نماز کے بعد دعاء

سوال : فرض نمازوں کے بعد امام کی دعا جہراً (بلند آواز) سے ہو یا سراً ؟ کیونکہ شہر کی بعض مساجد میں امام صاحبان دعاء اس قدر آہستہ کرتے ہیں کہ مصلیوں کو کچھ بھی سنائی نہیں دیتا جبکہ قدیم سے ایسا عمل نہیں تھا۔ ظہر ، مغرب ، عشاء کے فرضوں کے بعد طویل دعاء کا کیا حکم ہے۔ نیز فجر ، عصر ، جمعہ وغیرہ میں ہمارے شہر کی مساجد میں فاتحہ پڑھی جاتی ہے، اس کو بھی بعض حضرات منع کرتے ہیں۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
محمد عمران، قاضی پورہ
جواب : اللہ سبحانہ کے ارشاد ادعونی استجب لکم ۔ فرمان رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۔ الدعا منح العبادہ سے دعاء کی اہمیت و فضیلت اور اس کا امر محمود و مستحسن ہونا ظاہر ہے ۔ انفرادی دعاء آہستہ اولی ہے جہراً جائز ہے ۔ اجتماعی دعاء جہراً مشروع ہے کہ امام دعاء جہر سے کرے اور مقتدی آہستہ آمین کہیں۔ حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتماعاً جو ادعیہ ثابت ہیں وہ جہر ہی سے ہیں تب ہی تو ادعیہ مبارکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ہم تک پہونچے ہیں جو بکثرت کتب احادیث میں مروی ہیں۔ اگر وہ جہراً (آہستہ) نہ ہوں جیسے موجودہ دور میں بعض حضرات کا استدلال ہے تو بغیر سنے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کس طرح روایت فرماتے، حضرت امام سرخسی رحمتہ اللہ حنفی مذہب کے جلیل القدر امام اور مسائل ظاہر الروایت کے شارح ہیں۔ مبسوط سرخسی کے مؤلف ہیں جو حضرت امام محمد رحمتہ اللہ کے کتب ستہ کی مختصر شرح ہے۔ اس شرح میں ہے کہ حضرت امام ابو یوسف رحمتہ اللہ نے بیرون نماز دعاء پرقیاس فرماکر یہ بیان فرمایا ہے۔ امام قنوت فجر کو جہراً پڑھے اور مقتدی آہستہ آمین کہیں (چونکہ قنوت فجر کی بعض خاص حالات میں عندالاحناف اجازت ہے) حضرت امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ کا قنوت فجر کو بیرون نماز دعاء پر قیاس فرمانا بیرون نماز بالجہر دعاء کی مشروعیت پر دلالت کرتا ہے۔ و عن ابی یوسف رحمتہ اللہ تعالی ان الامام یجھرہ والقوم یومنون علی القیاس علی الدعاء خارج الصلاۃ (مبسوط السرخی جلد یکم ص : 166 ) دعاء ہو کہ قرات قرآن یا ذکر و تسبیح وغیرہ میں چیخنا چلانا یقیناً منع ہے کہ جن کے بارے میں نصوص وارد ہیں۔ ان کو پیش کر کے جہر سے منع کرنا اور دعاء میں اخفاء (آہستہ آواز) کی ترغیب دینا غیر صحیح ہے ۔ جن فرائض کے بعد سنن ہیں جیسے کہ ظہر ، مغرب، عشاء امام کو طویل دعاء سے احتراز کرنا چاہئے کیونکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض و سنن کے درمیان ’’ اللھم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام کے بقدر ہی توقف ثابت ہے اس لئے عندالاحناف مذکورہ مقدار سے زائد توقف مکروہ اور سنت کے ثواب میں کمی کا باعث ہے ۔ جیسا کہ فتاوی عالمگیری جلد اول ص : 77 میں ہے ۔ و فی الحجۃ اذا فرغ من الظھر والمغرب والعشاء یشرع فی السنۃ ولا یشتغل بادعیۃ طویلۃ کذا فی التاتر خانیہ مبسوط الرخسی جلد اول ص : 28 میں ہے ۔
اذا سلم الامام ففی الفجر والعصر یعقد فی مکانہ یشغل بالدعاء لانہ لا تطوع بعد ھما … واما الظھر والمغرب والعشاء یکرہ لہ المکث قاعدا لانہ المندوب الی النفل والسنن الخ درالمختار ص : 391 میں ہے ۔ و یکرہ تاخیر السنۃ الا بقدر اللھم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذالجلال و الاکرام۔ اس کے حاشیہ رد المحتار میں ہے ۔ روی مسلم والترمذی عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یقعد الابمقدار مایقول اللھم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام۔
اب رہی یہ بات کہ فرض نمازوں کے بعد تسبیحات و بعض اذکار کی ترغیب جو احادیث میں وارد ہیں، ان کو علما ء احناف نے بعد الفرض سے انکا بعد سنن ہونا مراد لیا ہے کیونکہ سنن فرائض کے توابع اور اس کا تکملہ ہیں۔ جیسا کہ ردالمحتار جلد اول ص : 552 میں ہے۔
واما ماوردمن الاحادیث فی الاذکار عقیب الصلوٰۃ فلا دلالۃ فیہ علی الاتیان بھا قبل السنۃ بل یحمل علی الاتیان بھا بعد ھا لان ا لسنۃ من لواحق الفریضۃ و تو ابعھا و مکملا لھا فلا تکن اجنبیہ عنھا فھما یفعل بعد ھا اطلق علیہ انہ عقیب الفریضۃ۔ جمعہ کے فرض و فرض نمازوں کے بعد سورہ فاتحہ ، سورہ اخلاص ، سورہ فلق ، سورہ ناس ، آیت الکرسی ، سورہ بقرہ کی آخری آیات وغیرہ پڑھنے کی ترغیب بہت سی احادیث میں وار دہے۔ علامہ شامی عرف و عادات و آثار کی بناء فرض و سنن اور دعاء سے فراغت کے بعد سورہ فاتحہ پڑھنے کو مستحسن لکھا ہے ۔ فاتحہ سے ایصال ثواب مقصود ہے اور ایصال ثواب اور دعاء مغفرت ہر دو کتب احادیث سے ثابت ہیں اس لئے جن مساجد میں فجر ، عصر ، جمعہ کے سنن کے بعد دعاء کے اختتام پر ’’ الفاتحہ‘‘ کہا جاتا ہے اس میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں بلکہ باعث اجر و ثواب ہے کیونکہ بندہ جب اپنے نیک عمل کا ثواب مرحومین کے لئے ہدیہ کرتا ہے تو اس کا ثواب ان کو پہونچتا ہے اور خود ہدیہ کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ کنز العمال جلد چہارم ص : 164 میں ہے۔
من قرأ بعد الجمعۃ بفاتحۃ الکتاب و قل ھو اللہ احد و قل اعوذ برب الفلق و قل اعوذ برب الناس حفظ مابینہ و بین ا لجمعۃ الاخری در مختار ص : 418 میں ہے : قرأۃ الفاتحہ بعد الصلوۃ جھرالمھمات بدعۃ قال استاذ ناانھا مستحسنۃ للعادۃ والاثار اور رد المحتار میں ہے ۔ (قولہ قال استاذنا) ھو البدلیع استاذ صاحب المجتبیٰ و اختار الامام جلال الدین ان کانت الصلاۃ بعد ہاسنۃ یکرہ والافلا اھ عن الھندیۃ در مختار جلد اور ص : 943 ء میں ہے ۔ صرح علماء نا فی باب الحج عن الغیر بان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ او صوما او صدقۃ او غیرھا کذا فی الھدایۃ بل فی کتاب الزکاۃ فی التاتار خانیہ عن المحیط الافضل لمن یتصدق نفلا ان ینوی لجمیع المومنین و المومنات لانھا تصل الیھم ولا ینقص من اجرہ شئی اھ و ھو مذھب اھل السنت والجماعۃ۔

ایک قبر میں دو میتوںکی تدفین
سوال : عرض کرنا یہ ہے کہ میں ادارہ سیاست کی ہدایت پر نہ معلوم مسلم نعشوں کی تدفین کرتا ہوں۔ مختلف قبرستانوں میں تدفین کی گئی جن کی تعداد ہزار سے زائد ہوگئی اور اب جس قبرستان میں جگہ دی گئی ہے وہ بھی نا کافی ہورہی ہے۔ اگر ایک بڑی قبر کھودی جائے اور اس کے دو طرف دو نعشوں کو رکھ کر ہر نعش پر بغلی پتھر ڈھانپ دیا جائے تو کیا یہ عمل درست ہوگا ۔ اس سلسلہ میں علمائے کرام کیا فرماتے ہیں ؟
(2 عرض کرنا یہ ہے کہ ایک پرانی قبر میں دوبارہ کب تدفین کی جاسکتی ہے ؟
سید عبید، کاچی گوڑہ
جواب : بلا ضرورت ایک قبر میں ایک سے زائد میت کی تدفین نہیں کرنی چاہئے۔ ہاں اگر جگہ کی تنگی یا کسی ضرورت کی بناء ایک قبر میں ایک سے زائد میت کی تدفین ناگزیر ہو تو اس کی اجازت ہے ۔ قبلہ سے متصل مرد پھر بچہ پھر مخنث پھر عورت کی میت رکھی جائے اور ہر میت کے درمیان میں تفریق کے لئے چھوٹی دیوار بنائی جائے ۔ عالمگیری جلد اول ص : 166 میں ہے : ولا یدفن اثنان اوثلاثۃ فی قبرو احد الا عندالحاجۃ فیوضع الرجل ممایلی القبلۃ ثم خلفہ الغلام ثم خلفہ الخنثی ثم خلفہ المرأۃ و یجعل بین کل میتین حا جزمن التراب۔
لہذا بوقت ضرورت ایک کشادہ قبر میں ایک سے زائد میت کی تدفین بغلی پتھر کے ساتھ درست ہے۔
(2 قبر اگر اس قدر پرانی ہے کہ اس کے مردے کی ہڈیوں کا گل کر مٹی ہوجانے کا یقین ہے تو ایسی حالت میں اس قبر کو کھول کر نیا مردہ اس میں دفن کرسکتے ہیں۔ اگر کھولنے کے بعد اس میں ہڈیاں نکل آئیں تو چاہئے کہ ان کو ایک جگہ جمع کر کے نئے مردے اور ان ہڈیوں کے درمیان مٹی کی روک بنا دیجائے ۔
غریب بیوی کا نفقہ اور مالدار شوہر
سوال : ایک شخص کو تین بیویاں ہیں۔ تیسری بیوی غریب گھرانے کی ہے ۔ شوہر پہلی اور دوسری بیوی کو اچھے مکانات میں رکھا ہے اور ان کے بچوں کا اچھا خیال رکھتا ہے ۔ اچھے اسکولس میں تعلیم دلواتا ہے اور تیسری بیوی سے کوئی بچے نہیں، اس کو اپنے ماں باپ کے گھر میں رکھا ہے اور صرف ماہانہ 1500/- روپئے خرچ دیتا ہے جبکہ وہ ا پنے ایک بچے کی فیس پر اس سے زائد رقم خرچ کرتا ہے ۔ جب اس سے اس بارے میں پوچھا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اس کا باپ غریب ہے۔ یہ رقم بھی اس کے لئے بہت کافی ہے ۔ اس بارے میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
محمدزبیراحمد،فرسٹ لانسر
جواب : بیوی کا نان نفقہ شرعاً شوہر پر لازم ہے اور نفقہ کے تعین میں شوہر کی مالی حالت کا اعتبار کیا جائے گا بیوی کا نہیں۔ اس لئے شوہر مالدار ہے تو وہ حسب استطاعت اپنی تیسری بیوی کا نفقہ ادا کرے گا ۔ باپ غریب ہونے سے اس کے نفقہ میں کمی نہیں کرسکتا۔ بدائع الصنائع جلد دوم ص : 431 میں ہے : ذکر ا لکرخی ان قدر النفقۃ والکسوۃ یعتبر بحال الزوج فی یسارہ و اعسارہ لا بحالھا۔

نافرمان لڑکیوں کو عاق کرنا
سوال : میری عمر اس وقت 70سال کی ہوگئی ہے ‘ میری بیوی گذر کر 3 سال کا عرصہ ہوگیا ‘ میں اس وقت کافی پریشان ہوں میری دو بیٹیاں بچھڑ گئی ہیں ۔ میں اپنے چھوٹے لڑکے کے مکان میں ہوں میری بہو اور پوتری ہی خدمت کررہی ہے ۔ میری بڑی بیٹی 40سال کی ہے ‘ دوسری 36سال کی ہے کوئی بھی میرے کو پوچھ نہیں رہی ہے ۔ میں آپ کے سوالات ہمیشہ پڑھتا ہوں اس میں آج تک لڑکیوں کو عاق کرنے کا نہیں لکھا گیا ۔ کیا اسلام میں لڑکیوں کو بھی عاق کرنے کی گنجائش ہے ۔ ویسے بھی وہ میرے تمام پیسے لوٹ لئے ہیں ‘ اب میں صرف وظیفہ پر زندگی گذار رہا ہوں اور خوش ہوں ۔ آپ میرے پہلے سوال میں صرف صبر کرنے کی تلقین کئے تھے ‘ وہی بات پر عمل کررہا ہوں ۔ میں اس وقت چلنے سے بھی مجبور ہوگیا ہوں ۔
نام…
جواب : ’’عاق‘‘ نافرمان کو کہتے ہیں‘ عقوق والدین یعنی والدین کی نافرمانی گناہ کبیرہ ہے اور ماں باپ کی خدمت بلالحاظ لڑکا و لڑکی تمام اولاد پر لازم ہے ۔ اگر لڑکیاں والد کا خیال نہیں رکھ رہی ہیں ‘ کوتاہی کررہی ہیں تو یہ گناہ کا باعث ہے ۔ اس بناء پر اگر کوئی اپنی لڑکیوں کو عاق کردے اور اعلان کردے کہ ان کو اس کی جائیداد سے بعد انتقال کچھ بھی نہیں ملے گا ‘ تب بھی بعد انتقال وہ لڑکیاں اس کی وارث ہوں گی کیونکہ نافرمانی مانع وراثت نہیں ۔ اگر زندگی میں اپنی جائیداد دوسروں کو دیدے اور انتقال کے وقت کچھ بھی اس کی ملکیت میں نہ رہے تو کوئی وارث نہیں ہوگا لیکن نقصان پہنچانے کی نیت سے اس طرح کا عمل شرعاً گناہ ہے ۔

غیر مسلم لڑکی سے گفتگو کرنا
سوال : میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں ، وہاں مسلم اور غیر مسلم لڑکیاںبھی کام کرتی ہیں۔ کیا میں غیر مسلم لڑکی سے گفتگو کرسکتا ہوں، کیا اس سے محبت کااظہار کرنا ، اس کے ساتھ گھومنا درست ہے یا نہیں ؟
نام مخفی
جواب : کسی مسلمان کا اجنبی لڑکی سے بلا ضرورت گفتگو کرنا ، ملنا ، گھومنا جائز نہیں۔ خواہ لڑکی مسلمان ہو یا غیر مسلم ۔ ردالمحتار جلد 5 کتاب الخطر والدباحتہ ص : 260 میں ہے : الخلوۃ بالاجنبیۃ حرام … ولایکلم الاجنبیۃ الا عجوزا ۔ لہذا آپ کسی اجنبی لڑکی سے بلا ضرورت گفتگو نہ کریں اوراپنے تعلق کو نہ بڑھائیں کیونکہ یہ عمل فتنہ ہے ۔ اور شرعاً ممنوع ہے ۔