نہ دھوکہ دیجئے نہ دھوکہ کھایئے

میرا کالم            سید امتیازالدین
جب بھی ہم کو کالم لکھنے کے لئے کوئی موضوع نہیں سوجھتا تو ہم اخبار اُٹھا لیتے ہیں اور کوئی دل چسپ یا سنسنی خیز خبر تلاش کرنے لگتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سنسنی خیز خبروں سے ہمارے رگ و پے میں سنسنی دوڑ جاتی تھی۔ ہم فوراً اُس کا تذکرہ اپنے احباب سے اور گھر کے لوگوں سے کرتے تھے لیکن آج کل معمولی خبریں کم آنے لگی ہیں اور سنسنی خیز خبریں زیادہ ہوگئی ہیں۔ آج صبح ہم نے اخبار میں ایک نمایاں سرخی دیکھی ’دولت مند عرب شیخ گداگر نکلا‘۔ اس سرخی کو دیکھ کر ہمیں ایسا لگا جیسے ہم کسی شاعر کا مصرع پڑھ رہے ہیں جیسے ’’قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا‘‘، وغیرہ۔ خبر یوں ہے کہ سلطنت عمان کا ایک شخص جو درحقیقت بھکاری ہے، گزشتہ سال حیدرآباد کی ایک لڑکی سے شادی رچا بیٹھا۔ پیامات لگانے والی خاتون نے لڑکی کے ماں باپ کو دھوکہ دیا۔ شادی کے بعد لڑکی شوہر کے ساتھ عمان چلی گئی اور وہاں جاکر اُسے پتہ چلا کہ درویشِ خدامست نہ شرقی ہے نہ غربی۔ یعنی شوہر نامدار سلطنتِ عمان میں جو کام کرتے ہیں وہی کام حیدرآباد کی گلیوں میں بھی کرسکتے تھے۔ دلہن کو لے کر عمان واپس جانے کی زحمت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ اس خبر کو پڑھنے کے بعد دو باتیں ہمارے ذہن میں آئیں۔ ایک طرف تو حیدرآبادیوں کی سادہ لوحی کہ ایک عمانی شہری کو دولت مند شیخ سمجھ بیٹھے اور اُسے داماد بنا ڈالا۔ عمان کا فقیر حیدرآباد میں دولت مند شیخ دکھائی دیا اور دوسری طرف ہمارے اچھے خاصے تعلیم یافتہ لڑکے ہیں جن کو امریکہ کے ایرپورٹ سے اُلٹے پاؤں لوٹا دیا جارہا ہے اور روزانہ کھیپ کی کھیپ ناکام و نامراد وطن لوٹ رہی ہے۔
عرب شیخ کے گداگر نکلنے کی خبر سے ہمیں افسوس تو ہوا لیکن تعجب نہیں ہوا کیوں کہ ہم اکثر ایسی خبریں پڑھتے ہیں کہ عرب ملکوں کے ضعیف العمر شیخ آتے ہیں اور اپنی نواسی یا پوتی کی عمر کی لڑکی سے شادی کرلیتے ہیں۔ کبھی لڑکیاں احتجاج کرکے اُن کے چنگل سے آزاد ہوجاتی ہیں اور کبھی غریب خاندانوں کی بچیاں اُن کے پلّے بندھی چلی جاتی ہیں۔
بہرحال دھوکے کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود دنیا کی تاریخ۔ آدم علیہ السلام کو شیطان دھوکہ سے شجرِ ممنوعہ تک لے گیا جس کے نتیجے میں اُن کو اور حضرتِ حوّا کو زمین پر آنا پڑا اور اِس طرح دنیا بنی۔

آپ نے بھی اپنی زندگی میں دھوکے کھائے ہوں گے۔ دنیا جتنی ترقی کررہی ہے دھوکہ بازی بھی اتنی ہی ترقی کررہی ہے بلکہ دھوکہ دینے کے نئے نئے اور سائنٹفک طریقے وجود میں آرہے ہیں۔ ابھی دو چار مہینے پہلے کی بات ہے۔ ہم کو کچھ پیسوں کی ضرورت تھی۔ ہم اسٹیٹ بینک کے ATM گئے اور وہاں سے کچھ رقم نکالی۔ جونہی ہم اے ٹی ایم سے باہر نکلے ہم کو ایک عجیب واقعے سے دوچار ہونا پڑا۔ ایک نوجوان صاحب جو کافی خوش پوش لگ رہے تھے تیزی سے ہماری طرف بڑھے اور نہایت عقیدت سے ہمارا ہاتھ تھام لیا۔ ہم نے بڑے عجز سے اقرار کیاکہ ہم نے اُنھیں پہچانا نہیں۔ انھوں نے جواب میں ہمیں مطلع کیاکہ وہ ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں اور ہماری کچھ ایسی خوبیاں بیان کیں جن سے ہم خود واقف نہیں تھے۔ کہنے لگے ’آپ کو دیکھتے ہی مجھے اپنے والد یاد آگئے جو ہمیشہ دوسروں کے لئے کام آتے تھے‘۔ یہ کہتے ہوئے اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ اِس موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ پھر بھی ہم نے اُن کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور اُنھوں نے بھی اپنے آنسو پونچھے۔ اس کے بعد اُنھوں نے سڑک کی دوسری طرف اپنی انگلی سے ایک زچگی خانے کی طرف اشارہ کیا اور ہم سے پوچھا کہ کیا ہم اُس زچگی خانے میں کسی کو جانتے ہیں۔ ہم نے سادگی سے اقرار کرلیا کہ ہم وہاں کسی کو نہیں جانتے۔ اُنھوں نے نہایت دُکھ بھرے انداز میں اپنی کہانی چھیڑی ’’بات یہ ہے چچا جان ! میری بیوی کی وہاں زچگی ہوئی ہے۔ اب تک سوا لاکھ روپے کا بِل ادا کرچکا ہوں۔ آج صبح اُنھوں نے دس ہزار روپے کا نیا بل دیا ہے اور بارہ سو روپے کی دوائیں اور انجکشن لکھے ہیں۔ مجھے فوراً یہ دوائیں پہچانی ہیں ورنہ میری بیوی کی جان کو خطرہ ہے‘۔ ہم نے ہکلاتے ہوئے معذوری ظاہر کی۔ اُنھوں نے پھر سے ہمارا ہاتھ تھام لیا۔ اس بار اُن کی گرفت ذرا سخت تھی جیسے اُن کو ہمارے بھاگ جانے کا اندیشہ ہو۔ اُنھوں نے اپنا موبائیل فون نمبر دیا اور ہمارا فون نمبر لیا۔ کہنے لگے میں آپ کو شام کے چار بجے تک آپ کے بارہ سو روپے لوٹا دوں گا۔ اس وقت مجھے مایوس مت کیجئے۔ مجبوراً ہم نے اُن کو بارہ سو روپے دے دیئے۔ اُنھیں اپنے گھر کا پتہ بتایا اور اُن کے وعدے پر بھروسہ کرکے گھر واپس ہوگئے۔ ہم بے چینی سے اُن کا انتظار کرتے رہے لیکن نہ صرف یہ کہ وہ نہیں آئے بلکہ اُن کا دیا ہوا فون نمبر بھی غلط نکلا۔

اسی طرح ایک بار اور ہم دھوکہ کھاتے کھاتے رہ گئے۔ ہوا یوں کہ ہمارے ایک نہایت قریبی عزیز شدید بیمار تھے۔ ہم بعض اور لوگوں کے ساتھ ہاسپٹل میں ICU کے سامنے ٹھہرے تھے۔ ایک صاحب آئے۔ اُن کے ہاتھ میں ایک نسخہ تھا۔ کہنے لگے ’میں ایک غریب آدمی ہوں۔ میں بھیک نہیں مانگ رہا ہوں۔ میرا ایک کم عمر لڑکا ہے۔ اُس کے سر میں شدید درد ہے۔ ڈاکٹر نے دوا لکھی ہے۔ آپ صرف یہ دوا مجھے دلادیجئے۔ چونکہ ہم اپنے قریبی عزیز کی علالت سے پریشان تھے اِس لئے ہم اُن صاحب کے ساتھ ہولئے۔ تاکہ اِس کارِ ثواب سے ہمارے عزیز کو شفا ہوجائے۔ دواؤں کی دکان ہاسپٹل کے سامنے تھی۔ چلتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ نسخہ نہایت بوسیدہ حالت میں تھا۔ ہم نے کہا یہ نسخہ بہت پُرانا لگ رہا ہے۔ اُن صاحب نے جواب دیا سرکار درد بچے کو ہر تھوڑے دنوں میں اُٹھتا رہتا ہے۔ اس لئے نسخہ بوسیدہ لگ رہا ہے‘۔ جب ہم دکان کے قریب پہنچے تو اچانک اُن صاحب نے کہا ’’میں نے صبح سے پانی تک نہیں پیا ہے۔ حلق خشک ہورہا ہے۔ آپ دوا لیتے رہئے میں سامنے فٹ پاتھ پر چائے پی کر آتا ہوں‘‘۔ ہم نسخہ لئے دکان پر پہنچے اور دکان کے سیلز مین کو دیا۔ سیلز مین نے بتایا کہ دوا کی قیمت دو سو روپے ہے، پھر اچانک اُس نے پوچھا ’یہ دوا کس کے لئے ہے؟‘ ہم نے اُس کو صورت حال سمجھائی کہ یہ دوا ایک غریب آدمی کے بچے کے لئے ہے اور وہ غریب آدمی فی الحال سامنے کے فٹ پاتھ پر چائے پی رہا ہے، دکاندار نے ہم کو دوا دینے کے بجائے دکان کے کاؤنٹر پر اپنے ہاتھ ٹیکے اور اشتیاقِ دید میں آدھے دھڑ سے دکان سے باہر ہوگیا۔ جب وہ آدمی چائے پیتا ہوا اُسے نظر آگیا تو اُس نے ہم سے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا ’’آپ بال بال بچے‘‘۔ پھر اُس نے ہمیں بتایا کہ یہ شخص لوگوں کے ذریعے سے خریدی ہوئی دوا دوبارہ کم قیمت پر بیچ دیتا ہے اور پیسے خود رکھ لیتا ہے۔ ہم نے وہ بوسیدہ نسخہ اُس شخص کے حوالے کیا اور دوبارہ دواخانے کے اندر چلے گئے۔

ہم نے جو واقعات آپ کو سنائے وہ زیادہ تر غریب لوگوں کے ہیں۔ لیکن افسوس اس کا ہے کہ بڑے بڑے لوگ دھوکہ دینے سے باز نہیں آتے۔ کھانے پینے کی اشیاء بنانے والی کمپنیاں ایسے اشتہارات دیتی ہیں کہ اُن کی بنائی ہوئی چیزیں صحت کے لئے نہایت ضروری ہیں جب کہ وہ تغذیہ بخش اشیاء صرف جنک فوڈ سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتیں۔ الیکشن میں لیڈرس ایسی تقریریں کرتے ہیں کہ آپ ہمیں ووٹ دیجئے آپ کی ساری پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔ الیکشن کے بعد کوئی لیڈر ہاتھ نہیں آتا۔
دھوکہ دینے والا دھوکہ کھانے والے سے زیادہ ہشیار ہوتا ہے تبھی تو دھوکہ بازی کامیاب ہوتی ہے۔ آج ہی ہم نے سنا کہ ایک خاتون کسی عامل کے پاس دعا پڑھانے کے لئے گئیں۔ عامل نے اُس خاتون کے باپ سے کہاکہ اُن کے گھر میں خزانہ دفن ہے اور اگر اُسے ایک بھاری رقم دی جائے تو وہ یہ خزانہ برآمد کرسکتا ہے۔ اُن سادہ لوح لوگوں نے یہ رقم عامل کے حوالے کی اور عامل صاحب نے پتہ نہیں کس طرح اُن کے گھر سے بسکٹ برآمد کئے جونہ سونے کے تھے نہ میدے کے۔ ہم کو حیرت ہوتی ہے کہ لوگ ایسے جھانسوں میں آتے کس طرح ہیں۔ ہم سے اگر کوئی کہے کہ میں آپ کے گھر سے سونے کے بسکٹ برآمد کرسکتا ہوں تو ہم ہاتھ جوڑ کر عرض کریں گے کہ بھیّا ہم کو بس ایسے ہی بسکٹ کافی ہیں جنھیں ہم چائے کے ساتھ کھا سکیں۔
انٹرنیٹ اور فون پر بھی لوگ حسب استطاعت دھوکے دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہمارے لئے ایک فون آیا۔ فون کرنے والے صاحب نے ہمیں بتایا کہ ہمارے ایک چچا نے ایک انشورنس پالیسی ہمارے نام لی تھی جو Mature ہوچکی ہے۔ ضروری کارروائی کے لئے ہمارے بینک اکاؤنٹ نمبر وغیرہ کی ضرورت ہے۔ ہم نے اُن سے کہاکہ قبلہ ہمارے آخری چچا کو گزرے ہوئے بھی کم و بیش پچیس سال ہوچکے ہیں۔ اُن کے خود کئی بچے تھے اور اُن کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اپنی اولاد کو نظرانداز کرکے ایک نالائق بھتیجے کے نام انشورنس پالیسی لیتے۔ یہ حربہ کہیں اور آزمایئے۔ جواب میں ٹیلی فون کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔
بہرحال آج کا زمانہ ایسا ہے کہ قدم قدم پر دھوکوں کا سامنا ہے۔ اگر آپ کو کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو تو چار لوگوں سے مشورہ کیجئے، نہ کسی کو دھوکہ دیجئے نہ کسی سے دھوکہ کھایئے۔