نماز کے مسائل

سوال : ہم نماز عشاء کی چار رکعات سنت، چار رکعات فرض ، دو سنت، دو نفل کے بعد تین رکعات و دو رکعات کو کس نیت سے پڑھیں ؟ کیا واجب الوتر کے بعد کوئی نفل نماز یا قضاء نماز پڑھی جاسکتی ہے ؟
(2 فجر کی دو رکعت فرض کے بعد فجر کی سنت یا نفل نماز ، اشراق کی نماز سے قبل پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟
(3 عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد مغرب کی نماز سے پہلے نفل نماز یا قضا نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں
(4 نماز استخارہ واجب الوتر سے پہلے ادا کریں یا بعد عشاء وقفہ دیکر پڑھیں۔
(5 واجب الوتر کو ایک واجب اور دوسری دو رکعات کو وتر کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟
محمد عبدالمنان، محبوب نگر
جواب : واجب الوتر کو واجب کی نیت سے اور اس کے بعد دو رکعتوں کو نفل کی نیت سے ادا کریں گے، واجب الوتر کے بعد کوئی نفل نماز یا کوئی قضاء نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
(2 اگر سنت فجر میں کوئی فساد ظاہر ہو یا فجر کی فرض سے پہلے سنت نہ پڑھی گئی ہو تو فرض کے بعد اس کا پڑھنا درست نہیں۔
فجر کے وقت (صبح صادق یعنی وہ سفیدی جو آسمان کے مشرقی کنارے پر سورج نکلنے تک پھیلی ہوئی ہے سے آفتاب کے طلوع ہونے تک) فجر کی سنت کے علاوہ کوئی نفل نہیں پڑھنا چاہئے ۔ آفتاب نکلتے وقت یہاں تک کہ آفتاب بقدر نیزہ بلند نہ ہو کوئی نفل نمازپڑھنا منع ہے ۔ سورج اچھی طرح روشن ہونے کے بعد نفل نماز ادا کرسکتے ہیں۔
(3 عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفل نماز نہ پڑھیں ۔ البتہ قضاء نماز اوقات ممنوعہ (طلوع آفتاب ، زوال آفتاب ، غروب آفتاب) کے علاوہ جب چاہے پڑھ سکتے ہیں۔
(4 نماز استخارہ سونے سے قبل پڑھنا چاہئے ۔ عشاء کے بعد روزانہ آپ واجب ال وتر ساتھ میں پڑھتے ہیں تو پہلے واجب الوتر ادا کرلیں۔ سونے سے قبل نماز استخارہ پڑھیں۔ نیز واجب الوتر کی تین رکعتوں کو واجب کی نیت سے ادا کریں۔

بی بی خدیجہ کے ساتھ تجارت کی نوعیت
سوال : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے قبل ایک امانتدار تاجر تھے، آپ نے بی بی خدیجۃ الکبریٰ کے ساتھ تجارتی معاملہ داری فرمائی ہے۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی خدیجہ کے ساتھ کس قسم کی تجارت کی تھی اس کی وضاحت کی جائے تو مناسب ہے۔
محمد ادریس قریشی،بالا پور
جواب : ایک کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت سے جو کاروبار کیا جاتاہے اس کو شریعت کی اصطلاح میں ’’مضاربت‘‘ کہتے ہیں۔اس نوعیت کی تجارت میں دونوں نفع اور نقصان میں برابر کے شریک ہوتے ہیںاور نفع کا فیصد باہمی رضامندی سے طئے کیا جاسکتا ہے ۔ دونوں نصف نصف نفع کے حقدار ہوسکتے ہیں یا کوئی زائد اور کوئی کم نفع کا حقدار ہوسکتا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم راست بازی ، صدق و دیانت پاکیزگی اور امانت میں مشہور تھے ، تجارتی لین دین میں سارے لوگ آپ کے حسن معاملہ کے مداح تھے ۔ آپ کی شہرت سن کر حضرت خدیجہ نے آپ کی خدمت میں اپنا سامان تجارت ملک شام لے جانے کا پیغام بھیجا۔ آپ نے قبول فرمایا۔ مروجہ نفع سے دوگنا نفع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و راست بازی کی وجہ طئے ہوا، آپ نے سامان تجارت ملک شام میں فروخت کیا اور وہاں کا سامان مکہ میں فروخت ہوا۔ اس طرح بہترین نفع ہوا اس قسم کے تجارتی معاملت کو شریعت میں ’’مضاربت ‘‘ کہتے ہیں۔

استخارہ
سوال : اکثر لوگ کوئی بڑا کام کرتے وقت یا شادی طئے کرتے وقت استخارہ کرتے ہیں تاکہ خواب میں کام کرنے یا نہ کرنے کا اشارہ ملے۔ اگر کام کرنا ہو تو کیا اشارہ ہوتا ہے اور کام کرنا نہ ہو تو اشارہ کس قسم کا ہوتا ہے ۔ فیصلہ کرنے کیلئے کس پہلو کو کس طرح اختیار کرنا چاہئے ۔ شرعی اعتبار سے اس کی وضاحت کیجئے مہربانی ہوگی ؟
محمد معین الدین صدیقی، فلک نما
جواب : کوئی اہم معاملہ در پیش ہو تو استخارہ کرنا مستحب ہے۔ استخارہ میں سفید اور ہرا رنگ نظر آئے تو کرنے کی علامت ہوتی ہے، سیاہ ، سرخ رنگ نہ کرنے کی علامت ہوتی ہے۔ استخارہ کے بعد خواب میں کوئی چیز نظرآنا ضروری بھی نہیں، استخارہ کے بعد اس کام کے کرنے پر دل آمادہ ہو تو کرے اور نہ ہو تو نہ کرے، بہتر یہ ہے کہ سات مرتبہ تک نماز استخارہ کی تکرار کرنے کے بعد کام شروع کیا جائے ۔ بسا اوقات خواب میں لطیف اشارے ملتے ہیں۔ کسی خدا ترس تقوی شعار ، تجربہ کار شخص کو بیان کرے تاکہ اشارہ کو سمجھنے میں مدد ملے ۔ بہر کیف دل کے میلان کو بطور خاص ملحوظ رکھنا چاہئے ۔

عہد نبوی کے دلچسپ واقعہ کی تصدیق
سوال : میں نے بہت پہلے کسی جلسہ میں سنا تھا کہ ایک شخص کسی دوسرے سے معاہدہ کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ شہید کرنے کا ارادہ کیا اور دوسرا شخص اس کو اس کام کے بدل اس کے قرض کی ادائیگی اور بال بچوں کی پرورش کا ذمہ لے لیا ، پھر وہ سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حملے کے ارادہ سے آیا ۔ آپ نے اس کو اسلام لانے کی تر غیب دی اور اس کو اس معاہدہ کے بارے میں بیان کردیا جو اس کے اور اس کے دوست کے درمیان ہوا تھا تو وہ مسلمان ہوگیا۔ کیا اس قسم کا کوئی واقعہ ہے ، اگر ہے تو اس کی تفصیل سے مطلع فرمائیں ۔
محمد قاصم، شاہین نگر
جواب : غز وۂ بدر میں شکست کے بعد عمر بن وھب اور صفوان بن عیینہ دونوں ایک غار میں بیٹھے گفتگو کر رہے تھے ۔ صفوان نے کہا : اللہ تعالیٰ نے بدر کے مقتولوں کے بعد ہماری زندگیوں کو مبرا بنادیا ہے ۔ عمر نے کہا : درست ہے۔ بخدا ان کے بعد جینے میں کوئی مزہ نہیں رہا ، اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا جس کی ادائیگی کا میرے پاس کوئی بندوبست نہیں ہے اور میرے بال بچے نہ ہوتے جن کیلئے میرے پاس کوئی سامان نہیں ہے تو میں ضرور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا اور نعوذ باللہ ان کو قتل کردیتا ۔ یہ سن کر صفوان خوش ہوا اور کہا کہ تیرے قرض اور تیرے بال بچوں کی ذمہ داری مجھ پر ہے ۔ انہیں میرے گھر والوں کے برابر خرچ ملے گا۔ صفوان نے عمر کو اس ناپاک ارادہ پر بہت ابھارا اس کی تلوار کو صیقل کرایا اور زہر میں بھجوایا۔ دونوں نے اس معاہدہ کو راز رکھنے کا عہد کیا اور عمر مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ مسجد نبوی کو پہنچ کر اپنی سواری کو باندھا اور تلوار لیکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا اس وقت اس کو حضرت عمر نے دیکھ لیا اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ ! اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہ کریں۔ آپ نے فرمایا : اسے میرے پاس لاؤ۔ حضرت عمر باہر آئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بٹھاؤ اور اچھی طرح نگرانی کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر سے مدینہ آنے کا مقصد پوچھا ۔ اس نے کہا میں اپنے عزیز قیدی کی رہائی کیلئے ایا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تو نے پھر صفوان کے ساتھ غار میں کیا معاہدہ طئے کیا تھا ۔عمر گھبرا گیا پھر جان بوجھ کر پوچھنے لگا کیا شرط رکھی تھی ؟ آپ نے فرمایا تو نے اس شرط پر حامی بھری تھی اور تو میرا قتل کرے گا اور وہ تیری اولاد کی ذمہ داری اٹھائے گا اور تیرا قرض ادا کرلے گا۔ اس پر عمر نے کہا : ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہ بات میرے اور صفوان کے درمیان ایک غار میں ہوئی تھی جسے آپ نے بتادیا ۔ اس بات کی اطلاع اللہ تعالیٰ ہی نے آپ کو دی۔ سو اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اس بات کو میرے یہاں پہنچنے کا ذریعہ بنادیا۔ اس پر تمام صحابہ بیحد خوش ہوئے۔ (الاصابۃ جلد 3 ص : 36 )
دوران نماز ادھر ادھر دیکھنا
سوال : نماز کے دوران اگر کوئی اپنی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھے تو کیا حکم ہے ؟ ایک صاحب کو میں دیکھتا ہوں کہ وہ امام کی اقتداء کرتے ہوئے سامنے سے آنے جانے والوں پر نظر رکھتے ہیں بلا ضرورت دیکھنے سے نماز باقی رہتی ہے یا ٹوٹ جاتی ہے ؟
آغا داؤد حسینی، نامپلی
جواب : نماز میں خشوع و خضوع مطلوب و مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا قد افلح المؤمنون الذین ھم فی صلاتھم خشعون۔ (سورۃ المومنون) یعنی تحقیق کہ مومنین کامیاب ہیں، وہ لوگ ہیں جو نماز میں خشوع و خصوع برقرار رکھتے ہیں۔
دوران نماز بحالت قیام مصلی کی نظر سجدہ کے مقام پر ہونا چاہئے اور رکوع میں قدم کے ظاہری حصہ پر اور سجدہ میں اپنی ناک کے کناروںپر اور تشھد میں اپنی گود پر سلام کے وقت اپنے کندھوں پر ہونی چاہئے ۔ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نورالایضاح صفحہ 276 تا صفحہ 277 میں فضل من آدابھا کے تحت ہے۔ (و) منھا (نظرالمصلی) سواء کان رجلا او امرأۃ (الی موضع مسجودہ قائما) حفظا لہ عن النظر الی ما یشغلہ عن الخشوع (و) نظرہ (الی ظاہراالقدم راکعا والی ارتبۃ انفہ ساجدا والی حجرہ جالسا) ملا حضا قولہ صلی اللہ علیہ وسلم : اعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک فلا یشتغل بسواہ (و) منھا نظرہ (الی المنکبین مسلما)
پس صورت مسئول عنہا میں نمازی کو چاہئے کہ وہ نماز کے دوران قیام رکوع ، سجدہ اور تشھد وعیرہ میں مندرجہ بالا صراحت کے مطابق اپنی نگاہ کو جمائے رکھے۔ نماز کے دوران ادھر ادھر دیکھنا خلاف ادب اور خشوع و خصوغ کے خلاف ہے ۔ اس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔

سفر سے واپسی اور اسی دن سفر کے ارادہ پر نماز کا حکم
سوال : میں پارٹنرشپ میں کاروبار کرتاہوں، چار قسم کے میرے کاروبار ہیں، ہر کاروبار میرا ایک بھائی سنبھالتا ہے اور سب کی خریدی میں تنہا کرتا ہوں۔ آئندہ مہینے مجھے رمضان کی خریدی کیلئے بارہ دن کے سفر پر جاناہے ۔ بارہ دن کے سفر کے دوران ایک دن میں صبح گیارہ بجے اپنے وطن حیدرآباد پہونچوں گا اور اسی دن چار بجے کی فلائٹ سے دہلی چلے جاؤں گا۔پورے سفر میں میں صرف ظہر کی نماز اپنے شہر میں ادا کروں گا ۔ آپ سے سوال یہ ہے کہ مجھے یہ ظہر کی نماز اپنے شہر میں چار رکعت اداکرناہوگا یا پھر سفر ہی کا اعتبار کرتے ہوئے دو رکعت اداکرناہے ؟
سید عبدالعظیم، عابڈس
جواب : مسافر اپنے شہر میں داخل ہوتے ہی وہ ’’مقیم‘‘ بن جاتا ہے، مسافر باقی نہیں رہتا اگرچہ وہ قضاء حاجت یا مختصر مدت کیلئے ہی داخل ہوا ہو۔ شہر اس کی اقامت اور سکونت کیلئے متعین ہے اسکو اقامت (شہر میں قیام) کی نیت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوات سے سفر کے بعد مدینہ کو لوٹتے تو مدینہ میں قیام کی نیت از سر نو نہیں فرماتے کیونکہ شہر قیام کیلیء متعین ہوتا ہے ۔ بدائع صنائع جلد اول ص :103 میں ہے : فالمسافر اذا دخل مصرہ صار مقیما سواء دخلھا للاقامۃ أوللاجتیاز أو لقضاء حاجۃ والخروج بعد ذلک لماروی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یخرج مسافرا الی الغزوات ثم یعود الی المدینۃ ولا یجدد نیۃ الاقامۃ ولأن مصرہ متعین للاقامۃ فلا حاجۃ الی التعین بالنیۃ۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں آپ بارہ دن کے سفر کے دوران کچھ وقفہ اپنے شہر میں قیام کریں اور کسی چار رکعت والی نماز کا وقت آجائے تو آپ چار رکعت ہی ادا کریں گے، قصر یعنی دو رکعت ادا کرنے سے فرضیت ساقط نہیں ہوگی ۔ لہذا جس دن آپ سفر سے واپس ہوکر بعد نماز ظہر دوبارہ سفر پر روانہ ہوں گے اس دن کی ظہر چار رکعت ہی ادا کریں گے۔