نماز جنازہ میں تکبیرات کے بعد ہاتھ چھوڑنا

سوال : امام صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرنے تک ہاتھ باندھے رکھا ۔ بعض اصحاب نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ نماز نہیں ہوئی ۔ ایسی صورت میں شرعاً نماز جنازہ ہوئی یا نہیں ؟
مصطفی علی ، مراد نگر
جواب : نماز جنازہ میں دو فرض ہیں۔ (1) چار تکبیرات یعنی چار مرتبہ اللہ اکبر کہنا (2) قیام یعنی کھڑے ہوکر نماز پڑھنا، نماز جنازہ میں تین امور مسنون ہیں۔ پہلی تکبیر کے بعد حمد و ثناء پڑھنا، دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھنا، تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا کرنا۔ اس کے علاوہ جو امور ہیں وہ مستحبات و آداب سے تعلق رکھتے ہیں، فرائض کی تکمیل سے نماز ادا ہوجاتی ہے ۔ فقہاء کرام نے کن مواقع پر ہاتھ باندھے رہنا چاہئے اور کن مواقع پر ہاتھ چھوڑ دینا چاہئے، اس سلسلہ میں ایک قاعدہ بیان کیا ہے ، وہ یہ کہ ہر وہ قیام جس میں کوئی ذکر مسنون ہو ہاتھ باندھے رہیں اور جس قیام میں کوئی ذکر مسنون نہ ہو اس میں ہاتھ چھوڑدیں ، ذکر سے مراد ذکر طویل ہے ورنہ تحمید و تسمیع یعنی سمع اللہ لمن حمدہ ، ربنا لک الحمد بھی ذکر ہے ۔ اس کے باوجود قومہ میں ہاتھ باندھنا نہیں ہے۔
… و یضع یمینہ علی شمالہ تحت سرتہ کالقنوت و صلوٰۃ الجنازۃ و یرسل فی قومۃ الرکوع و بین تکبیرات العیدین فالحاصل ان کل قیام فیہ ذکر مسنون ففیہ الوضع و کل قیام لیس کذا ففیہ الارسال (شرح و قایہ جلد اول ص : 144) اس کے حاشیہ 7 میں ہے… فان قلت یخرج عنہ القومۃ لان فیھا ذکر امسنونا وھوالتحمید والتسمیع قلت المراد بالذکر الذکر الطویل …
مذکورہ در سوال صورت میں خاص طور پر امام صاحب کو اور ان کی اقتداء کرنے والوں کو نماز کے ارکان و شرائط مستحبات و آداب کی رعایت رکھتے ہوئے نماز ادا کرنا چاہئے ۔ مذکورہ صورت میں نماز ادا ہوگئی تاہم خلاف استحباب عمل ہوا ہے۔ مصلیوں کا اعتراض صحیح نہیں۔

نام مبارک کی تکرار پر، درود کا مکرر پڑھنا
سوال : یہ بات مشہور ہے کہ جب کبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک ذکر کیا جائے تو درود شریف پڑھنا چاہئے اور نہ پڑھنے والا بخیل ہے۔ لیکن آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ بسا اوقات ایک ہی شعر میں بار بار سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آتا ہے۔ ایک ہی محفل میں کئی مرتبہ آقا علیہ السلام کا نام آتا ہے کیا ہر دفعہ درود شریف پڑھنا ہوگا یا اس کے علحدہ احکامات ہیں ؟
محمد انواراللہ ، خلوت
جواب : امام طحاوی رحمتہ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کے سننے پر درود پڑھنے کو واجب قرار دیا ۔ دیگر فقہاء نے ایک مرتبہ درود پر اکتفاء کرنا جائز بتایا ہے اور قنیہ میں مذکور ہے کہ فتوی دوسرے قول پر ہے یعنی ایک مجلس میں متعدد مرتبہ نام مبارک سنے تو ایک مرتبہ درود پر اکتفاء کرنا مفتی بہ قول ہے۔ تاہم ابوالحسنات علامہ محمد عبدالحی لکہنوی نے نفع المفتی والسائل ص : 102 میں قنیہ میں مذکور مفتی بہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: المفتی بہ والا صح ھوالاول لورود احادیث کثیرۃ دالۃ علی ذلک ۔ یعنی مفتی بہ اور صحیح ترین قول یہی ہے کہ جب بھی نام مبارک سنا جائے درود پڑھا جائے۔ ایک مجلس میں متعدد مرتبہ پڑھا جائے تو درود بھی متعدد مرتبہ پڑھا جائے کیونکہ بہت سی احادیث شریفہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔

چھوٹی مسجد میں جمعہ کا اہتمام
سوال : ہمارے محلہ میں ایک چھوٹی مسجد ہے، جس میں نماز پنجگانہ باجماعت ادا کی جاتی ہے لیکن چند ماہ سے اس مسجد میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی بھی شروع ہوئی حالانکہ اطراف جامع مسجد میں کافی وسعت ہے۔ آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ چھوٹی مسجد جس کے اطراف و اکناف میں مختلف بڑی بڑی مساجد ہوں، جمعہ کا اہتمام کرنا چاہئے یا نہیں ؟
حافظ ولی اللہ امیر، خیریت آباد
جواب : نماز جمعہ جامع مسجد میں ادا کرنے کا حکم ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ایک مقام میں جمع ہوں تاکہ ان کے درمیان پیار و محبت کے تعلقات قوی و مستحکم ہوں اور ان میں نرمی و رحمت کے جذبات بیدار ہوں ، بغض و حسد کے محرکات ختم ہوں، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ جب بلا ضرورت متعدد مساجد میں جمعہ کا اہتمام ہوگا تو اس میں مسلمانوں کی اجتماعیت میں کمی واقع ہوگی۔ (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ جلد اول ص : 385 ) پس صورت مسئول عنھا میں مذکورہ چھوٹی مسجد میں جمعہ ادا کرنا مناسب نہیں جبکہ قریب میں جامع مسجد ہوں اور اس میں ابھی کشادہ جگہ باقی ہو۔
سادگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے
سوال: ہمارے دور میں ہر طرف پیار و محبت ، ہمدردی و غمخواری کا ماحول تھا، بے جا خرچ ، اسراف ، تکلف ، نام ونمود سے لوگ کوسوں میل دور تھے۔ شہرت و دکھاوا اظہار برتری کے جذبات نہ تھے۔ ماڈرن زمانے کے ساتھ حالات بھی تبدیل ہوگئے۔ سادگی ختم ہوچکی۔ ہر طرف حماقت ، برتری شان وشوکت کا اظہار ہے۔ یہ بناوٹی دکھاوے نے مسلمانوں کی معیشت اخلاق و کردار، ذہن و فکر کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ سادگی کو ہمارے نوجوان معیوب سمجھ رہے ہیں۔ میں کیا بتاؤں میرے لاکھ کہنے پرمیرے بچوں نے شادی کے موقع پر بے فضول خرچہ کیا۔ سوائے دکھاوا اور پیسوں کی خرابی کے کچھ نہیں۔ دعوتوں میں کھانے پینے میں بے تحاشہ اسراف ہورہا ہے۔ خواتین زیورات اور کپڑوں میں ہزار ہا روپئے خرچ کر رہی ہیں۔ تھوڑی سی حماقت کیلئے لوگ خطیر رقم خرچ کر رہے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ آپ اسلام میں سادگی کی کیا اہمیت ہے۔ بالخصوص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو ساری کائنات کیلئے بہترین نمونہ ہیں، آپ کی زندگی میں سادگی کی کیا حیثیت تھی واضح کیجئے ؟
محمد عبدالمتین، ریڈ ہلز
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملہ میں سادگی کو پسند فرماتے تھے۔ آپؐ کو کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے میں تکلف اور تصنع سخت ناپسند تھا۔ سادگی اور بے تکلفی ہمیشہ آپؐ کا معمول رہی۔ جو کچھ سامنے آجاتا ، کھالیتے، جو کچ فراہم ہوتا ، پہن لیتے ، البتہ طبیعت میں نظافت ضرور تھی، چنانچہ کسی ایسی چیز کو پسند نہ فرماتے جس میں ظاہری یا معنوی طور پر نفاست نہ پائی جاتی ہو۔ کچا پیاز، لہسن گو آپؐ نے حرام نہیں ٹھہرایا، مگر خود کبھی نہیں کھایا (الترمذی، 261:4 ، حدیث 1806 ، 1807 ) ۔ اپنے متبعین سے بھی آپٔ یہی توقع رکھتے تھے کہ ان کے رہن سہن میں سادگی اور بے تکلفی رہے۔ ایک مرتبہ آپؐ حضرت فاطمۃ الزہراء کے مکان پر تشریف لے گئے، مگر دروازے ہی سے پلٹ آئے۔ حضرت علیؓ نے سبب دریافت کیا تو فرمایا : کسی پیغمبر کے شایان شان نہیںکہ وہ کسی ایسے گھر میں داخل ہو جس میں زیب و زینت ہو (ابو داؤد ، 382:4 ، حدیث 4149 ) ۔ ہوا یہ تھا کہ آپؐ کی صاحبزادیؓ نے گھر کی سجاوٹ کے لئے رنگین پردے دروازے پر ڈال لیے تھے، ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓ کے حجرے میں چھت گیر لگی دیکھی تو فوراً چاک کردی اور فرمایا: ’’ کپڑا خود پہننے کے لئے ہوتاہے ۔ اینٹ کو پہنانے کیلیء نہیں ‘‘ (ابو داؤد ، 385:4 ، حدیث 4153 ) ۔ ایک مرتبہ کسی نے آپؐ کو کمخواب کی بنی ہوئی بہت خوبصورت قبا بھیجی ۔ آپؐ نے پہنی ، مگر پھر اتار کر حضرت عمر فاروقؓ کو بھیج دی کہ فروخت کر کے اپنے کام میں لائیں (البخاری : 236:1 ، کتاب الجمعہ ، باب 7 ، مسلم ، 1638:3 ، حدیث 2068 ) ۔ اسی طرح ایک موقع پر آپؐ کو کسی نے بہت خوبصورت چادر بھیجی ، جس کے حاشیے کاڑھے ہوئے تھے۔ آپؐ نے پہنی تو بہت بھلی معلوم ہوئی، مگر ایک شخص کے سوال کرنے پر اتار کر اسے مرحمت فرمادی (البخاری ، 123:4 ، الارب ، باب 39 ) گو عورتوں کے لئے زیور ممنوع نہیں ، مگر آپؐ اپنی ازواج کے لئے یہ تکلف بھی پسند نہ فرماتے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن دیکھے تو فرمایا: ’’ اگر تم ورس کے کنگنوں کو زعفران سے رنگ کر پہن لیتی ، تو بہتر ہوتا‘‘ (النسائی : السنن، مطبوعہ قاہرہ ، 159:8 )۔ ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ کو سونے کی زنجیر پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا : کیا تجھے یہ بات اچھی محسوس ہوگی کہ لوگ یہ کہیں کہ رسول اللہ کی بیٹی کے ہاتھ میں آگ کی زنجیر ہے ۔ پھر آپؐ بیٹھے بغیر لوٹ گئے ۔ اس پر حضرت فاطمہؓ نے اس زنجیر کو بیچ کر اس کی قیمت سے ایک غلام خرید کر آزاد کردیا، جس پر آپؐ بے حد خوش ہوئے (کتاب مذکور ، ص : 155 ) ۔ ایک بار حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ آپؐ جمعہ اور وفود وغیرہ کے اجتماعات کے لئے کوئی عمدہ لباس (حلۃ سیراء) خرید لیں۔ فرمایا : ’’ یہ تو وہ پہنے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو‘‘(ابو داؤد، 649:1 ، حدیث 1076 ) ۔ ا یک مرتبہ آپؐ باہر نکلے تو ایک قبہ بنتے ہوئے دیکھا ۔ دریافت فرمانے پر پتہ چلا کہ یہ فلاں شخص کا ہے ۔ آپؐ یہ سن کر خاموش ہوگئے ۔ اگلے دن جب وہ شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے اس سے اعراض فرمایا ۔ اس نے اپنے دوستوں سے اس کا ذکر کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ کل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمہارے زیر تعمیر قبے کو دیکھا تھا ۔ اس نے یہ سن کر اپنا قبہ گرادیا (ابو داؤد : السنن، 403:5 ) ۔
آپؐ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ اگر مجلس سے گھر جاکر واپس آنا ہوتا تو اپنی جوتیاں وہیں چھوڑ جاتے اور برہنہ پاؤں جاتے اور واپس آتے (ابو داؤد) ، 5 : 180 ، حدیث 4854 ) ۔ ایک مرتبہ لوگ آپؐ کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے تو آپؐ کو ناگوار ہوا اور فرمایا : ’’ تم عجمیوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھ کر کھڑے نہ ہوجایا کرو (ابن ماجہ : السنن ، حدیث 3839 ، ابو داؤد ، 398:5 ، حدیث 5230 ) ۔ گھر میں جو گدا تھا ، اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی (الترمذی ، 298:4 ، حدیث 1761 )۔متذکرہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراف اور فضول کو پسند نہیں فرمایا گو کہ وہ حلال و جائز ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح ہم کو ہر معاملہ میں سادگی اختیار کرنی چاہئے۔

قبرستان کی زمین پر ٹاور نصب کرنا
سوال : قدیم موقوفہ قبرستان کی اراضی پر Cell Phone Tower تنصیب کرنا ازروئے شرع درست ہے یا نہیں جبکہ اہلیان محلہ و بعض ذمہ داران مسجد کو قبرستان کے تنگ ہوجانے کا اندیشہ ہے ۔ کیا قبرستان کی زمین تنگ کرنے کے باوجود سیل فون ٹاور قائم کیا جاسکتا ہے ؟ کیا یہ منشاء وقف کے خلاف نہیں ہے ؟
محمد عبداللطیف، ملے پلی
جواب : قبرستان کی زمین کو تدفین اموات کے سوا کسی اور غرض کے لئے استعمال کرنا یا کرایہ پر دینا درست نہیں کیونکہ یہ امر منشاء واقف کے خلاف ہوگا ۔ نیز قبرستان کی زمین تنگ ہوگی ۔ لہذا صورت مسئول عنہا میں قبرستان کی زمین پر سیل فون ٹاور کی تنصیب درست نہیں۔ نیز الاسعاف فی احکام الاوقاف ص : 66 میں کی عبارت ہے : لواتخذ اھل قریۃ ارضا لھم مقبرۃ و قبر وافیھا ثم بنی فیھا و احد منھم بیتا لوضع اللبن وآلۃ الدفن و اجلس فیہ من یأخذالامتعۃ بغیر رضا أھل القریۃ او برضا بعضھم فقط لابأس بہ اِن کان فی المقبرۃ سعۃ بحیث لا یحتاج الی ذلک المکان ولو احتاجوا الیہ یرفع البناء یدفن فیہ سے مستفاد ہے۔