نوجوانوں کی بڑی تعداد شراب اور منشیات کی عادی

محکمہ اکسائز کو آمدنی کا ذریعہ بنانے کی پالیسی ٹھیک نہیں

بی جے پی کا اسمبلی سے واک آؤٹ
مرحلہ وار نشہ بندی عائد کی جائے: تلگودیشم

حیدرآباد ۔ 31۔ اکٹوبر (سیاست نیوز) تلنگانہ اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے ریاست اور بالخصوص حیدرآباد میں نشہ کی عادت میں اضافہ اور منشیات کے عام ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔ بی جے پی نے حکومت کی جانب سے شراب کو عام کرنے اور محکمہ اکسائیز کو آمدنی کا ذریعہ بنانے پر بطور احتجاج ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ بی جے پی اور تلگو دیشم ارکان نے کہا کہ اسکول اور کالجس کے طلبہ شراب اور منشیات کے عادی ہورہے ہیں۔ تلگو دیشم رکن آر کرشنیا نے ریاست میں مرحلہ وار طور پر نشہ بندی کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ کالجس اور اسکول کے طلبہ نشہ کے عادی ہورہے ہیں کیونکہ انہیں شراب اور منشیات بہ آسانی دستیاب ہے۔ انہوں نے تعلیمی اداروں کے قریب شراب کی دکانوں کی اجازت کی مخالفت کی۔ کشن ریڈی کے مطابق ایک سروے میں یہ بار منظر عام پر آئی ہے کہ 39 ہزار طلبہ شراب نوشی کے عادی ہیں۔ ان میں اسکول اور کالجس کے طلبہ شامل ہیں۔ بعض اسکولوں میں ٹیچر اور طلبہ کی شراب پارٹی کی اطلاعات ملی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر اسمبلی حلقہ میں شراب نوشی سے ہونے والی اموات کا سروے کیا جانا چاہئے۔ کشن ریڈی نے کہا کہ شراب سے سالانہ 30 تا 40 ہزار کروڑ کا بزنس ہورہا ہے اور شراب کے کاروبار میں تلنگانہ نے اترپردیش جیسی بڑی ریاستوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بارس میں گولڈن اوور اور ہیپی اوور کے نام پر طلبہ کو راغب کرنے کیلئے ایک کی خریدی پر ایک بوتل مفت فراہم کی جارہی ہے۔ اس مرحلہ پر وزیر داخلہ این نرسمہا ریڈی نے مداخلت کی اور سوال کیا کہ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں کیا نشہ بندی نافذ ہے؟ انہوں نے کہا کہ جب بی جے پی ریاستوں میں شراب کی فروخت عام ہے تو پھر تلنگانہ کو کیوں ٹارگیٹ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کشن ریڈی کو مشورہ دیا کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی سے نشہ بندی کے حق میں احکامات حاصل کریں۔ کشن ریڈی نے کہا کہ یہ مسئلہ سیاسی نہیں بلکہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ نوجوان نسل شراب اور منشیات کی عادی ہورہی ہے جس سے حادثات میں اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے آمدنی میں اضافہ کے بجائے منشیات پر پابندی کا مطالبہ کیا۔