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ اس کی سخت اور عوام مخالف پالیسیاں اس کی معیشت پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ مجموعی طور پر شرح ترقی بمشکل ایک فیصد کو پہنچ سکتی ہے۔
یو ایس میں توانائی توازن کی وجہ سے عالمی شرح ترقی بہتر ہوسکتی ہے۔ اس کیلئے ہمیں شیل آئل اور گیاس ، عالمی پیمانہ پر تیل کی قیمتوں میں پہلی بار 100 ڈالر بی پی ایل گزشتہ چار سالوں میں کم ہوئی ہے اور استثنائی طور پر یو ایس ، یوروپ کی مانیٹری پالیسی کو دیکھا جاسکتا ہے۔

عالمی تجارتی بازار جو گزشتہ دو سالوں سے تذبذب اور بحران کا شکار رہا اس میں تیزی سے ترقی ہونے والی ہے اور امکان ہے کہ اس شعبے میں پانچ فیصد تک کی برتری ہوسکتی ہے اور اس میں حال ہی میں بالی میں منعقدہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اجلاس میں اتفاق رائے کی وجہ سے بہتر اور نمایاں معاشی تبدیلی آسکتی ہے۔

عالمی سیاسی سیکوریٹی
حالیہ عالمی معیشت کے تناظر میں جس کی وجہ سے عالمی طور پر سیاسی اور سیکوریٹی ڈیولپمنٹ کے متعلق ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ واحد سپر پاور ملک کی اجارہ داری جو امریکہ کو حاصل ہے، اس میں مسلسل کمی آنے کے امکانات ہیں۔ یعنی اس کی اجارہ داری کم ہوتی جائے گی۔ اس کا کنٹرول دنیا کے بیشتر ممالک پر ڈھیلا ہوتا جائے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے اپنے مختلف شعبوں میں نمایاں مظاہرہ کرتے ہوئے کافی تقویت حاصل کرلی ہے ۔ چین کی طاقت لگاتار بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے امریکہ کافی پریشان نظر آرہا ہے ۔ اس کی ایک وجہ امریکہ کی داخلی غیر متوازن پالیسیاں ہیں۔
جیسا کہ چین کی معیشت مسلسل بہتری کی جانب گامزن ہے اور ساتھ ہی یہاں کی نئی قیادت، اس کے اہداف اور اس کی پالیسیاں اس بات کی غمازی کر رہی ہیں کہ چین بہت جلد سپر پاور ملک بن سکتا ہے ۔ اس کی علاقائی اور عالمی امور سے متعلق جو پالیسیاں ہیں وہ بہت ہی متوازن اور حوصلہ کن ہیں جس کی وجہ سے شرح نمو میں اضافہ کی توقعات بڑھ جاتی ہیں ۔ چین اس وقت اپنے تمام پڑوسی ممالک کیلئے سیکوریٹی کے نقطہ نظر سے ایک چیلنج بن چکا ہے ۔ نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی ایئر ڈیفنس آئیڈنٹی فیکشن زون (اے ڈی آئی زیڈ) کے مسئلہ پر چین کا جاپان کے ساتھ تنازعات پیدا ہونے کے امکانات قوی نظر آتے ہیں۔ شمالی ایشیاء میں سینکاکو (ڈائیو) جزیرہ اور دوسرے امور تنازعات پیدا کرنے کے موجب بن سکتے ہیں ۔

اقوام متحدہ کے ذریعے افغانستان سے فوجوں کی واپسی ، اور افغان فوج اور پولیس پر کروڑوں ڈالرس خرچ کئے جاچکے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان میں طالبان کو ایک بار پھر ابھرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ افغان میں طالبان کی مداخلت کب اور کتنی مدت کیلئے قائم رہ سکتی ہے ، اس کے بارے میں وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ پڑوسی پاکستان، چین ، روس، ایران اور ہندوستان کی پالیسیوں پر اس کا انحصار ہے لیکن ایک بات تو طئے ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے تخلیہ کے ساتھ ہی طالبان ایک بار پھر سر اٹھانے لگیں گے اور ان پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔مشرق وسطی (یا مغربی ایشیا جیسا کہ اس نام سے اسے جانا جاتا ہے) آنے والے سال میں ’’بہار عرب‘’ تحریک سے دوچار ہوتا رہے گا جس میں شیعہ سنی کی کوئی قید نہیں ہوگی ۔ اس کے علاوہ اس خطے میں شیعہ سنی کے جھگڑے یوں ہی جاری رہنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے ۔ شام میں مسلسل خونریزی جاری رہے گی اور مصر کی مشہور و مقبول بڑی طاقت غیر متوقع طور پر قوم کیلئے باعث پشیمانی بنی رہ سکتی ہے۔
سال 2014 ء میں یو ایس کے ذریعے اسپانسر اسرائیل ۔ فلسطین امن سمجھوتہ پر اتفاق رائے کا امکان ہے لیکن ماضی کی ناامیدیوں اور محرومیوں کے باعث اس مسئلہ پر زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتی ہیں کہ اس میں مکمل طور پر کامیابی مل سکتی ہے۔

ہندوستان : سیاست، سیکوریٹی
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے محض تین دن بعد ملک کی سیاست میں بھونچال آگیا ہے اور پورے ملک کی سیاست پر اس کے مثبت اثرات رونما ہونے لگے ہیں۔ عام طور پر اس الیکشن کو سیمی فائنل سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔ اس سے بی جے پی کی توقعات بڑھ گئی ہیں اور اس سیمی فائنل میں بی جے پی بالکل جیت چکی ہے اور عام آدمی پارٹی (آپ) نے پہلی ہی بار تاریخ ساز کامیابی درج کرائی ہے ۔ خاص طور پر دہلی میں جب اس پارٹی نے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ پارٹی اس قدر تاریخی کامیابی حاصل کرسکتی ہے لیکن اس کے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ؟

عام انتخابات جو آئندہ سال اپریل یا مئی میں ہونے والے ہیں، اگر انتخابات وقت پر ہوجاتے ہیں تو نئی حکومت مئی کے اواخر تک حکومت بنالے گی ۔ اس وقت سے نئی حکومت سازی میں صرف پانچ مہینے کا وقت رہ گیا ہے لیکن سیاست کیلئے یہ ایک طویل مدت ہے مگر اس بات کے امکانات نظر آرہے ہیں کہ آنے والے سال میں بی جے پی کی این ڈی اے اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کا عمل انجام دے سکتی ہے اور اس کے وزیراعظم نریندر مودی ہی ہوں گے۔ اس کے برخلاف بھی کوئی کرشمہ ہوسکتا ہے کیونکہ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ تلنگانہ کے پیچیدہ مسئلہ کو جوایک زمانہ سے التواء میں پڑا رہا، اب اس مسئلہ کو حل کرلیا گیا ہے اور قیام تلنگانہ کی راہیں ہموار ہوچکی ہیں۔ حیدرآباد کو مشترکہ طور پر دونوں ریاستوں کو دارالحکومت کو تسلیم کرنا پڑے گا جب تک کہ سیما آندھرا کا قیام عمل میں نہ آجائے یا کوئی دوسری سبیل نہ پیدا ہوجائے۔

سیکوریٹی کے نقطہ نظر سے بی جے پی کی این ڈی اے حکومت دفاعی امور پر سخت فیصلے لے سکتی ہے اور جو حالیہ برسوں میں قابل افسوس واقعات پیش آئے ہیں، آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں، اس کی وہ کوشش کرسکتی ہے اور وہ شمالی اور مشرقی سرحدوں پر زیادہ توجہ مبذول کرسکتی ہے۔

مزید برآں افغانستان کیلئے امریکہ کے انخلاء کے بعد اور امکانی طور پر بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے وجود میں آنے کے بعد سرحد پار دہشت گردی کے مسئلہ پر سخت ویجلنس کو ممکن بنانے کی ضرورت پیش آئے گی ۔ ملک کی نئی حکومت کو جاپان اور جنوبی ایشیاء کے ساتھ تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت اور سیاسی امور پر سنجیدگی سے تبادلہ خیال کرنا ہوگا ۔ ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ 2014 ء میں ملک کی سیاست اور معیشت پر ایک نمایاں تبدیلی کے اثرات ضرور واقع ہوں گے ۔ مختلف شعبوں میں تبدیلیوں کے امکانات ہیں۔ یہ تمام پیش قیاسیاں ہیں، جن کا ذکر کیا گیا ، ممکن ہے آنے والے سال میں حالات اس کے مغائر بھی ہوں لیکن اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ مذکورہ تبدیلیاں ضرور دیکھنے کو ملیں گی اور یہ تبدیلیاں پوری دنیا کے حق میں بہتر ثابت ہوسکتی ہیں ۔
mdsabirali70@gmail.com