نہ شہرت ‘ نہ لعل و گہر چاہیئے

عاشق رسول و بزرگ صحافی الحاج مرزا ذبیح اللہ بیگ

محمد نصر اللہ خان
قرآن نے واضح کردیا کہ ہرزی نفس کو موت کا مزہ چھکنا ہے اور دنیا کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے ۔ مگر وہ موت قابل رشک ہے جو کہ اپنی آرزو و تمنا کے عین مطابق آتی ہو ۔ جناب ذبیح اللہ بیگ کی آرزو بھی یہی تھی کہ آقائے دوجہاں ’’ جس شہر میں آرام فرما رہے ہیں میں بھی یہیں مدفون ہوجاؤں‘‘ ان کی اس تڑپ و بے چینی کو رب نے پورا کیا ۔ 5 مارچ 2018ء کو مدینہ منورہ کے کنگ فہد ہاسپٹل میں ان کی روح قبض عضری سے پرواز کرگئی ۔ مسجد نبویؐ میں 6مارچ کو بعد نماز فجر نماز جنازہ ادا کی گئی اور انہیں جنت البقیع میں سپرد لحد کیا گیا ۔
جناب ذبیح اللہ بیگ گذشتہ 22برس سے مکہ و مدینہ منورہ میں قیام کئے ہوئے تھے ۔ خاص بات تو یہ دیکھی گئی کہ انہوں نے جب سے مستقلاً مدینہ منورہ میں قیام کا ارادہ کیا اس بات کی پوری کوشش کی کہ صوم وصلوٰۃ کی حالت میں رہے اور حالت صوم بڑی ندامت ‘ انکساری ‘ اشکبار آنکھوں سے روضہ رسولؐ کے پاس رہا کرتے اور اکثر تو حضورؐ کے پائیں مبارکہ اور اصحاب صفہکے چبوترہ پر دعاؤں ‘ تلاوت قرآن ‘ نوافل و ازکار میں مصروف دیکھے گئے ۔ اس کے ساتھ انہوں نے قرآن فہمی ‘ بچوں کو قرآن پڑھانے کا وہاں عہد کیا ۔ اکثر اسی میں مشغول دیکھے جاتے ۔
جناب ذبیح اللہ بیگ پابندی کے ساتھ مکہ المکرمہ بھی جایا کرتے اور کئی برس وہاں قیام بھی کیا ۔ حیدرآبادی رباط کو انہوں نے اپنا مسکن بنایا ۔ مکہ میں بھی عبادات ‘ ریاضت ‘ طواف ان کا خاص وصف تھا ۔ ناطر رباط نظام حیدرآباد جناب حسین شریف سے ان کے دیرینہ تعلقات رہے ۔ یہاں پر انہوں نے عازمین حج کے انتظامات ‘ سعودی حکومت کے اعلانات اور دیگر اُمور سے متعلق اخبارات کو خبریں بھیج کر واقف کرواتے اور جب تک حیدرآباد میں مقیم رہے عازمین حج کی رہبری ‘ رہنمائی اور عازمین کے تریبتی اجتماعات سے خطاب کیا کہ ان کی اس تڑپ و فکر کو دیکھ کر حکومت آندھراپردیش نے حج کمیٹی کارکن نامزد کیا اور کئی بار وہ حج و عمرہ کی سعادت سے نوازے گئے ۔

جناب مرزا ذبیح اللہ بیگ شہر حیدرآباد کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں قرطاس و قلم اوڑھنا و بچھونا تھا ۔ اُن کے والد امام بیگ رونق ایک مشہور صحافی کی حیثیت سے شہر میں جانے جاتے اور انہوں نے خبر رساں ادارہ ’’ دکن نیوز سرویس ‘‘ قائم کی ۔ اس کے ذریعہ ایسی محنت انہوں نے کی آج بھی لوگ انہیں یا دکرتے ہیں ۔ الحمدللہ دکن نیوز سرویس قائم ہوئے کم و بیش 100برس کا عرصہ ہورہا ہے ۔ جناب مرزا ذبیح اللہ بیگ کے دادا مرزا کریم اللہ بیگ کا شمار شہر کے ایک صوفی با صفا میں کہا جاتا تھا ۔ والدہ صاحب النساء اورنگ آباد کی معزز جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ اس گھرانے نے صحافت کے ساتھ ساتھ تعلقات کو بنانے اور اسے استوار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس میں جناب ذبیح اللہ بیگ کا شمار ہوتا ہے اس لئے وہ شاگردوں کو اس بات کی نصیحت کیا کرتے کہ صحافی خبروں کو اخبارات کے حوالے کرنے کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرتا بھی ہے ۔ جناب ذبیح اللہ صاحب کی طرح جناب امام بیگ رونق کا بھی یہی حال تھا ‘ ان کے بھی اہم شخصیات سے گہرے مراسم تھے جن میں قائد نواب بہادر یار جنگ اور بڑے بڑے زعمائے ملت شامل ہیں ۔ جناب ذبیح اللہ بیگ نے بتایا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے دورہ حیدرآباد کے موقع پر جناب امام بیگ رونق نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی جس کو جناب جناح نے قبول کیا ۔

جناب ذبیح اللہ بیگ کی ابتدائی تعلیم سٹی میڈل اسکول پیٹلہ برج میں ہوئی ‘ سٹی کالج ہائی اسکول سے دسویں جماعت کی کامیابی اور انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کے بعد 1967ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کا امتحان کامیاب کیا ۔ انہیں کھیل کود سے بھی بڑی دلچسپی تھی ‘ بچپن سے ہی دینداری ان کا شعار ہونے کی وجہ سے انہوں نے کھیل کود ‘ پڑھائی کے دوران یا کسی موقع پر نماز کو قضا نہیں کیا وہ ایک اچھے طالب علم کے ساتھ ایک اچھے کھلاڑی بھی ثابت ہوئے ۔ سٹی کالج میں والی بال ٹیم میں شامل ہوکر کئی میچس میںحصہ لیا ۔
وہ جس محلہ میں رہا کرتے مسلم آبادی کے ساتھ غیر مسلم کی تعداد زیادہ تھی اس لئے وہاں کے لوگ انہیں حاجی صاحب سے یاد کرتے اور جب بھی وہ محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرنے کیلئے آتے تو غیر مسلم مائیں اپنی گودوں میں بچوں کولئے ان سے دعا پڑھانے کا اظہار کرتی ۔
ابتداء ہی سے انہیں صحافت سے غیر معمولی لگاؤ رہا ۔ جناب عابد علی خان بانی ایڈیٹر روزنامہ ’’سیاست‘‘ ‘ جناب محبوب حسین جگر ‘ قاضی عبدالغفار ایڈیٹر پیام ‘ سید لطیف الدین قادری ‘ سید وقار الدین علی اور آخری سانس تک جناب زاہد علی خان ایڈیٹر ’’سیاست‘‘ ‘ سید وقار الدین ایڈیٹر رہنمائے دکن سے ان کے گہرے مراسم رہے ۔ دکن نیوز کے ذریعہ جناب ذبیح اللہ بیگ نے ملت اسلامیہ کی غیر معمولی خدمت انجام دی ۔ پولیس ایکشن کے بعد مسلمان بڑے مایوسی ‘ احساس کمتری پستی سے دوچار تھے تو ان کے قناعت ‘ جذبہ ایمان و یقین کا پیدا کرنا ناگزیر تھا ۔ چنانچہ ذبیح اللہ بیگ نے مسلمانوں میں شعور بیداری ‘ عزم و حوصلہ ‘ ایمانی طاقت سے مالا مال کرنے کی کوشش کی ۔ حیدرآباد کے علماء کرام ‘ مسلم قائدین اور مشائخین کے افکار و خیالات کو اخبارات کے ذریعہ مسلم رائے عامہ تک پہنچانا ان کا اہم مشن رہا ۔ انہوں نے ایک غیر جانبدارانہ صحافی کی حیثیت سے تمام مسلم جماعتوں ‘ تنظیموں ‘ اداروں کی سرگرمیوں کو اخباری کالموں کا ذریعہ بنایا جن میں جماعت اسلامی ہند ‘ جمعیت العلماء ہند ‘ تعمیر ملت ‘ امارت ملت اسلامیہ ‘ مرکزی انجمن قادریہ ‘ ایس آئی او ‘ مرکزی سنی دعوت اسلامی ‘ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد ‘ جامعہ نظامیہ ‘ جامعتہ المومنات ‘ جامعتہ الصالحات اور دیگر تعلیمی و علمی ادارہ شامل ہیں ۔ آندھراپردیش کے عازمین کی ابتداء بنگلور سے روانہ ہوتے ان کی رہبری ‘ رہنمائی اور روانگی کے تمام انتظامات کی رپورٹنگ کی جاتی ۔ اس طرح انہوں نے سابق ریاست کرناٹک اور صدرنشین حج کمیٹی کرناٹک جناب آرروشن بیگ سے بھی اچھے تعلقات کو بنوائے رکھا ۔

انہیں اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں جوانی میں ہی حج کی سعادت نصیب کی ۔ چنانچہ انہوں نے پہلا حج بحری جہاز سے گریجویشن کی تکمیل کے بعد کیا ۔ وہ بزرگان دین ‘ اولیاء اللہ کے انتہائی عقیدت مند تھے اس لئے حیدرآباد کی تمام خانقاہوں سے اپنے تعلق کو برقرار رکھا ۔ دکن نیوز وہ واحد نیوز سرویس تھی جو اعراس کی خبر اخبارات کو حوالے کرتی ۔ جناب ذبیح اللہ بیگ نے تعلیمی شعبہ میںبہت سارے کام انجام دیئے ۔ مولانا سید پرورش علی قادری ‘ مولانا حسینی قادری ‘ مولانا سید غوث قادری ‘ جناب محمود الدین حامد کے ساتھ مل کر حیدرآباد کی پسماندہ بستیوں میں عصری مدارس کا قیام عمل میں لایا ۔ چنانچہ پرانا پل پر عثمانیہ بوائز ٹاؤن ہائی اسکول ان ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس میں طلبہ کو مفت کتابیں ‘ ڈریس دیا جاتا اور جو طلبہ غریب ہوتے ان کی فیس معاف کی جاتی ۔ انہوں نے صحافتی شخصیتوں کے علاوہ سیاسی قائدین سے تعلقات کو برقرار رکھنے میں اہم حصہ ادا کیا ۔ سابق وزیر نواب میر احمد علی خان ‘ سابق صدرنشین قانون ساز کونسل سید مکثر شاہ ‘حافظ ابو یوسف سابق رکن قانون ساز کونسل ‘ جناب سید احمداللہ قادری سابق رکن قانون ساز کونسل ‘ جناب آصف پاشاہ سابق وزیر ‘ جناب محمدجانی سابق وزیر ‘ جناب ایم ایم ہاشم سابق وزیر داخلہ اور بہت سارے غیر مسلم سیاستدانوں سے ان کا گہرا تعلق رہا جن میں ڈاکٹر ایم چنا ریڈی اور ٹی انجیا سابق وزیر اعلیٰ شامل ہیں ‘ اس کے ساتھ مذہبی شخصیات و علماء کرام کا ایک جال تھا جس سے ان کے تعلقات مضبوط تھے جن میں مولانا سید بادشاہ حسینی ‘ مولانا محمد حمید الدین عاقل حسامی ‘ مولانا عبدالرزاق لطیفی ‘ مولانا عبدالنصیر‘ مولانا ابوالنصر عابر ‘ جناب سید خلیل اللہ حسینی ‘ مولانا مفتی عبدالحمید ‘ مولانا سید غوث خاموشی ‘ مولانا سلمان سکندر ‘ مولانا عبدالرحیم قریشی کے علاوہ ملک کے چوٹی کے عالم مولانا قاری طیبقاسمی سے ان کا تعلق رہا ۔ اس کے علاوہ خواجہ مصطفے علی ایڈوکیٹ و سینئر صحافی جناب عابد صدیقی ‘ جناب فاضل حسین پرویز ‘ الحاج محمد عمر انجمن تاجرین چرم سے ان کے دوستانہ مراسم تھے ۔

جناب ذبیح اللہ بیگ صاحب سے میری وابستگی گذشتہ 23برس پر محیط ہے ۔ ان کی عنایتوں کے باعث پیشہ صحافت سے وابستگی ہوئی اور ایک پہچان بنی ۔ انہوں نے ابتداء جو کچھ بھی صحافت کے گُر سکھائے وہ ابھی تک ذہن میں تازہ ہیں جس سے میری ایک پہچان بنی ‘ حیدرآباد سے جب مدینہ منورہ میں کسی سے ملاقات ہوتی تو از راہ عنایت میرے بارے میں دریافت کرتے ‘ جب بھی قلم کار ان کے متعلق لکھیں تو ضرور ان کی رسول پاکؐ سے وابستگی اور آپؐ کی یاد میں اپنی آنکھوں کو نم کرنے کا تذکرہ ضرور کریں گے ۔ استاد محترم جناب ذبیح صاحب اپنے نامن کی تاثیر کو اپنی آخری سانس تک برقرار رکھا اور شہرت ‘ خواہشات نام ونمود سے کوسوں دوری اختیار کی ۔حیدرآباد کے شاعر جناب مومن خان شوق کے اس شعر کے مصداق :
نہ شہرت ‘ نہ لعل و گہر چاہیئے
مدینہ کے آقا ؐ کا در چاہیئے