نماز میں دعاء کرنا

سوال : ہماری مسجد کے امام صاحب دوران تقریر فرمارہے تھے کہ بحالت نماز دعاء کرنے سے نماز فوت ہوجاتی ہے لیکن میں نے کسی سے یہ سن رکھا تھا کہ نماز میں بندہ اللہ کے بہت قریب ہوتا ہے تو دعائیں ہم اللہ کے قرب کے وقت میں کیوں نہیں مانگ سکتے۔ برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔
عبدالرشید، قاضی پورہ
جواب : حالت نماز میں دعاء کے آداب ہیں۔ ان آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے نفل نمازوں میں دعائیں کی جاسکتی ہیں۔ فرض نماز میں قعدۂ آخیرہ میں بعد تشھد و درود وادعیہ ماثورہ میں سے کسی دعاء کو پڑھا جاسکتا ہے ۔ البتہ نفل نمازوں میں بحالت رکوع ، بحالت سجدہ ان دعاؤں کو پڑھ سکتے ہیں جو قرآن مجید سے منقولہ نہ ہوں (قرآن کی دعائیں سجدہ میں مشروع نہیں ہے) اور دعاؤں میں یہ ادب بھی ملحوظ رکھیں کہ نماز میںان چیزوں کو نہ مانگے جو عادتاً محال ہے جیسے اللہ کا اس دنیا میں دیدار ، ہمیشہ کی زندگی و غیرہ اور ایسی چیزیںبھی نہ مانگے جو عموماً لوگوں سے مانگی جاتی ہے کیونکہ اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے ۔ البتہ گناہوں سے مغفرت، جنت کا دخول، آگ سے آزادی وغیرہ خود اپنے لئے بھی مانگ سکتے ہیں اور اپنے علاوہ والدین چچا وغیرہ کیلئے بھی مانگ سکتے ہیں اور بحالت نماز جو دعائیں مانگی جائیں وہ بزبان عربی ہوں۔ صورت مسئول عنہا میں امام صاحب کا کہنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ دعائیں جو کلام الناس سے ہیں اور دنیا مانگی جارہی ہو اور ایسی چیز کا سوال ہو جو عموماً لوگوں سے مانگی جاتی ہے۔

میت کو دوبارہ غسل کی ضرورت نہیں
سوال : میت کو غسل دے کر کتنی دیر گھر میں رکھا جاسکتا ہے جبکہ اس کے لواحقین جلدی نہ آسکتے ہوں۔ اگر میت کو غسل دیکر ایک رات گھر میں رکھا جائے تو کیا دوسرے دن نماز جنازہ سے پہلے اسکو دوبارہ غسل دینا لازمی ہوتا ہے ۔ کیا شوہر اپنی بیوی کو کندھا دے سکتا ہے اور اس کو لحد میں اتار سکتا ہے جبکہ کچھ لوگوں کا خیال اس کے برعکس ہے۔
فاطمہ بتول، خلوت
جواب : (1) میت کو جلد سے جلد دفن کرنے کا حکم ہے لواحقین کے انتظار میں رات بھر انکائے رکھنا بہت بری بات ہے۔
(2) ایک بار غسل دینے کے بعد غسل دینے کی ضرورت نہیں۔
(3) شوہر کا بیوی کے جنازے کو کندھا دینا جائز ہے۔
(4) اگر عورت کے محرم موجود ہوں تو لحد میں ان کو اتارناچاہئے اور اگر محرم موجود نہ ہوں یا کافی نہ ہوں تولحدمیں اتارنے میں شوہر کے شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں۔

مغرب کی نماز کے بعد دو رکعت تحیۃ مسجد
سوال : مغرب کی اذان کے بعد فوری فرض نماز ادا کرتے ہیں لیکن بعض لوگ اذان کے بعد پہلے دو رکعت پڑھ رہے ہیں، اس کے بعد فرض تین رکعت ادا کر رہے ہیں ۔ شرعی طور پر صحیح طریقہ کیا ہے؟ بیان کیجئے تاکہ اس کے مطابق عمل کیا جاسکے۔
محمد فردوس، مقطعہ مدار
جواب : فقہاء کے پاس مسجد میں داخل ہوتے ہی دو رکعت نفل نماز پڑھنا مستحب ہے، اس پر علماء کا اتفاق ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ اذا دخل احد کم المسجد فلا یجلس حتی یصلی رکعتیں (متفق علیہ) ترجمہ : جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو وہ نہ بیٹھے ، یہاں تک کہ دو رکعت نماز ادا کرلے۔ مغرب کی نماز میں بلا اختلاف عجلت کرنا مستحب ہے اس لئے حنفیہ اور مالکیہ کے پاس مغرب کی اذان کے بعد دو رکعت تحتیہ المسجد پڑھنے کو ترجیح نہیں دی گئی، اذان کے بعد بلا تاخیر فرض نماز پڑھنا چاہئے۔

دو احادیث کی تحقیق
سوال : میں کسی دعاؤں کی کتاب میں دو دعائیں دیکھی تھی ۔ براہ کرم ان کی مکمل تفصیل بیان کریں تو مہربانی ہوگی۔
– 1 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد ایک بدو قبر اطہر پر حاضر ہوکر یہ دعا مانگی تھی۔
اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم … آخر تک ۔ کیا یہ صحیح ہے ۔ یا یہ دعاء کب کرنی چاہئے۔
– 2 جنگل میں شیاطین گھیرلیں تو ’’یا عباداللہ الصلحین اعینونی‘‘ پڑھنا چاہئے۔
– 3 امت میں کیا کافر بھی شامل ہیں ؟
وراثت علی، نامپلی
جواب : ایک نابینا صحابی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: آپ میری عافیت (بینائی) کیلئے دعاء فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر تم چاہو تو میں دعاء کروں گا اور اگر تم چاہو تو صبر کرو اور صبر کرنا تمہارے لئے بہتر ہے ۔ انہوں نے عرض کیا ، آپ دعاء فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم فرمایا کہ وہ اچھی طرح وضو کریں اور دو رکعت نماز پڑھیں اور یہ دعاء پڑھیں۔
اللھم انی اسئلک و أتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قد توجھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لیقضی اللھم شفعہ فی۔
ترجمہ : اے پروردگار ! یقیناً میں تجھ سے بھیک مانگتا ہوں اور تیری بارگاہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں جو کہ رحمت والے نبی ہیں، اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) میں آپ کے توسط سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی اس حاجت کیلئے متوجہ ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہو ، اے پروردگار! میرے حق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کو قبول فرما۔ (بخاری)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق وہ نابینا صحابی نے یہ دعاء پرھی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل و کرم سے بینائی سے سرفراز فرمایا۔ پس جو بھی جس مقصد و حاجت کیلئے صدق دل سے خشوع و خضوع کے ساتھ مذکورہ دعاء کرے گا اللہ تعالیٰ ان کی حاجت کو ضرور پورا فرمائے گا۔
– 2 حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اذا ضلی احدکم او اراد عونا و ھو بارض لیس بھا انیس فلیقل ’’ یا عباداللہ اعینونی فان للہ عبادا لانراھم۔
ترجمہ : جب تم میں سے کوئی راستہ بھٹک جائے یا مدد چاہے اور وہ ایسے مقام پر ہو جہاں کوئی مونس ساتھ نہیں ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ یہ کہے ’’یا عباد اللہ اعینونی‘‘ (اے اللہ کے بندو میری مدد کرو) کیونکہ اللہ تعالیٰ کے چند ایسے بندے ہیں جو نظر نہیں آتے (طبرانی نے معجم کبیر میں اس کی رویت کی ہے)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان للہ ملائکۃ (فی الارض) سوی الحفظۃ یکتبون ما یسقط من ورق الشجر فاذا اصحاب احدکم عرجۃ بارض فلاۃ فلیناد : اعینونی یا عباداللہ۔
ترجمہ : یقیناً اللہ تعالیٰ کے (زمین میں) حفظہ(انسان پر مقرر فرشتوں( کے علاوہ چنداور فرشتے ہیں جو درخت سے گرنے والے پتوںکو لکھتے ہیں پس تم میں سے کسی جنگل میں مشکل پہنچ جائے تو وہ ندا دے اعینونی یا عباداللہ (میری مدد کرو اے اللہ کے بندو)
(طبرانی نے اس کی روایت کی ہے اور اس کے رجال ثقات (قابل بھروسہ ہیں )
امام احمد بن حنبل نے ’’المسائل‘‘ ص : 245 میں اپنے والد سے روایت کیا ۔ انہوں نے کہا : قد ضللت الطریق فی حجۃ و کنت ماشیا فجعلت اقول : یا عباداللہ دلونا علی الطریق، فلم ازل اقول ذلک حتی وقعت علی الطریق) ترجمہ : میں حج کو پیدل جارہا تھا اور راستہ بھٹک گیا تو میں نے یہ کہنا شروع کیا ’’یا عباداللہ دلونا علی الطریق‘‘ اے اللہ کے بندو ! ہماری راستہ پر رہنمائی کرو۔ پس میں مسلسل یہ کہتا رہا یہاں تک کہ صحیح راستہ پر پہنچ گیا۔
حضرت عبداللہ بن مبارک بھی اپنے کسی سفر میں راستہ بھٹک گئے،ان کو یہ حدیث پہنچی تھی کہ جب کوئی کسی جنگل میں مجبور ہوجائے اور ’’یا عباداللہ اعینونی‘‘ پکارے یعنی اے اللہ کے بندو میری مدد کرو تو اس کی مدد کی جاتی ہے تو پس حضرت عبداللہ بن مبارک کی بھی مدد کی گئی۔ روی الھروی فی ’’ذم الکلام‘‘ (4/68/1) ان عبداللہ بن مبارک ضل فی بعض اسفارہ فی طریق و کان قد بلغہ : ان من اضطر فی مفازۃ فنادی : عباداللہ ! اعینونی اعین۔
پس مذکورہ روایات سے واضح ہے کہ جب کوئی شخص جنگل میں کسی بھی مشکل اور مصیبت میں ہو اس وقت وہ مذکور الصدر نداء دے تو اللہ کے بندے اس کی غیبی مدد کرتے ہیں۔ علماء نے امت کو دو قسموں پر منقسم کیا ہے (1) امت دعوت (2) امت اجابت۔
امت دعوت سے وہ مراد ہیں جن کو دین اسلام کی دعوت دی گئی اور امت اجابت سے وہ مراد ہیں جنہوں نے اس دعوت کو سننے کے بعد قبول کیا توپہلی قسم کی امت میں کفار و مشرکین یہود و نصاری سب شامل ہیں اور دوسری قسم کی امت کا اطلاق صرف اہل اسلام پر ہوگا جنہوں نے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام حق کو قبول کیا۔

اشراق کی نماز گھر میں پڑھنا
سوال : طلوع آفتاب کے بعد جو نماز ہوتی ہے اسے غالباً اشراق کی نفل نماز کہتے ہیں۔ یہ کتنی رعکتیں ہیں اور طلوع آفتاب کے بعد کب پڑھی جائے گی۔ ہماری مسجد کے مؤذن صاحب نماز فجر ختم ہوتے ہی ٹیوشن پڑھنے کیلئے چلے جاتے ہیں اس لئے وہ مسجد بند کردیتے ہیں۔ ایسے میں اگر یہ نفل نماز گھر میں آکر پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر مسجد میں موقع ملے تو کیا فرض کی جگہ سے ہٹ کر دوسرے مقام پر بیٹھ کر بعد میں نماز پڑسکتے ہیں یا کیا حکم ہے؟
نام…
جواب : نماز اشراق مستحب ہے، اس کا وقت سورج کا ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد یعنی تقریباً طلوع آفتاب کے 15 تا 20 منٹ بعد ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بہت ترغیب دی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من صلی الغداۃ فی جماعۃ ثم قعد یذکراللہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتیں کانت لہ کاجر حجۃ و عمرۃ تامۃ تامۃ تامۃ ۔
ترجمہ : جو شخص فجر کی نماز باجماعت ادا کرے پھر اللہ تعالیٰ کا ذ کر کرتے ہوئے بیٹھے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے پھر وہ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کیلئے ایک کامل حج اور ایک کامل عمرہ کا ثواب ہوگا۔ (ترمذی براویت حضرت انس بن مالکؓ) نماز اشراق کی کم از کم دو رکعتیں ہیں، وہ مزید پڑھنا چاہے تو اسکو اختیار ہے۔
اب رہا دریافت طلب مسئلہ میں اگر مؤذن صاحب بعد نماز فجر مسجد کو مقفل کردیںتو آپ بلا تاخیر اپنے گھر تشریف لاکر ذکر میں بیٹھ جائیں اور اللہ کا ذکر کرتے رہیں پھر سورج کے اچھی طرح روشن ہونے کے بعد دو رکعت نماز پڑھیں۔ انشاء اللہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر عطا کرے گاکیونکہ یہاں عذر ہے اور وہ معقول ہے۔

مسجد میں جوتے پہن کر داخل ہونا
سوال : ایک صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ مسجد میں جوتے پہن کر داخل ہوسکتے ہیں۔ بشرطیکہ جوتوں میں کوئی غلاظت لگی ہوئی نہ ہو اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’نعال‘‘ ہی میں نماز ادا فرماتے تھے۔
خواجہ علاؤ الدین، عابڈس
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعلین کے ساتھ نماز ادا فرمائی ہے اور اس طرح کا عمل صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے۔ فقہاء کرام نے صراحت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مسجد نبوی کا فرش مٹی کا تھا اور آج کل مٹی کا فرش نہیں ہوتا ہے اس لئے مسجد میں جوتے چپل پہن کر داخل ہونا خلاف ادب ہے ۔ رد المحتار جلد اول کتاب اصلاۃ میں 708 میں ہے ۔ و لعل ذلک محمل مافی عمدہ المفتی من ان دخول المسجد متنعلا من سوء الادب‘‘ تأمل۔