نو مسلم اور رضاعت کا مسئلہ

سوال :  یہ حسن اتفاق ہے کہ ہمارے گاؤں میں کچھ ہندو بھی رہا کرتے تھے، انہیں سے دو ہندو گھرانے مسلمان ہوگئے ، بعد ازاں ان کے لڑکے بڑے ہوئے تو ایک کی لڑکی دوسرے کے لڑکے سے شادی کرناطئے پایا، بعد میں پتہ چلا کہ لڑکے کی ماں نے بچپن میں لڑکی کو دودھ پلایا تھا۔ واضح رہے کہ اس وقت ماں باپ اور اولاد سب کے سب کفر کی حالت میں تھے۔ اس کے ایک عرصہ کے بعد وہ مسلمان ہوئے۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ متذکرہ صورت میں لڑکا لڑکی کا نکاح ازروئے شرع درست ہے یا نہیں؟ ان میں رضاعت کا رشتہ ہے مگر وہ حالت کفر میں ہوا تھا۔
محمد افسر ، ای میل
جواب :  کوئی غیر مسلم خاتون کسی نو مسلم لڑکی کو ایام شیرخوارگی میں دودھ پلائے۔ بعد ازاں وہ مسلمان ہوجائیں تو ان میں رضاعت کے احکام ثابت ہوں گے ۔ دودھ پینے والی لڑکی کا نکاح اپنی رضاعی ماں کے کسی لڑکے سے شرعاً جائز نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص : 344 میں ہے‘ والرضاع فی دارالاسلام و دارالحرب سواء حتی اذا رضع فی دارالحرب واسلموا أو خرجوا الی دارنا تثبت احکام الرضاع فیما بینھم کذا فی الوجیز للکردری۔پس صورت مسئول عنہا میں نو مسلم لڑکی کا نکاح اپنی نو مسلم رضاعی ماں کے نو مسلم لڑ کے سے شرعاً جائز نہیں۔

تشھد مکمل کرنے سے پہلے امام کا کھڑے ہوجانا
سوال :  عموماً ایسا ہوتا ہے کہ امام صاحب دوسری رکعت کے قعدہ میں ہوتے ہیں اور ہم جماعت میں شریک ہوتے ہیں اور تشھد شروع کرتے ہیں، کچھ پڑھتے ہی نہیں کہ امام صاحب کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہم کو بیٹھ کر تشھد مکمل کر کے تیسری رکعت میں ملنا چاہئے یا تیسری رکعت میں شریک ہوجانا چاہئے۔
محمد عبدالقادر، باغ جہاں آراء
جواب :  دریافت شدہ مسئلہ میں اگر دوسری رکعت میں مقتدی امام سے ملے اور اس کے تشھد ختم کرنے سے قبل امام کھڑے ہوجائے تو مقتدی کو چاہئے کہ وہ تشھد مکمل کرلے، پھر امام کے ساتھ تیسری رکعت میں شریک ہو اور اگر مقتدی تشھد مکمل کئے بغیر تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوجائے تو نماز تو ہوجائے گی لیکن پہلا قول مختار ہے۔ عالمگیری جلد اول ص : 90 میں ہے ‘ اذا ادرک الامام فی التشھد وقام الامام قبل أن یتم المقتدی أو سلم الامام فی آخر الصلاۃ قبل ان یتم المقتدی التشھد فالمختار أن یتم التشھد کذا فی الغیاثیۃ وان لم یتم أجزأہ۔

قضاء نمازوں کیلئے اذان اور اقامت
سوال :  کبھی مجھ سے عصر کی نماز قضاء ہوجاتی ہے تو میں اس کو مغرب اور عشاء کے درمیان قضاء کرتا ہوں۔ آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ قضاء نماز کیلئے ا ذان اور اقامت دونوں دینا چاہئے یا کیا حکم ہے ؟ اس طرح ایک سے زائد نمازیں قضاء ہوں تو ایسی صورت میں اذان اور اقامت کا کیا حکم ہے ؟
خرم ، پٹن چیرو
جواب :  اگر کسی شخص سے کوئی نماز قضاء ہوجائے تو بوقت قضاء اذان اور اقامت دونوں کہے جائیں گے اور اگر کوئی شخص ایک ہی مجلس میں ایک سے زائد قضاء نمازیں ادا کرے تو وہ پہلی نماز کیلئے اذان و اقامت کہے گا ، ماباقی نمازوں کیلئے اس کو اختیار رہے گا چاہے تو مابقی نماز کیلئے اذان و اقامت کہے یا صرف اقامت پر اکتفاء کرے ۔ تاہم ہر قضاء نماز کیلئے علحدہ اذان و اقامت کہنا بہتر ہے تاکہ قضاء نماز، اداء نماز کی سنتوں کے مطابق ادا کی جائے ۔ احناف کے نزدیک یہ قاعدہ ہے کہ ہر فرض نماز کیلئے خواہ وہ اداء ہو یا قضاء اذان اور اقامت کہی جائے گی ۔ خواہ وہ تنہا قضاء ادا کرے یا جماعت کے ساتھ۔ عالمگیری جلد اول ص : 55 میں ہے ‘ ومن فاتتہ صلاۃ فی وقتھا فقضا ھا اذن لھا و اقام و احدا کان او جماعۃ ھکذا فی المحیط  وان فاتتہ صلوات اذن للاولی و اقام وکان مخیرا فی الباقی ان شاء اذن و أقام وان شاء اقتصر علی الاقامۃ کذا فی الھدایۃ وان اذن وأقام لکل صلاۃ فحسن لیکون القضاء علی سنن الاداء کذا فی الکافی… انما ھوا اذا قضا ھا فی مجلس واحد… والضابطۃ عندنا ان کل فرض ادا ء کان أو قضاء یؤذن لہ و یقام سواء اداہ منفردا أو بجماعۃ … الخ

بعد تقسیم جائیداد قرض کا مطالبہ
سوال :  ہمارے والد کا تقریباً چار سال قبل انتقال ہوا، ان کے انتقال کے بعد ان کی جائیداد ان کے ورثاء میں تقسیم ہوگئی ۔ لڑکے ، لڑکیوں نے اپنا اپنا حصہ لے لیا ۔ حال ہی میں ہمارے ماموں بیرون ملک سے واپس ہوئے ، انہوںنے اطلاع دی کہ ہمارے والد نے ان سے آٹھ دس سال قبل اسی ہزار روپئے قرض لیا تھا ۔ اس کو انہوں نے ادا نہیں کیا۔ ہم سب کو ان کی بات پر صد فیصد بھروسہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جائیداد تقسیم ہوچکی ۔ والد مرحوم کی کوئی رقم باقی نہیں ہے ۔ گھر، زمین ، زیور سب تقسیم ہوچکا ۔ ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ چھوٹا بھائی پورا قرض ادا کرنے کیلئے تیار ہے لیکن شرعی لحاظ سے اس کو ادا کرنے کا کیا طریقہ ہے ۔ بتایا جائے تو مہربانی و نوازش ہوگی۔
محمد اسلم ، ٹپہ چبوترہ
جواب :  اصولاً صاحب جائیداد کے انتقال کے بعد اس کے ذمہ واجب الاداء قرض جائیداد کی تقسیم سے قبل ادا کیا جاتا ہے اور اگر جائیداد تقسیم ہوجائے ، بعد ازاں مرحوم کے ذمہ قرض ہونے کا علم ہو تو اس کی ادائیگی ورثاء پر اپنے اپنے شرعی حصہ کے بقدر ہوگی ۔ یعنی مرحوم کے ذمہ اسی ہزار کا قرض ہے اور مرحوم کے تین لڑ کے اور دو لڑکیاں ہیں تو ایسی صورت میں فی لڑکا دو، فی لڑکی ایک کے حساب سے ہر لڑ کے کو بیس ہزار اور ہر لڑکی کو دس ہزار ادا کرنا ہوگا۔

سجدہ سہو کا مسئلہ
سوال :  میں کل محلہ کی مسجد میں عصر کی نماز کیلئے آخری رکعت میں شریک ہوا۔ امام صاحب تشھد کے بعد دونوں طرف سلام پھیردیئے۔ میں مابقی رکعات پڑھنے کیلئے کھڑا ہوگیا۔ ابھی سورہ فاتحہ شروع بھی نہیں کیا تھا کہ امام صاحب بلند آواز سے اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں چلے گئے اور مقتدی بھی ان کو دیکھ کر سجدہ میں چلے گئے ، میں نے جب محسوس کیا کہ سب سجدہ میں ہیں تو میں بھی دوبارہ امام صاحب کے ساتھ سجدہ میں چلا گیا۔ بعد ازاں ان کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی نماز کی تکمیل کیا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ امام صاحب دوسری رکعت کے بعد تشھد میں بیٹھے نہیں تھے ، اس لئے انہوں نے سجدہ سہو کیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا میرا امام کے ساتھ سجدہ سہو میں شریک ہونا جبکہ میں رکعت کیلئے پورے طور پر کھڑا ہوچکا تھا ازروئے شرع درست تھا یا مجھے اپنی نماز پڑھ لینی چاہئے تھی؟
نام ندارد
جواب :  اگر امام سلام پھیردے اور جس کی رکعت چھوٹ گئی ہو وہ تکملہ کیلئے کھڑے ہوجائے ۔ بعد ازاں امام سجدہ سہو کرے تو مسبوق مقتدی (جس کی کوئی رکعت چھوٹ گئی ہو( کو امام کی پیروی کرتے ہوئے سجدہ سہو میں چلے جانا چاہئے اور اگر وہ سجدہ سہو کیلئے واپس نہ ہوا اور اپنی نماز کو جاری رکھا اور آخر میں سجدہ سہو کرے تو فقھاء نے نماز کو جائز قرار دیا۔ تاہم بہتر صورت یہ ہے کہ وہ امام کی مناسبت اور پیروی کرتے ہوئے سجدہ سہو میں چلے جائے ۔ عالمگیری جلد اول ص : 128 میں ہے: ولو سلم الامام فقام المسبوق ثم تذکر الامام ان علیہ سہوا فسجد لہ قبل ان یقیدالمسبوق الرکعۃ بسجدۃ فعلیہ ان یرفض ذلک و یعود الی متابعتہ… ولولم یعد الی متابعۃ الامام و مضی علی قضائہ فانہ تجوز صلاتہ و یسجد للسھو بعد فراغہ استحسانا۔
پس صورت مسئول عنہا میں آپ نے امام کی پیروی کرتے ہوئے سجدہ سہو میں جو شرکت کی وہ ازروئے شرع درست ہے۔ ۔

کورٹ میریج کے بعد دوبارہ رسمی شادی کرنا اور مہر کا اضافہ کرنا
سوال :  مسلمان لڑکا لڑکی جو کہ شرعی و قانونی اعتبار سے بالغ و عاقل ہیں، انہوں نے اپنے والدین کے علم و رضامندی کے بغیر اپنے مسلمان دوستوں کی موجودگی میں ایک کورٹ میں عقد نکاح کیا اور 25 ہزار روپئے زر مہر مقرر کیا اور لڑ کی کو حوالہ کردیا۔ بعد ازاں والدین کواطلاع ہوئی تو انہوں نے شکوک و شبہات کی بناء باہمی رضامندی سے دوست و احباب و عزیز و اقارب کو بلاکر شادی خانہ میں باضابطہ شادی و ولیمہ کیا اور بوقت عقد ایک لاکھ روپیہ مہر مؤجل (دیر طلب) مقرر کیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ ازروئے شرع شوہر کے ذمہ سے مہر ادا ہوگیا یا اسے مزید 75 ہزار یا ایک لاکھ روپئے ادا کرنا ہوگا۔
نام مخفی
جواب :  شرعاً پہلی مرتبہ جو مہر مقرر ہوا اور ادا کیا گیا، وہی اس کے ذمہ تھا، دوبارہ جو عقد نکاح کی نقل کی گئی اس کی وجہ سے مزید مہر کی ادائیگی عاقد پر نہیں رہے گی ۔ البتہ شوہر نے دوبارہ رسمی عقد نکاح کے وقت اصل (سابقہ) مہر میں اضافہ کی نیت کی تھی تو اس کی نیت کے مطابق اصل مہر پر اضافہ و زیادتی لازم آئے گی اور اگر اضافہ کی نیت نہ کی تھی تو محض احتیاط کی خاطر دوبارہ تجویز نکاح کی بناء مہر ثانی کا لزوم نہیں رہے گا ۔ عالمگیری جلد اول ص : 313 میں ہے : ولو تزوج امرأۃ بألف درھم ثم جددالنکاح  بأ لفین اختلفوا فیہ ذکر الشیخ الاعلم المعروف بخوا ھرزادہ رحمہ الہ تعالیٰ فی کتاب النکاح ان علی قول ابی حنیفۃ و محمد رحمھما اللہ تعالیٰ لا تلزمہ الالف الثانیۃ و مہرھا الف درھم و علی قول ابی یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ تلزمہ الالف الثانیۃ و بعضھم  ذکر الخلاف علی عکس ھذا، قال بعض مشائخنا رحمھم اللہ تعالیٰ المختار عندنا ان لا تلزمہ الالف الثانیۃ کذا فی الظھیرۃ و فتوی القاضی الامام علی انہ لا یجب بالعقد الثانی شئی الا اذا عنی بہ الزیادۃ فی المھر فحینئذ یجب المھر الثانی کذا فی الخلاصۃ… وان جددالنکاح للاحتیاط لا تلزمعہ الزیادۃ بلا نزاع کذا فی الوجیز للکردری۔

کم سن لڑکے کی حق پرورش پر خلع قبول کرنا
سوال :  ایک اہم مسئلہ زیر دوراں ہے کہ میاں بیوی میں کافی اختلافات رہے، نباہ کی کوئی صورت نہ رہی تو لڑکی نے خلع کا مطالبہ کیا ۔ واضح رہے کہ دونوں کو ایک دیڑھ سالہ لڑکا ہے۔ شوہر نے خلع قبول کرنے کیلئے شرط رکھی کہ کمسن لڑکا باپ کے ساتھ رہے گا ، ڈاکومنٹس تیار ہو ئے ، دونوں فریقوں نے دستخط کردیئے ۔ خلع ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ شوہر نے قبولیت خلع کیلئے بچے کو رکھنے کی جو شرط رکھی تھی ، شرعاً اس کا کیا حکم ہے ۔ اگر بچہ ماں واپس نہ کرے تو خلع ہوگا یا نہیں؟
ای میل
جواب :  کمسن بچہ سات سال تک ماں کے پاس رہے گا یہ بچہ کا حق ہے۔ ماں باپ کے باطل کرنے سے یہ حق باطل نہیں ہوگا۔ پس خلع صحیح ہوگیا اور شرط باطل ہے ۔ شرعاً لڑکا سات سال تک ماں کے پاس رہے گا۔ عالمگیری جلد اول میں 491 میں ہے : رجل خلع امرأتہ و بینھما ولد صغیر علی أن یکون الولد عندالاب سنین معلومۃ صح الخلع و یبطل الشرط لأن کون الولد الصغیر عندالأم حق الولد فلا یبطل بابطالھا۔