نماز جنازہ ، سنتوں کے بعد پڑھنا

سوال : میں شہر کی ایک مسجد میں نماز جنازہ میں شریک رہا، وہاں عشاء کے فوری بعد ، سنتوں سے قبل نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ بعد ازاں بعض نے سنتیں اور وتر ادا کی اور بعض جنازے کے ساتھ چلے گئے ۔ واضح رہے کہ اس وقت میت میں پھولنے پھٹنے یا کوئی تبدیلی کے آثار نہ تھے، پوچھنا یہ ہے کہ فرض نمازوں کے وقت جنازہ آجائے تو نماز جنازہ سنت و نوافل ادا کر کے پڑھائی جائے یا فرض کے ساتھ ہی نماز جنازہ ہو ؟
مومن خان، ٹولی چوکی
جواب : صورتِ مسؤل عنہا میں فرض نماز کی جماعت کے بعد سنت ادا کر کے نماز جنازہ پڑھی جائے اور یہی مفتی بہ قول ہے ۔ در مختار برحاشیہ ، ردالمحتار جلد اول ص : 611 میں ہے۔ الفتوی علی تاخیر الجنازہ عن السنۃ وأقرہ المصنف کأنہ الحاق لھا بالصلاۃ اور ردالمحتار میں ہے (قولہ الحاق لھا) أی للسنۃ بالصلاۃ أی صلاۃ الفرض اور ردالمحتار جلد اول باب صلاۃ الجنائز ص 658 میں ہے ۔ الفتوی علی تقدیم سنتھا علیھا ۔

اولین خطبۂ نبوی
سوال : میں ساتویں جماعت کا طالب علم ہوں، گزشتہ سال مجھے سیرت کے موضوع پر تقریر کرنا تھا ، الحمدللہ میں اس میں امتیازی درجہ سے کامیاب ہوا تھا ، اب گرما کی تعطیلات میں ہمارے اسکول میں ایک سیرت کے موضوع پر مقابلہ ہے ۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات پر تقریر کرنا ہے، مجھے خطبہ حجۃ الوداع تو مل گیا لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس میں حضور کا سب سے پہلا خطبہ بھی آخری خطبہ کے ساتھ بیان کروں لیکن مجھے پہلا خطبہ نہیں مل رہا ہے ۔ اگر آپ بیان کریں تو مہربانی ؟
سید حمزہ، خلوت
جواب : حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اولین خطبہ ، جو تاریخ میں محفوظ ہے اس میں آپؐ نے اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہوئے قریش مکہ اور عرب و عجم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : ان الرائد لا یکذب اھلہ لو کذبت الناس جمیعا ما کذبتکم ولو غررت الناس جمیعا ماغررتکم ۔ واللہ الذی لا الہ الا ھو انی رسول اللہ الیکم خاصۃ والی الناس کافۃ۔ واللہ لتموتن کماتنامون و لتبعثن کما تستیقظون و لتحسبن بما تعملون و لتجزون بالاحسان احسانا و بالسوء سوء وانما الجنۃ ابدا ’’ والنار ابدا ‘‘ یعنی کوئی بھی خبر لانے والا ا پنوں سے جھوٹ نہیں بولتا ! بخدا! اگر میں سب لوگوں سے بھی (بفرض محال) جھوٹ بولتا تو بھی تم سے کبھی جھوٹ نہ بولتا اور اگر میں سب دنیا والوں کو بھی (ولو بالفرض) دھوکہ دیتا تو تمہیں پھر بھی کبھی دھوکہ نہ دیتا ۔ قسم ہے اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ، جسے تمہاری طرف خصوصاً بھیجا گیا ہے اور باقی تمام انسانوں کی طرف بھی بھیجا گیا ہوں ، واللہ ! تم اسی طرح مرجاؤگے جس طرح تم سوتے ہو اور اسی طرح اٹھوگے جس طرح تم بیدار ہوتے ہو ! تمہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہی ہوگا ۔ پھر (یاد رکھو) بھلائی کا بدلہ بھلائی اور برائی کا بدلہ برائی ہوگا ، پھر یا تو ہمیشہ کے لئے جنت ہوگی یا جہنم (ابن الاثیر : الکامل ، ص 27 ، السیرۃ ا لنبیؐ، 246:2 ، الحلیہ ، 272:1 ، جمہرۃ خطب العرب ، 5:1 ) ۔

بعد تدفین دعاء کرنا
سوال : آج کل ایک فیشن بن گیا ہے کہ نماز جنازہ مسجد کے پیش امام صاحب کے بجائے کسی اور سے پڑھائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد کے پیش امام صاحب کی اجازت کے بغیر پڑھائی گئی نماز جنازہ ادا ہی نہیں ہوتی۔ تدفین کے بعد 40 قدم کی دوری پر جو دعا کی جاتی ہے ، اس کے شرعی احکام کیا ہیں ؟
حکیم الدین، مانصاحب ٹینک
جواب : جب مسجد کے مقررہ امام موجود ہوں تو وہی امامت کریں گے۔ ان کی موجودگی میں ان سے قابل اور متقی موجود ہو تب بھی امام ہی بوجہ تعین امامت کریں گے اور اگر امام صاحب ان کو امامت کیلئے کہیں تو وہ امامت کریں گے۔ امام کی بلا اجازت کسی عالم کو آگے بڑھادیا جائے تو نماز ہوجائے گی لیکن امام سے اجازت لے لینا چاہئے کیونکہ وہ مقررہ ہیں۔
بعد تدفین قبر کے پاس کھڑے ہونا اور قرآن کی تلاوت کرنا اور میت کے لئے دعاء مغفرت کرنا اور منکر و نکیر کے سوال میں اس کے ثابت قدم رہنے کی اللہ سے دعاء مانگنا مستحب ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے دفن کے بعد سورہ بقرہ کی پہلی آیتیں اور ختم آیتیں یعنی ’’ الم ‘‘ سے ’’ مفلحون‘‘ تک اور ’’ آمن الرسول‘‘ سے ختم سورہ تک پڑھنا مستحب فرمایا (تفصیل کے لئے در مختار باب الجنائز مطلب فی دفن المیت) عالمگیری جلد اول باب الجنائز فصل سادس میں ہے، و یستحب اذا دفن المیت ان یجلسو اساعۃ عندالقبر بعد ا لفراغ بقدر ما ینحر جزور ویقسم لحمھا یتلون القرآن و یدعون للمیت کذا فی الجوھرۃ النیرۃ ۔ لہذا بعد تدفین کچھ فاصلہ پر میت کی مغفرت اور ثبات قدمی کے لئے دعاء کی جائے تو شرعاً کوئی حرج نہیں ۔
انگریزی میڈیم اسکول کو زکوٰۃ کی رقم دینا
سوال : کیا ایسے اسکول کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے جس میں قرآن مجید کے حفظ کے ساتھ اول سے لیکر دسویں جماعت تک انگریزی میڈیم میں تعلیم ہو ؟
عفیف الدین، مغلپورہ
جواب : زکوٰۃ کی رقم کو غریب و مستحق زکوٰۃ کی ملکیت میں دنیا ضروری ہے۔ ایسے مدارس جہاں غریب و نادار طلبہ کے قیام و طعام کا نظم ہو ان مدارس کے ذمہ داروں کو بحیثیت وکیل زکوٰۃ کی رقم ادا کی جاسکتی ہے۔ ان مدارس کے ذمہ داروں پر لازم ہے کہ وہ زکوٰۃ کی رقم کو اس کے حقیقی مصرف میں خرچ کریں۔
ایسے مدارس جہاں غریب و خوشحال طلبہ اور جہاں ان کے قیام و طعام کا انتظام بھی نہ ہو تو ایسے مدارس کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دینا چاہئے ۔ اگر ان مدارس کے ذمہ دار غریب و نادار طلبہ کے تعلیمی اخراجات پر اس رقم کو ان بچوں کی اطلاع سے خرچ کرتے ہیں تو درست ہے ورنہ نہیں بہرحال اس دور میں امانت و دیانت بہت مشکل مسئلہ ہوگیا ہے ۔ اس لئے زکوٰۃ کی رقم ادا کرنے میں نہایت محتاط رہنا ضروری ہے۔

Attach Bathroom
سوال : مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ جہاں پیشاب کرتے ہیں، وہاں کلی یا غرارہ نہیں کرنا چاہئے تو مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا ہم مسلمان اٹائچ باتھ روم Attach Bathroom استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں کیونکہ اٹائچ باتھ روم وہ جگہ ہوتی ہے جس میں پیشاب بھی کرتے ہیں اور وہیں غسل میں کلی اور غرارہ بھی شامل ہوتا ہے ۔ احادثے کی روشنی میں جواب دیں تو مہربانی ہوگی ؟
فیض الدین، محبوب نگر
جواب : حمام خانہ میں پیشاب کرنے سے نسیان (بھولنے کی بیماری) لاحق ہوتی ہے۔ اگر طہارت خانہ اور غسل خانہ متصل ہو اور نجاست کے اثرات حمام خانہ میں بھی آجائیں تو ایسے مقام پر غسل اور و نسو کرنا بے فیض ہے ۔ پیشاب کے قطرات سے وہ مزید ناپاک ہوجائے گا۔ البتہ طہارت خانہ اور غسل خانہ متصل ہونے کے باوجود علحدہ ہوں اور ناپاکی کے اثرات حمام خانہ میں نہ آتے ہوں تو ایسے وقت حمام خانہ میں غسل اور وضو کرنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔

مسجد میں نکاح
سوال : آج کل مسجد میں نکاح کو ترجیح دی جارہی ہے۔ کیا مسجد میں نکاح ضروری ہے ؟ اور اگر مسجد کے علاوہ شادی خانہ میں نکاح انجام پائے تو کیا وہ خلاف سنت ہے ؟
منیر قریشی، نامپلی
جواب : شریعت مطہرہ میں نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کا نام ہے۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے اعلان کو پسند فرمایا ہے۔ امام نسائی نے نکاح کے اعلان سے متعلق ایک مستقل باب ’’ اعلان النکاح بالصوت و ضرب الدف‘‘ قائم فرمایا اور اس کے تحت ایک حدیث نقل فرمائی : ’’ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصل مابین الحلال و الحرام الدف والصوت فی النکاح ‘‘ (نسائی ج : 2 ص : 75 )
اس حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال و حرام میں تمیز کے لئے نکاح کے اعلان پر زور دیا۔ چونکہ مسجد، خیر و برکت کی جگہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب مقام ہے اور اس میں نکاح ہونے سے لوگوں میں نکاح کا اعلان ہوجاتا ہے، اس لئے شریعت میں مسجد میں نکاح مستحسن و پسندیدہ ہے۔ چنانچہ ترمذی شریف، کتاب النکاح، باب اعلان النکاح میں بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اعلنوا ہذا النکاح واجعلوہ فی المساجد الخ ‘‘نکاح کا اعلان کرو اور مسجد میں نکاح کرو۔
فقہاء کرام نے مسجد میں نکاح کو مستحب قرار دیا ہے۔ مسجد میں نکاح ہو تو آداب مسجد کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ لیکن مسجد میں نکاح کرنا ہی لازم و ضروری نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی صفیہ سے خیبر و مدینہ کے درمیان جبکہ آپ وہاں تین دن مقیم تھے نکاح فرمایا۔
’’ عن انس قال اقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم بین خیبر والمدینۃ ثلاثاً …‘‘ (البخاری ، کتاب النکاح ج : 2 ص : 775 )
اسلام میں نکاح از قسم عبادت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی پیروی ہے۔ اس میں مقام کی تعین شرعاً مقرر نہیں، بلکہ وہ عاقدین کی صوابدید اور سہولت پر موقوف ہے اس لئے صحابہ کرام مسجد نبوی کا التزام کئے بغیر حسب سہولت نکاح کیا کرتے۔چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر شادی کی بشاشت اور پلساہٹ کے آثار ملاحظہ فرمائے تو ارشاد فرمایا ’’ کیا ماجرا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے شادی کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے برکت کی دعا کی اور ولیمہ کرنے کا حکم فرمایا ۔
’’ عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رأی علی عبدالرحمن بن عوف اثر صفرۃ قال : ماھذا ؟ قال تزوجت امرأۃ علی وزن نواۃ من ذھب قال بارک اللہ لک اولم ولو بشاۃ‘‘ (بخاری ۔ کتاب النکاح ج : 2 ص : 775-774 )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند خواتین اور بچوں کو شادی کی تقریب سے واپس آتے ہوئے ملاحظہ فرمایا تو ارشاد فرمایا : تم لوگ میرے نزدیک محبوب لوگوں میں سے ہو۔
’’ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال : ابصرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم نساء و صبیانا مقبلین من عرس فقام فقمنا فقال : اللھم انتم من أحب الناس الی‘‘ (بخاری ، کتاب ال نکاح ج : 2 ص : 778 )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک غزوہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا جب ہم مدینہ واپس ہورہے تھے تو میں جلدی کرنے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کیوں جلدی کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا : حال ہی میں میری شادی ہوئی ہے۔ ’’ عن جابر قال : کنت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی غزوۃ فلما قفلنا تعجلت علی بعیر قطوف فلحقنی راکب من خلف فالتفت فاذا انا برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ما یعجلک ! قلت انی حدیث عھد بعرس…‘‘ (بخاری شریف ۔ کتاب النکاح ج : 2 ص : 789 )
ان احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے کہ نکاح کے لئے مسجد کا التزام ضروری نہیں اور اگر شادی خانہ میں سنت کے مطابق عقد کیا جائے تو عقد ، مسجد میں نہ ہونے کی وجہ سے اس کو خلاف سنت نہیں کہا جائے گا۔