نوین پٹنائک کی پارٹی بھی نئی لوک سبھا کیلئے بہت اہم

راج دیپ سردیسائی
عملی سیاست میں کوئی غیرصحت مندی یا جسمانی کمزوری کی کسی علامت کی خاص طور پر الیکشن کے وقت کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس سے شاید وضاحت ہوسکے کہ کیوں کیمرہ سے زیادہ تر بچتے رہنے میں مشہور چیف منسٹر اُڈیشہ نوین پٹنائک کو عین ممکن ہے اپنی گرتی صحت کی مسلسل افواہوں کو دور کرنے کیلئے جِم میں ورزش کرتے ہوئے اپنا ویڈیو عام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ملک کے طویل ترین عرصہ تک چیف منسٹررہنے والوں میں شامل پٹنائک شاید نہایت پیچیدہ مزاج کے حامل ہیں۔ وہ شاذونادرہی اُڑیہ زبان بولتے ہیں، فطری مقرر نہیں ہیں، اپنی تشہیر اور مارکیٹنگ کی عادی نہیں، اور پھر بھی سیاست میں زائد از دو دہوں سے بدستور ناقابل شکست ہیں۔ انتخابات کے وقت جبکہ ساری توجہ زور و شور کی سیاسی خطابت کے مودی ماڈل پر لگ بھگ پوری طرح حاوی ہے، کیا کوئی متبادل نوین ماڈل ہے جو شاید بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حد سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کی کوشش والی حرکتوں کا جواب پیش کرسکے؟
جاریہ انتخابی مہم میں ابتداء سے ایک سوال بار بار پوچھا جاتا رہا ہے کہ مودی بمقابلہ کون؟ جہاں راہول گاندھی نے سنجیدہ اور پُرجوش توانائی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن وہ قومی مقبولیت کے معاملے میں مودی سے بدستور کافی فاصلے پر ہیں۔ کہیں نہ کہیں وہ نامدار ہونے بظاہر منفی پہلو سے خود کو آزاد کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوپائے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ پٹنائک بھی موروثی سیاستدان ہیں، وہ طاقتور لیڈر بیجو پٹنائک کے فرزند ہیں، جن کا 1997ء میں دیہانت ہوا اور یکایک اُن کے بیٹے کی زندگی لٹینس دہلی کی خیرہ کردینے والی سرگرمی سے بھوبنیشور کے نوین نواس کی زیادہ سادہ کائنات کو منتقل ہوگئی۔ اور پھر بھی مراعات یافتہ وارث سے طاقتور علاقائی لیڈر بننے والے نوین بابو ریاستی قائدین کی جمگھٹ کا حصہ ہیں جو ایک قوم، ایک پارٹی، ایک لیڈر کے نعرے کا جوابی معروضہ پیش کرتے ہیں۔ تلنگانہ میں کے چندرشیکھر راؤ (کے سی آر) سے مغربی بنگال میں ممتا بنرجی اور اڈیشہ میں پٹنائک تک ہر ایک لیڈر اپنے اپنے گڑھ میں سیاسی معاملوں میں مودی کی اجارہ داری کو چیلنج پیش کررہا ہے۔ منتخب آمر کے اس دور میں ان میں سے ہر ایک علاقائی سربراہ اکثروبیشتر اسی طرح کے تحکم پسند رجحانات کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کا وہ قومی ’بگ باس‘ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ بیجو جنتا دل کا جو رویہ ہے، ویسا ہی ترنمول کانگریس کا ہے یا بلاشبہ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کا بھی وہی ہے۔ اگر کسی کو بھی خاص داخلی گوشے میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے تو اُسے لگ بھگ یقینی طور رپر فیملی ممبر بن جانا چاہئے۔ پٹنائک کو اس معاملے میں کچھ استثنا حاصل ہے کیونکہ وہ واحد غالب سیاستدان کے ایک اور اُبھرتے رجحان کی علامت ہیں، جن کی پارٹی کا مستقبل اگر وہ قیادت نہ کریں تو نمایاں طور پر کمزور اور غیریقینی معلوم ہوتا ہے۔ اس قسم کے حکمران اپنی استبدادانہ روش کے باوجود بچ نکلتے ہیں کیونکہ ظاہر طور پر اُن کا اپنے ووٹر سے رابطہ مضبوط ہے۔ کیا کوئی نیشنل پارٹی لیڈر اس طرح بچ سکتا ہے جیسے کے سی آر نے اپنی ڈسمبر کی انتخابی فتح کے بعد لگ بھگ دو ماہ کارکرد کابینہ کے بغیر گزارے؟ یا جس طرح ممتا بنرجی بعض اوقات اپنے حریفوں کو معمول کے سیاسی جلسوں کے انعقاد کی اجازت نہیں دیتی ہیں؟
علاقائی لیڈروں کی طاقت بنیادی طور پر ریاستی نظم و نسق پر اُن کے کامل کنٹرول سے مربوط ہے۔ ان میں سے زیادہ تر قائدین اچھے تربیت یافتہ بیوروکریٹس اور پولیس آفیسرز کے باہم سختی سے مربوط گروپ کے ذریعے کام کرتے ہیں، جن کی ’سپریم لیڈر‘ کے تئیں وفاداری ہر چیز سے پرے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ کوئی راز نہیں ہے کہ اڈیشہ میں چیف منسٹر کے بعد سب سے زیادہ طاقتور شخص اُن کے خاص منتخب بیوروکریٹس ہیں۔ ریاستی سربراہ کو حکومتی عہدہ داروں پر سیاسی رفقاء سے کہیں زیادہ بھروسہ ہے، جن کو اکثر امکانی حریف سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح عملاً ایسے تمام سیاست دان ’سنگل ونڈو کلیرنس سسٹم‘ تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جس نے اُن کی حکمرانی کے طرز کو زیادہ مرکوز اور فیصلہ کن بنادیا، اور کبھی کبھی تو چست و چالاک اور آمرانہ کردیا ہے۔ اور چونکہ اُن کی سیاست کی جڑیں بڑی حد تک محدود جغرافیائی علاقہ میں پیوست ہیں، اس لئے وہ اپنے قومی ہم منصب لیڈروں کے مقابل کہیں تیزی سے اور زیادہ مؤثر طور پر جڑسکتے ہیں۔ اس میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ پٹنائک کا بے زمین کسانوں کیلئے ’کالیا پلان‘ اور کے سی آر کی کسانوں کیلئے ’رعیتو بندھو اسکیم‘ کو بالعموم اس کے مقابل برتر سمجھا گیا جو کچھ بی جے پی اور کانگریس کو کسان کیلئے پیشکش کرنی پڑی۔ یا یہ کہ ممتا بنرجی کے لڑکیوں کیلئے ’کنیاشری پراجکٹ‘ کو ہر گوشے سے حمایت حاصل ہوئی۔
بہرحال، مرکزی سوال پر واپس آتے ہیں: مودی کا مقابلہ کس سے ہے؟ مہاملاوٹ (بڑی الجھن) جسے بی جے پی یکسر خارج کررہی ہے، اس میں کئی علاقائی قائدین کا مخلوط شامل ہے۔ ڈی ایم کے، جگن موہن ریڈی؍ چندرا بابو نائیڈو کو جوڑ لیجئے، اور بلاشبہ اکھلیش یادو اور مایاوتی کو بھی نوین۔ ممتا۔ کے سی آر تگڑی کے ساتھ شامل کیجئے، اور آئندہ لوک سبھا میں ممکنہ طور پر زائد از 150 نشستوں کا گروپ رہے گا جو ایسی کسی بھی قومی قیادت کیلئے طاقتور چیلنج پیش کرسکتا ہے جو تیزی سے وفاقی رنگ میں ڈھلنے والے ہندوستان کو حقیر جانے۔
فرض کیجئے کہ مودی 2014ء کے اپنے غیرمعمولی واحد پارٹی کی اکثریت والے مظاہرے کا اعادہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں، تب یہی علاقائی قائدین بڑی اہمیت اختیار کرجائیں گے حالانکہ خود وہ کبھی گجرات کے طاقتور ترین لیڈر رہے، لیکن مستقبل کی نئی صورتحال میں انھیں ممکنہ حلیفوں کو تلاش کرنا پڑسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر 1990ء کے دہے کی طرح یونائیٹیڈ فرنٹ تجربہ بظاہر ممکن نہ ہو، تب بھی 23 مئی کے بعد کسی بھی برسراقتدار مخلوط میں طاقتور علاقائی قائدین کیلئے عظیم تر رول کو خارج مت کیجئے۔
اختتامی تبصرہ : نوین پٹنائک سے انٹرویو کے دوران میں اُن سے ایک سوال پوچھنا بھول گیا جس نے ہمیشہ مجھے حیرت زدہ کیا ہے: کیا مجرد ہونا 24×7 مسابقتی سیاست میں کامیابی کی علامت ہے۔ چند روز بعد انھوں نے میرے سوال کا جواب ٹوئٹر پر دیا: ’’مجرد ہونا کامیابی کی ضمانت نہیں، نہ ہی اکیلاپن ہے۔ اڈیشہ کے ساڑھے چار کروڑ لوگ میرے لئے فیملی ہیں۔‘‘ یہ اپنی نوعیت کا کرارا جواب ہے جو قومی سطح پر ’کرم یوگی‘ مودی کو بھی اُن کے حامیوں میں پُرکشش شخصیت بناتا ہے!
rajdeepsardesai52@gmail.com