نکاح کے فوری بعد ولیمہ

سوال : شریعت میں بعد از نکاح جو تقریب / طعام وغیرہ کا انتظام کیا جاتا ہے آیا وہ تعریف ولیمہ میں داخل ہے اور ولیمہ کس دن کرنا سنت ہے ؟ کیا ولیمہ کیلئے صحبت شرط ہے ؟ کیا نکاح کے دن ولیمہ کیا جاسکتا ہے ؟ بلا لحاظ استطاعت کتنے لوگ کا ولیمہ کی تقریب کرنا چاہئے ؟ ولیمہ کی تقریب کا سنت طریقہ کیا ہے ؟
خورشید احمد، ملے پلی
جواب : ایجاب و قبول کے بعد جب میاں بیوی کے درمیان ملاپ (صحبت یا خلوت صحیحہ) کی خوشی میں جو تقریب منعقد ہوتی ہے اس کو ولیمہ کہتے ہیں۔ ولیمہ مسنون ہے۔ نکاح کے بعد قبل از بناء (ملاپ) جو دعوت ہوتی ہے اس پر مسنون ولیمہ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ولیمہ کے لئے صحبت شرط نہیں۔ میاں بیوی کا تنہائی میں ملنا کافی ہے۔ دلہا حسب استطاعت ولیمہ کا اہتمام کرسکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے کیوں نہ ہو۔

کیا نکاح میں نامحرم گواہ رہ سکتا ہے ؟
سوال : دور حاضر میں نکاح کے وقت نوجوانوں کی گواہی کو افضلیت دی جارہی ہے اس لئے چچا زاد ، خالہ زاد ، ماموں زاد بھائیوں کو گواہ میں شامل کیا جارہا ہے ۔ کیا نکاح میں نامحرم گواہ رہ سکتا ہے ؟
نام ندارد
جواب : گواہ کا عاقل و بالغ ہونا ، آزاد ہونا اور مسلمان ہونا ضروری ہے۔ محرم اور غیر محرم کی کوئی قید نہیں۔ اس لئے چچا زاد ، خالہ زاد ، مامو زاد بھائی جبکہ وہ عاقل و بالغ آزاد مسلمان ہوں گواہ ہوسکتے ہیں۔

کھیل کے میدان میں سجدہ شکر بجا لانا
سوال : ایک عرصہ سے میرے دل میں بات کھٹکتی ہے کہ اکثر پاکستانی کرکٹرس جب کبھی وہ سنچری بناتے ہیں، فوراً سجدہ شکر بجا لاتے ہیں۔ ان کا یہ عمل بعض لوگوں کو بہت اچھا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کی نعمت کا ببانگ دھل شکرانہ ادا کرتے ہیں اور بعض احباب ان کے اس عمل پر تنقید کرتے ہیں لیکن دریافت کرنا یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے اس طرح کا عمل درست ہے یا نہیں ؟
محمد احسان الحق ، جوبلی ہلز
جواب : سجدۂ شکر کے جائز ہونے یا نہ ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں البتہ اس کے مسنون ہونے یا واجب ہونے میں اختلاف ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کسی نعمت کے حصول پر سجدۂ شکر ادا کرنا جائز ہے بلکہ مستحب ہے لیکن ہر نعمت کے حصول پر سجدۂ شکر بجا لانا واجب نہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کو نعمت سے سرفراز فرمائے ، مال و دولت یا اولاد سے نوازے یا گمشدہ چیز مل جائے یا مصیبت ٹل جائے ، کوئی بیمار شفاء پاجائے تو ایسے وقت سجدۂ تلاوت کی طرح سجدۂ شکر ادا کرنا مستحب ہے۔ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : 323 میں ہے ۔ قال ابو حنیفۃ و لکن یجوز ان یسجد سجدۃ الشکر وفی وقت سر بنعمۃ او ذکر نعمۃ فشکرھا بالسجدۃ و انہ غیرخارج عن حدالاستحباب… وصورتھا أن من تجددت علیہ نعمۃ ظاہرۃ … یستحب ان یفعلھا کسجدۃ التلاوۃ۔
سجدۂ شکر کا بجا لانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے ۔ چنانچہ جب ابو جھل لعنہ اللہ کا سر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپ نے دشمن خدا کے بدترین انجام پر سجدۂ شکر بجا لایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ یمامہ کی فتحیابی اور مسیلمہ کذاب کے قتل پر سجدہ کرتے ہوئے شکر بجا لایا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یرموک کی فتح پر اور حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے ذی العذبہ کے قتل پر سجدۂ شکر بجا لایا ۔ نیز ابو داؤد کی روایت کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام امت کی شفاعت کی اجازت حاصل ہوئی تو آپ نے سجدۂ شکر بجا لایا ۔ حاشیۃ الطحطاوی علی مراتی الفلاح ص : 323 میں ہے : کسجود ابی بکر لفتح الیمامۃ و قتل مسلیمۃ و سجود عمر عند فتح الیرموک وھو واد بنا حیۃ الشام و سجود علی عند رؤیۃ ذی العذبۃ قتیلا بافھر وروی انہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا اللہ ساعۃ ثم خر ساجدا فعلہ ثلاث مرات … وشاھدہ کرأس ابی جھل لعنہ اللہ لما أتی بہ الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم والقی بین یدیہ سجد اللہ تعالیٰ خمس سجدات شکرا۔

چھوٹی مسجد میں جمعہ کا اہتمام
سوال : ہمارے محلہ میں ایک چھوٹی مسجد ہے، جس میں نماز پنجگانہ باجماعت ادا کی جاتی ہے ۔ اس کی نگرانی متولی کے زیر تحت ہے۔ اس مسجد میں قدیم سے جمعہ نہیں ہوتی۔ بعض مصلی حضرات اس بات پر مصر ہیں کہ اس میں جمعہ کا بھی آغاز کیا جائے اور ایک بہترین خطیب کو جمعہ کے لئے مقرر کیا جائے لیکن مسجد کے پابند مصلی نیز مسجد کے نگران اس سے متفق نہیں ہے۔ آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ چھوٹی مسجد جس کے اطراف و اکناف میں مختلف بڑی بڑی مساجد ہوں، جمعہ کا اہتمام کرنا چاہئے یا نہیں ؟
ولی الدین، سکندرآباد
جواب : نماز جمعہ جامع مسجد میں ادا کرنے کا حکم ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ایک مقام میں جمع ہوں تاکہ ان کے درمیان پیار و محبت کے تعلقات قوی و مستحکم ہوں اور ان میں نرمی و رحمت کے جذبات بیدار ہوں ، بغض و حسد کے محرکات ختم ہوں، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ جب بلا ضرورت متعدد مساجد میں جمعہ کا اہتمام ہوگا تو اس میں مسلمانوں کی اجتماعیت میں کمی واقع ہوگی۔ نیز متولی منجانب سرکار اوقاف کا نگران ومحافظ ہوتا ہے ۔ اس کی بلا اجازت کسی شخص کو مداخلت کا حق نہیں۔ (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ جلد اول ص : 385 )
پس صورت مسئول عنہا میں قدیم سے مسجد میں نماز جمعہ قائم نہیں ہے اور اس کے قریب میں جامع مسجد موجود ہیں تو بعض مصلیوں کا اس مسجد میں جمعہ قائم کرنے کے لئے اصرار کرنا مناسب نہیں ہے۔

قدیم عیدگاہ پر مدرسہ تعمیر کرنا
سوال : وشاکھاپٹنم میں قدیم عیدگاہ تھی جو اب آبادی میں آجانے کی وجہ نئی عیدگاہ کی تعمیر کے بعد ویران تھی ۔ سابقہ عیدگاہ کے چبوترہ پر مسجد تعمیر کر کے نماز پنجگانہ کا انتظام کردیا گیا ۔ عیدگاہ کی بقیہ اراضی پر سرکاری خرچ سے شادی خانہ کی تعمیر جائز ہے یا اس پر مدرسہ تعمیر کرنا چاہئے ؟
نام …
جواب : صورت مسئول عنہا میں اراضی عیدگاہ ، مسجد کے حکم میں ہے ۔ اب اگر جدید عیدگاہ تعمیر کرلینے اور سابقہ عیدگاہ آبادی میں آجانے سے قدیم عیدگاہ کی ضرورت باقی نہیں رہی تو بھی اس اراضی کا احترام مسجد ہی کی طرح کیا جائے گا ۔ لہذا اس پر مدرسہ کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ شادی خانہ کی نہیں کیونکہ اس سے احترام مسجد باقی نہیں رہتا۔

سجدۂ سہو کب کریں
سوال : میں دو رکعت والی قصاء نماز پڑھ رہا تھا۔ قعدہ اخیرہ کے بعد کھڑا ہوگیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد یاد آنے پر میں بیٹھ گیا ۔ صورت مسئولہ میں سجدہ سہو کے لئے دوبارہ تشہد پڑھنا چاہئے یا درود و دعا پڑھ کر سجدہ سہو کرنا چاہئے ؟
معین الدین، نامپلی
جواب : صورت مسئول عنہا میں دو رکعت والی نماز میں قعدۂ اخیرہ کے بعد کھڑے ہوکر بیٹھ گئے تو آپ از سر نو تشہد پڑھ کر سجدۂ سہو کریں۔

قبرستان کی زمین پر ٹاور نصب کرنا
سوال : قدیم موقوفہ قبرستان کی اراضی پر Cell Phone Tower تنصیب کرنا ازروئے شرع درست ہے یا نہیں جبکہ اہلیان محلہ و بعض ذمہ داران مسجد کو قبرستان کے تنگ ہوجانے کا اندیشہ ہے ۔ کیا قبرستان کی زمین تنگ کرنے کے باوجود سیل فون ٹاور قائم کیا جاسکتا ہے ؟ کیا یہ منشاء وقف کے خلاف نہیں ہے ؟
عدیل قادری، چنچل گوڑہ
جواب : قبرستان کی زمین کو تدفین اموات کے سوا کسی اور غرض کے لئے استعمال کرنا یا کرایہ پر دینا درست نہیں کیونکہ یہ امر منشاء واقف کے خلاف ہوگا ۔ نیز قبرستان کی زمین تنگ ہوگی ۔ لہذا صورت مسئول عنہا میں قبرستان کی زمین پر سیل فون ٹاور کی تنصیب درست نہیں۔ نیز الاسعاف فی احکام الاوقاف ص : 66 میں کی عبارت ہے : لواتخذ اھل قریۃ ارضا لھم مقبرۃ و قبر وافیھا ثم بنی فیھا و احد منھم بیتا لوضع اللبن وآلۃ الدفن و اجلس فیہ من یأخذالامتعۃ بغیر رضا أھل القریۃ او برضا بعضھم فقط لابأس بہ اِن کان فی المقبرۃ سعۃ بحیث لا یحتاج الی ذلک المکان ولو احتاجوا الیہ یرفع البناء یدفن فیہ سے مستفاد ہے۔

مسلم معاشرہ اور بے حیائی
سوال : آج کل مسلم معاشرہ میں مرد و خواتین سبھی میں بے حیائی بڑھتی جارہی ہے۔ حیاء جہاں عورتوں کیلئے ضروری ہے، کیا مردوں کیلئے بھی ضروری ہے ؟ اس ضمن میں اسلام کی تعلیمات سے عوام الناس کو واقف فرمائیں ؟
کریم الدین، بازار گھاٹ
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے پہلے سے اہل عرب میں ‘ تمام تر شرافت و نجابت کے باوجود ‘ شرم و حیا کا بہت کم رواج تھا‘ لوگ ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہونے میں قباحت نہ سمجھتے تھے‘ حتی کہ کعبہ کا طواف بھی بعض قبائل برہنہ ہوکر کرتے تھے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیدائشی طور پر شرم و حیا کا پیکر تھے۔ حضرت ابو سعیدؓ فرماتے ہیں : ’’ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشد حیاء من العذراء فی خدرھا ‘‘ (مسلم ‘ 4 : 1809 حدیث 2320 ) ‘ یعنی آپؐ پردہ دار دوشیزہ سے بھی زیادہ حیادار تھے ۔ آپؐ نے حیا کو ایمان کا شعبہ قرار دیا ہے (البخاری‘ 14:1 ‘ الایمان ‘ باب 16 ) ۔ آپؐ کے نزدیک حیا ہی انسان کا اصل سرمایہ ہے‘ اگر وہ نہ رہے تو انسان جو چاہے کرے ’’ اذا لم تستحی فافعل ماشئت ‘‘ (البخاری ‘ کبا الادب ‘ ابو داؤد 149:5 ‘ حدیث 4797 ‘ ابن ماجہ ‘ حدیث 3418 ‘ احمد بن حنبل : مسند ‘ 273:5 ) ۔ فرط حیا کا یہ عالم تھا کہ آپؐ عموماً قضائے حاجت کے لئے اتنی دور نکل جاتے کہ وہاں تک کسی دیکھنے والے کی نگاہ نہ پہنچتی … (ابو داؤد ‘ کتاب الطہارۃ) اور آپؐ اس وقت تک اپنا تہہ بند نہیں اٹھاتے تھے‘ جب تک آپؐ زمین پر بیٹھ نہ جاتے… یا اس کے قریب نہ ہوجاتے۔ اور اگر آپؐ کو کوئی ایسی بات کسی کو سمجھانا پڑتی تو آپؐ اشاروں کنایوں میں بات سمجھاتے ‘ گویا آپؐ نے اپنی گفتگو میںبھی کبھی ’’ فحش پن ‘‘ کو اختیار نہیں فرمایا (قاضی عیاض : الشفاء ‘ ص 52 ) … عموماً میت کو غسل دیتے وقت اس قسم کی بے احتیاطی ہوجاتی ہے‘ مگر آپؐ نے یہ دعا (گویا وصیت) فرمائی کہ اے اللہ ! اس کی آنکھیں پھوڑدے جو میرا ستر دیکھے ‘‘ (ابو داؤد : السنن) ‘ چنانچہ آپؐ کو کپڑوں سمیت غسل دیا گیا (ابو داؤد ‘ 2503:3 ‘ حدیث 3141 ‘ ابن ماجہ ‘ حدیث 1464 ) ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ اسلام میں حیاء کی کیا اہمیت ہے۔لیکن افسوس ہے کہ آج مسلم معاشرہ میں بے حیائی‘ بے پردگی روز بروز پروان چڑھتی جارہی ہے‘ جواسلامی روح کے خلاف ہے۔