نواز شریف کے دوبارہ پارٹی صدر بننے کے فیصلہ کیخلاف عدالت میں عرضداشت

نواز شریف کو صدر بنانا نہ صرف ملک کے دستور بلکہ قرآن و شریعت سے بھی کھلواڑ
پالیٹکل پارٹیز آرڈیننس (PPO) 2002 ء کے آرٹیکل 5 کا حوالہ
سپریم کورٹ کے فیصلہ کا احترام کرنا ہر شہری کا فرض چاہے وہ وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو
اسلام آباد ۔ 25 اکتوبر۔(سیاست ڈاٹ کام) پاکستانی ہائیکورٹ نے آج داخل کردہ اُس عرضداشت کو منظور کرلیا جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو اُن کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ( نواز) کی قیادت نہ سونپی جانے کی درخواست کی گئی تھی ۔ یاد رہے کہ 67 سالہ نواز شریف کو جاریہ ماہ کے اوائل میں ایک بار پھر پارٹی صدر مقرر کیا گیا تھا جبکہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ کی جانب سے انھیں نااہل قرار دینے کے بعد انھوں نے نہ صرف وزیراعظم بلکہ پارٹی کے صدر کی حیثیت سے بھی استعفیٰ دیدیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ (IHC) کے جج عامر فاروق نے بتایا کہ انھیں یہ عرضداشت ملی ہے اور اُسی مطابقت سے انھوں نے نواز شریف اور دیگر کے خلاف نوٹس جاری کی ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپ ہوگا کہ اس عرضداشت گذار نے الیکشن ریفارمس ایکٹ (ERA) 2017 ء کی مخالف کی تھی اور اپنی حالیہ عرضداشت کے ذریعہ انھوں نے یہ شکایت کی ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیئے گئے کسی بھی قائد کو پارٹی کا دوبارہ صدر کیسے بنایا جاسکتا ہے جو ملک کے دستور کے مغائر ہے ۔ عرضداشت گزار نے ہائیکورٹ کی توجہ اُس جانب مبذول کروائی ۔ نواز شریف کو کسی ایرے غیرے نتھوخیرے نے نااہل قرار نہیں دیا ہے بلکہ ملک کی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا تھا جس کااحترام کرنا ہر شہری کا فرض ہے ، چاہے وہ ملک کا وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو ۔ لہذا نواز شریف کو پارٹی کا دوبارہ صدر بنانے کا کیا جواز ہے ۔ انھوں نے اس سلسلہ میں پالیٹکل پارٹیز آرڈیننس (PPO) 2002 ء کے آرٹیکل 5 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ نااہل قرار دیا گیا کوئی بھی شخص کسی بھی سیاسی پارٹی کی قیادت نہیں کرسکتا ۔ اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کا صدر ہوسکتا ہے لہذا نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ ( نواز ) کا صدر بنانا ملک کے دستور کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے ۔

یہی نہیں بلکہ ملک کے دستور سے قطع نظر ، ایسا کرنا قرآن و شریعت کی رو سے بھی ناجائز اور ناحق ہے ۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں ایک ایسے قانون کو وضع کیا جائے جو عوام کی ضرورتوں کے تقاضوں کی تکمیل کرتا ہو ناکہ کسی فرد واحد کیلئے۔ یاد رہے کہ قبل ازیں پارلیمنٹ نے نواز شریف کے پاکستان مسلم لیگ ( نواز) پارٹی کے صدر بننے کی راہ ہموار کرنے کے لئے الیکشن ریفارم ایکٹ (ERA) 2017 ء متعارف کروایا تھا۔ نواز شریف کو اُن کے بچوں اور ملک کے وزیرمالیات اسحق ڈار کے ساتھ پناما پیپرس اسکام کا ملزم قرار دیا گیا تھا کیونکہ کافی چھان بین اور تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ نواز شریف اُن کے دونوں بیٹے حسن اور حسین اور بیٹی مریم نواز ، داماد کیپٹن صفدر قصوروار ہیں۔ نواز شریف کی اہلیہ کلثوم اس وقت لندن میں کینسر کے علاج کیلئے عرصۂ دراز سے ایک ہاسپٹل میں ہیں جبکہ نواز شریف وقتاً فوقتاً لندن جاتے رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں انھوں نے عدالت میں حاضر ہونے سے گریز کیا تھا جبکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر بھی قومی احتسابی بیورو (NAB) کے روبرو پیش ہوچکے ہیں ۔ اب صرف حسن اور حسین ہی دو ایسے ملزمین ہیں جنھیں کئی سمن جاری کرنے کے باوجود بھی وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوئے جس پر انھیں اشتہاری مجرم قرار دیئے جانے کی نوبت بھی آگئی تھی ۔ پاکستان میں جمہوریت کا یہ المیہ ہے کہ جمہوری طورپر منتخب ہوکر برسراقتدار آنے والے قائد کو امن اور سکون کے ساتھ حکومت کرنے ہی نہیں دی جاتی ۔ اُس کی راہوں میں ایسے کانٹے بچھادیئے جاتے ہیں جن پر سے اُن کا گزرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ نواز شریف کے پاس ایک یہ بھی ریکارڈ ہے کہ انھوں نے وزیراعظم کے عہدہ کی پانچ سالہ میعاد کبھی مکمل نہیں کی جن میں ایک وہ زمانہ بھی تھا جب 1999 ء میں اُس وقت کے فوجی سربراہ پرویز مشرف نواز شریف کو معزول کرتے ہوئے خود مسند صدارت پر براجمان ہوگئے تھے ۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ ہائیکورٹ نواز شریف کو پارٹی کا صدر بنائے جانے کے خلاف داخل کردہ عرضداشت پر کیا فیصلہ سناتی ہے ۔