نماز فجر گھر میں ادا کرنا

سوال : میں تجارت پیشہ ہوں رات میں دکان بند کر کے دس بجے گھر آتا ہوں اور سونے کے لئے مجھے عموماً دیر ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے میں فجر کی نماز گھر میں ادا کرتا ہوں تو کیا یہ جائز ہے ؟
فاروق علی، کالا پتھر
جواب : اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’ و ارکعوا مع الراکعین ‘‘ یعنی (رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) کے تحت بالغ مرد پر واجب ہے کہ وہ پانچ نمازیں حتی المقدور مسجد میں یا جماعت ادا کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ منافقوں کے لئے سب سے بوجھل نماز عشاء اور فجر کی ہے اور اگر انہیں علم ہوتا کہ ان میں کس قدر اجر و ثواب ہے تو وہ ان کے لئے گھٹنوں کے بل چل کر آتے‘‘ (بخاری شریف)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جو شخص اذان سے اور پھر مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے نہ آئے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی (ابن ماجہ) فقہاء نے اس حدیث کو تاکید جماعت پر محمول کیا ہے ۔ پس غیر عذر والے اصحاب کو مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنا ہوگا اور بغیر عذر کے جماعت ترک کرنا درست نہیں۔

یتیموں کی کفالت
سوال : ہندہ کے ایک بھائی عمر الدین فوت ہوچکے ہیں۔ ان کی ایک لڑکی فاطمہ تقریباً تیرہ سالہ کو اور ایک لڑکے زید تقریباً گیارہ سالہ کو اپنی پرورش میں رکھی اور ان کی تعلیم و تربیت اور ان کے تمام اخراجات و ضروریات کی کفالت کی ۔ ماشاء اللہ اب ان کی عمریں علی الترتیب تریباً 22 ، 20 سال ہے۔ ہندہ کے شوہر اور ہندہ نے ان دونوں کی ولدیت میں از ابتداء تا انتہا ان کے حقیقی والد کا نام ہی لکھوایا۔ ان کے والد کی وفات ہوجانے کے سبب صدر بالا فریضہ ادا کرتے رہے ہیںاور وہ دونوں بھی ہندہ کے زیر پرورش ہیں۔ شرعاً اس طرح مرحوم بھائی کے بچوں کی پرورش و کفالت اپنے پاس رکھ کر کرنا شرعاً غیر درست یا قانون اسلامی کی رو سے منع ہے ؟
نام مخفی
جواب : اسلام کمزوروں ، محتاجوں ، بیواؤں اور یتیموں کی مدد و دستگیری کی تلقین کرتا ہے ۔ قرآن پاک و احادیث مبارکہ میں اس کی بڑی ترغیبات وارد ہیں۔
یتیم بچوں کی کفالت اور ان کے تمام اخراجات کی تکمیل خورد و نوش و تعلیم و تربیت کی اہم ترین ذمہ داری کو پورا کرنا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بہت پسندیدہ و محمود ہے۔ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں کی کفالت پر بڑی خوشخبری ارشاد فرمائی ہے کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں اس طرح جنت میں (یعنی قریب) رہیں گے جیسے کہ شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی قریب ہوتے ہیں۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں انگلیوں سے درمیان میں کچھ کشادگی کے ساتھ اشارہ فرمایا ۔ انا و کافل الیتیم لہ و لغیرہ فی الجنۃ ھکذا و اشار بالسبابۃ والو سطیٰ و فرج بینھما شیئاً رواہ البخاری (مشکوۃ المصابیح ص : 422 باب الشفقہ والرحمۃ علی الخلق)
البتہ شریعت نے اس بات سے منع کیا ہے کہ کسی اور کی اولاد کو اپنی طرف منسوب کیا جائے اور اس کو اپنی اولاد ہونا ظاہر کیا جائے اور ولدیت کی جگہ اس کے حقیقی والد کے بجائے اپنا نام بتایا جائے۔ ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے : اُدعوھم لاٰباھم ھو اقسط عنداللہ … اے ایمان والو (اپنے منہ بولے لڑکوں کو ان کے (حقیقی) باپ کے نام سے پکارو اللہ سبحانہ کے پاس قرین انصاف یہی بات ہے۔
ہندہ نے اپنے کے ایک لڑکا و لڑ کی کی صغر سنی سے پرورش کر کے ان کی تعلیم و تربیت و دیگر ضروریات زندگی کی کفالت کی ہے اور ان کو اپنی طرف اور اپنے شوہر کی طرف منسوب نہیں کیا ہے بلکہ ان کے حقیقی والد مرحوم ہی کی طرف ان کو منسوب کیا ہے تو شرعاً یہ امر منع نہیں بلکہ قابل تحسین و لائق تقلید ہے۔

مسلم خواتین اورپردہ
سوال : دیکھا یہ جارہا ہے کہ مسلم خواتین اپنے ہاتھوں آپ آفت اور بلا میں پڑ رہی ہیں۔ خواتین کی اکثریت نے آپ اپنی ایک شریعت کی بنا ڈالی ہے ۔ ہمارا اشارہ ان پردے کی دعویدار خواتین کی جانب ہے جو ہمیشہ تبدیل ہوتے رہنے والے کرایہ دار مردوں سے پردہ نہیں کرتیں۔ محلے کے نوجوان بیٹوں کی دوستی کے نام پر بے دھڑک گھر میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ کھلے بندوں گھر کے باہر نکل کر مسلم / غیر مسلم سودے والوں سے چکا چکا کر پرکھ پرکھ کر دیر تک سودا خریدتی ہیں۔ اہل محلہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ کوئی پردہ نہیں۔ دور دراز جاتے وقت برقعہ اوڑھ لیتی ہیں ۔یہ کس قسم کا پردہ ہے اور کیا اسے شرعی پردہ قرار دیتے ہوئے ان خواتین کے غرور و فخر کو قبول کیا جاسکتا ہے ؟
نام ندارد
جواب : شریعت میں عورت پر ہر غیر محرم بالغ شخص سے پردہ کرنا لازم ہے ۔ سوال میں ذکر کردہ احوال معاشرہ میں مسلم خواتین کی جانب سے کی جانے والی کوتاہی کی طرف نشاندہی ہے ۔ ہر مسلم خاتون کو مندرجہ در سوال صورتوں میں بھی پردہ کو ملحوظ رکھنا لازم ہے ۔ اگر اس میں وہ کوتاہی کریں تو عنداللہ ماخوذ ہوں گے۔ مسلم خواتین کی کما حقہ پردہ سے بے اعتنائی سے بڑے بڑے مفاسد و خرابیاں مسلم معاشرہ میں جنم لے رہی ہیں۔ اس کے سدباب کے لئے جستجو کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔
بدگمانی بڑا گناہ ہے
سوال : آج کل مسلم معاشرہ میں پیار و محبت، اُلفت و شفقت کے بجائے نفرت، عداوت، بغض و مخالفت عام ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے بدگمانی کے شکار ہیں اور مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو بدگمان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔آپ سے گزارش ہے کہ آپ اسلامی نقطہ نظر اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل مبارک سے واضح فرمائیں تو عین نوازش و کرم ہوگا۔
کاشف علی ، سکندرآباد
جواب : اسلام نے مسلمانوں، اپنے دوستوں اور اپنے عزیزوں کے متعلق حسن ظن کا حکم دیا ہے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ دوسروں کے متعلق حسن ظن رکھتے تھے۔ اسی بناء پر آپ ﷺ کو کسی سے کوئی ایسی بات سننا گوارہ نہ تھی جس سے آپؐ کے دل میں اپنے کسی صحابی کے خلاف کوئی کدورت پیدا ہونے کا احتمال ہوتا (الترمذی ، 710:5 حدیث 3896) ۔ آپ ﷺ کا ہمیشہ اس آیہ کریمہ پر عمل رہا : ’’یایھا الذین امنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم‘‘ (49 (الحجرات{{{{) : 12) ’’یعنی اے اہل ایمان (دوسروں کے متعلق) بہت بدگمانی کرنے سے بچو کہ بعض گمان محض گناہ ہیں‘‘۔ آپ ﷺ کا ارشاد تھا : ’’حسن ظن اچھی عبادت ہے‘‘ (ابوداؤد ، 366:5، حدیث 4993) ۔ ایک مرتبہ ایک شخص حاضر ہوکر کہنے لگا : ’’یا رسول اللہ! میری بیوی کے ہاں سیاہ رنگ کا لڑکا پیدا ہوا ہے‘‘ (یعنی شک کا اظہار کیا) آپ ﷺ نے فرمایا : ’’کیا تیرے پاس ایک کوہان والے اونٹ ہیں‘‘؟ اس نے کہا ’’ہاں‘‘ فرمایا : ’’ان کا کیا رنگ ہے؟‘‘ کہا : ’’سرخ‘‘ فرمایا : ’’کیا ان میں مٹیالے رنگ کے بھی ہیں؟‘‘ کہا : ’’ہاں‘‘ فرمایا : ’’وہ کہاں سے آئے؟‘‘ اس نے کہا : ’’شاید کسی رگ نے اپنی طرف کھینچ لیا ہو‘‘ (یعنی کسی رشتہ دار کا رنگ لے لیا ہو) ، فرمایا : ’’اپنے ہاں بھی یہی سمجھ لو‘‘ (الترمذی ، 439:4 ، حدیث 2128) ، آپ ﷺ کا فرمان ہے : ’’تم خاص طور پر بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت ہی بُری بات ہے‘‘ (مسلم، البر، 4 : 1980) ۔ ’’بدگمانی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے سے خواہ مخواہ بدظنی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی لپیٹ میں آنے سے کوئی شخص بھی نہیں بچ سکتا۔ آپ ﷺ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اسی بناء پر خود بھی بدگمانی سے بچتے اور دوسروں کو بھی بدگمانی سے بچنے کی تلقین فرماتے۔
اس کے ساتھ ہی آپ ﷺ کا یہ فرمان تھا کہ ان موقعوں سے بھی بچو جن سے دوسروں کو بدگمانی کا موقع مل سکتا ہے۔ اسی بناء پر آپ ﷺ عورت کو تنہا سفر کرنے یا کسی اجنبی مرد کے ساتھ خلوت کرنے سے روکتے تھے۔ (البخاری ، 453:3، النکاح ، باب 111، 112)

دینی معاملات میں میانہ روی
سوال : شریعت مطھرہ میں عبادات کو کافی اہمیت ہے لیکن کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ہم کو ساری مصروفیات ترک کر کے صرف اور صرف عبادت الہی میں مشغول ہونا چاہئے۔ اگر ہم ساری زندگی عبادت الہی میں ‘ سر بسجود رہیں تب بھی ہم اس کی عبادت کا حق ادا نہں کرسکتے۔ شادی بیاہ ‘ کاروبار کیا یہ اعمال دنیوی ہیں۔ سب چیزوں کو چھوڑ کر کیا ہمیں عبادت الہی کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجانا چاہئے یا نہیں۔ اس سلسلہ میں شرعی احکام سے رہنمائی فرمائیں ۔
اسحاق خان، نیو ملک پیٹ
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چیز میں میانہ روی کی تعلیم دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین اور دینی مسائل کے بارے میں اتنے اہتمام کے باوجود آپؐ کو رہبانیت (ترک دنیا) کا اسلوب قطعی ناپسند تھا۔ اگر کسی صحابی نے اپنے طبعی میلان کی وجہ سے آپؐ سے اجازت مانگی بھی تو آپؐ نے سختی سے منع فرمادیا ۔ خود آپؐ کا جو طرز عمل تھا اسے آپؐ نے یوں بیان فرمایا : ’’ میں اللہ سے تم سب کی نسبت زیادہ ڈرنے والا ہوں ‘ مگر میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا‘ نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور اسی طرح عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ‘‘ پھر فرمایا : ’’ یہی میرا طریقہ (سنت) ہے۔ جس نے میرے طریقے کو چھوڑا وہ میری امت میں سے نہیں‘‘ (البخاری ‘ 411:3 ‘ کتاب النکاح ‘ باب 41 ‘ مطبوعہ لائیڈن) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ و بن العاص نے آپؐ سے ’’ مسلسل اور ہمیشہ روزے ‘‘ رکھنے کی اجازت مانگی تو فرمایا : ’’ زیادہ سے زیادہ تم صوم داؤد ‘ یعنی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھ سکتے ہو‘‘ پھر فرمایا : ’’ تیرے بدن کا بھی حق ہے‘ تیرے گھر والوں کا بھی تجھ پر حق ہے‘‘ (کتاب مذکور ‘ 1 : 443 ‘ کتاب الصوم ‘ باب 56 ‘ 57 ) ۔ ایک اور موقع پر حضرت ابو ہریرہ ؓ اور بعض دیگر صحابہؓ نے عدم استطاعت نکاح کی وجہ سے اپنے آپ کو جسمانی طور پر ازدوای زندگی کے ناقابل بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپؐ نے سختی سے منع فرمادیا ( کتاب مذکور ‘ 3 : 413 تا 414 ) ۔ ایک صحابیؓ نے دنیا کے تمام بندھنوں سے الگ ہوکر ایک غار میں معتکف ہوکر عبادت الٰہی کرنے کی اجازت طلب کی تو فرمایا : ’’ میں یہودیت یا عیسائیت کی طرح رہبانیت کی تعلیم نہیں لے کر آیا‘ بلکہ مجھے تو آسان اور سہل دین ‘ دین ابراہیم ملا ہے ‘‘ (احمد بن حنبل : مسند 266:5 )
کتب حدیث و سیرت میں مذکور اس طرح کے بے شمار واقعات سے اس بات کی بخوبی شہادت ملتی ہے کہ آپؐ کو عیسائیت کے راہبوں اور بدھ مت کے بھکشوؤں کی طرح دنیا اور اس کے رشتوں سے قطع تعلق کرنا ہرگز گوارا نہ تھا ۔ آپؐ اسے ایک طرح کا عملی زندگی سے فرار اور قنوطیت سمجھتے تھے اور آپؐ کے نزدیک زندگی کی طرف یہ منفی رویہ کسی عالمگیر اور پائیدار مذہب(اور اس کے بانی) کے شایان شان نہیں تھا۔ اس کے بالمقابل آپؐ کے رویے میں امید و رجا کا پہلو بہت نمایاں تھا ۔ آپؐ کا مسلک یہ رہا کہ دنیا میں رہکر دنیا کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اگر آپؐ کا کام رہبانیت یعنی خود کو برائی سے بچانے تک محدود ہوتا تو آپؐ کو اپنی عملی زندگی میں اتنی مشکلات اور مصائب و آلام کا ہرگز سامنا نہ کرنا پڑتا۔