نماز اور روزے تو فرض ہیں اولاد کی تربیت ؟

محمد مصطفی علی سروری
رمضان المبارک کے 30 روزوں کی تکمیل کے بعد جون کی 16 تاریخ بروز جمعہ کو نماز مغرب کے بعد مساجد سے باضابطہ سائرن بجائے گئے اور اگلے دن ہفتہ کو عیدالفطر کا اعلان کیا گیا ۔ مسلم محلوں گلی کوچوں میں ہر طرف غیر معمولی چہل پہل شروع ہوگئی تھی۔ عیدالفطر کے لئے لمحہ آخر کی تیاریاں پورے عروج پر پہونچ گئی تھی ۔ کیا شہر کیا گاؤں ہر جگہ مسلم آبادی والے علاقوں کا ایک جیسا حال تھا ۔ بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے دیڑھ سو کیلو میٹر دور نصری گنج کے علاقہ میں بھی عید کا چاند نکلنے کے بعد رات آٹھ بجے مقامی نوجوانوں کے ایک گروپ نے چاند دیکھنے کے جشن کے طور پر چاند جلوس نکالا ۔ جی ہاں ’’چاند جلوس‘‘ اس جلوس میں تقریباً (150) لوگ شامل تھے ۔ بڑے دھوم دھڑاکے سے نکلنے والے اس جلوس میں ایک (DJ) بھی شامل تھا ۔ جی ہاں وہی ڈی جے جس کے ذریعہ گانے بجائے جاتے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کا یہ جلوس رات آٹھ بجے نکل کر شہر کے مختلف علاقوں سے گزرا اور پھر رات دیر گئے اپنے اختتام کو پہونچا ۔ اگلے دن یعنی ہفتہ کو مسلمانوں نے عیدالفطر کی نماز پڑھی۔ ایک دوسرے سے گلے مل کر مبارکباد دی اور شیرخورمہ سے تواضع کی اور اپنی اپنی روایات کے مطابق عید منائی ۔

قارئین اکرام یوں تو صرف نصری گنج بہار ہی نہیں اور صرف بہاری حضرات نہیں بلکہ پورے ہندوستان اور دنیا بھر کے مسلمان عید سے پہلے کی شب خوب دھوم دھام سے تیاریاں کرتے ہیں اور اگلے دن یعنی عیدالفطر کے دن پورے اہتمام کے ساتھ عید مناتے ہیں لیکن نصری گنج کے مسلمانوں نے عید کا اہتمام کیا تو اس میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ آج کے اس کالم میں ان کا ذکر ضروری تھا ۔ حضرات نصری گنج میں منائی گئی عیدالفطر کی خاص بات تھی اس لئے میں نے اس کا ذکر کیا ہے ، اخبار انڈین اکسپریس نے 20 جون 2018 ء کو نصری گنج میں نکالے گئے چاند جلوس کے حوالے سے ایک تفصیلی خبر شائع کی ۔ تفصیلات کے مطابق عیدالفطر کے ایک دن بعد اتوار کے دن نصری گنج کی پولیس نے چاند جلوس میں شامل آٹھ بچوں کو ملک سے بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا ۔ یوں عید کے اگلے دن شام ہونے سے پہلے ان بچوں کی عید کی خوشیاں کافور ہوگئی اورانہیں ہی نہیں ان کے گھر والوں کو پریشانیوں نے گھیر لیا ۔ کیا چاند جلوس نکالنا ملک سے بغاوت ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ مسئلہ دراصل اس وقت پیدا ہوا جب چاندجلوس کی ایک ویڈیو چندن نام کے ایک شخص نے بناکراس ویڈیو کو بجرنگ دل کے مقامی لیڈر منوج بجرنگی کے حوالے کیا ۔ منوج نے یہ ویڈیو پولیس کے حوالے کیا اور پولیس نے چاند جلوس نکالنے والوں اور اس میں شامل بچوں پر ملک سے بغاوت کے الزام میں کیس درج کردیا کیونکہ بجرنگ دل کے لیڈر نے چاند جلوس کے دوران DJ پر جہادی اور ملک دشمن گانے لگانے کا الزام ہی عائد نہیں کیا بلکہ بطور ثبوت ویڈیو بھی پیش کیا اور اس طرح کے جہادی گانوں پر چاند جلوس میں شامل 10 سال سے لیکر 22 سال کے بچے ناچ رہے ہیں۔ یہ ویڈیو صرف پولیس تک ہی نہیں پہونچا بلکہ سوشیل میڈیا پر بھی خوب پھیل گیا ۔ پولیس کی کارروائی میں جن آٹھ بچوں کو گرفتار کیا گیا ان میں پانچ بچے تو نابالغ ہیں۔ پکڑے گئے ایک نابالغ لڑکے کے والدنے انڈین اکسپریس اخبار کو بتلایا کہ ہمارے بچوں کو گانے میں کیا بول ہے نہیں معلوم تھا وہ لوگ تو صرف میوزک کی آواز پر ناچ رہے تھے اور ’’وہ‘‘ گانا تو صرف تین چار منٹ تک ہی چلایا گیا ۔ مقامی لوگوں نے بتلایا کہ چاند جلوس کے دوران پہلے تو چند ایک قوالیاں بجائی گئی ، اس کے بعد DJ نے یوٹیوب سے میوزک چلادی، اب یوٹیوب ویڈیو میں کونسی کونسی میوزک جمع کردی گئی وہ نہیں معلوم ۔ ایک لڑکے کے والد جس کو گرفتار کیا گیا نے کہا کہ پولیس نے ہمارے بچوں پر ملک سے بغاوت کا الزام لگایا ، یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے ۔ ہمارے نصری گنج علاقے میں کبھی مذہبی فساد نہیں ہوا اور ہندو مسلمان یہاں مل کر رہتے ہیں۔
قارئین اب پکڑے گئے بچوں کے گھر والے وکیل کی خدمات حاصل کریں گے۔ عدالت میں بچوں کو بے گناہ ثابت کرنے کیلئے دلائل پیش کئے جائیں گے ۔ پولیس اپنے شواہد پیش کرے گی ۔ بجرنگ دل والے اپنی بات عدالت کو بتلائیں گے ۔ کیا بہار کے نصری گنج کا واقعہ ہماری آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی نہیں ہے ۔ کیا چاند جلوس کے نکالے جانے پر نوجوان بچوں کو روکا نہیں جاسکتا تھا اور ہمارے بچوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کچھ بھی ہو بس ناچنے گانے کیلئے بے چین ہیں۔ ابھی رمضان المبارک کو ختم ہوئے ایک دن بھی پورا نہیں ہوا دن تو دور چند گھنٹے بھی نہیں ہوئے ، ہمارے بچے ناچنے کیلئے اتاولے ہوئے جارہے تھے اور پھر دیکھئے بچے ہی ہے ناں اور وہ بھی نابالغ لیکن ان بچوں نے باضابطہ پیسے دیکر DJ منگوایا گیا کیونکہ فری میں تو کچھ نہیں ملتا۔ یہ نابالغ بچے DJ کے لئے پیسے بھی جمع کرلیتے ہیں ، گاتے بجاتے جلوس بھی نکال رہے ہیں اوران بچوں کے سرپرست بڑے سکون سے عید کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور جب پولیس ان بچوں کو پکڑنے کیلئے آ پہونچتی ہے تب یہ سرپرست غفلت سے جاگتے ہیں۔ معاف کیجئے کہ میں نے غفلت کا لفظ استعمال کیا ان لوگوں کا تو کہنا ہے کہ وہ گانا تو تین چار منٹ تک ہی چلا اور کم عمر بچوں پر ملک سے بغاوت کا الزام بڑا تکلیف دہ ہے ، وہ لوگ تو بس ناچنا چاہتے تھے اور ناچنا ملک سے بغاوت تھوڑی ہے۔

ہمارے نوجوانوں کو کس طرح کی تربیت کی ضرورت ہے اور والدین کی غفلت کے سبب وہ کس رخ پر جارہے ہیں کہ رمضان کے دوران اگر 30 دن تک ناچ گانے سے بچے رہے تو اگلے دن عید کا بھی انتظار نہیں کرسکے اور عید سے پہلے والی رات ہی DJ لگاکر ناچنے لگے ۔ ایک یہ بچے ہیں میوزک سے 30 دن دور نہیں رہ سکے اور کیا بتاؤں میں ادھر 17 جون کو چاند جلوس میں ملک دشمن گانے بجانے پر مسلمان نوجوان گرفتار ہوتے ہیں اور 18 جون کو (AIIMS) آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں داخلوں کیلئے ہوئے امتحان کے نتیجہ کا اعلان ہوا تو پٹیالہ سے ہندوستان ٹائمز نے ایک خبر شائع کی جس کے مطابق ایلیزا بنسل نام کی ایک 17 سالہ لڑکی نے آل انڈیا نمبر ون رینک حاصل کیا ۔ اپنے انٹرویو میں اس لڑ کی نے بتلایا کہ میں گزشتہ دو برسوں سے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں داخلے کیلئے تیاری کر رہی تھی۔ ان دو برسوں کے دوران میں نے موبائیل فون کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور نہ کسی سوشیل میڈیا کی سائیٹ پر اپنا اکاؤنٹ کھولا۔ دوسری قوم کے بچے ہیں کہ دو برس تک موبائیل فون سے دور رہ کر کامیابی حاصل کر رہے ہیں اور ہماری قوم کے بچے رمضان میں 30 دن میوزک سے دور رہے تو اگلے ہی دن ناچ گانا کرنا چا ہتے ہیںاور پولیس نے جو ایف آئی آر درج کی ہے اس کے مطابق چاند جلوس میں تقریباً 150 نوجوان شریک تھے ۔ نوجوانوں کے گروپ کی بات نکلی تو یاد آیا کہ NEET 2018 کے نتائج کا اعلان ہونے کے بعد 15 جون 2018 ء کو اخبار ٹائمز آف انڈیا نے تلنگانہ اور آندھرا کے NEET ٹاپرس کا انٹرویو شائع کیا تھا ۔ انیرودھ بابو کا تعلق آندھراپردیش سے ہے۔ اس نے آل انڈیا آٹھواں رینک حاصل کیا ، اپنی کامیابی کے متعلق انیرودھ بابو نے بتلایا کہ دوستوں کے ساتھ پڑھائی کیلئے مقابلہ آرائی اس کیلئے بہت کام آئی ، اس کے مطابق وہ اپنے تین دوستوں کے ساتھ گروپ بناکر انٹرنل امتحانات میں ایک دوسرے سے زبردست مقابلہ کرتے تھے اور مقابلہ کرنے کی یہی Spirit مجھے کامیابی دلانے میں مدد آئی ۔ قارئین بابو کی کامیابی صرف اکیلے نہیں آئی بلکہ بابو کے چاروں دوستوں نے 50 سے کم رینک حاصل کیا اور وہ بھی کسی ریزرویشن کے زمرے میں نہیں بلکہ اوپن کیٹگری میں درج کی ہے۔
یاد رکھئے جیسا کہ ہمارے خطیب صاحب اکثر نماز جمعہ سے قبل اپنے خطبے میں کہتے ہیں کہ مثالیں برابری کیلئے نہیں دی جاتی ہیں بلکہ مثالوں کا مقصد چیزوں کو آسانی سے سمجھانا ہوتا ہے ۔ اپنے کالم میں ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتا ہوں کہ واقعات بھی بیان کروں تو باضابطہ حوالوں کے ساتھ کروں ۔ بے سر پیر اور بے کار کی باتوں سے حاصل ہونے والا کچھ نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر بات چھوٹی اور معمولی ہے کہہ کر نظر انداز کرنا چھوڑ دیں۔ آگ کے شعلے ابتداء میں چھوٹے چھوٹے ہی ہوتے ہیں لیکن ان چھوٹے شعلوں میں بھی وہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جنگل کو، آبادی کو اور اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو جلا کر خاکستر کرسکتی ہے۔ اس لئے کسی خرابی کو ارے چھوٹی بات کہہ کر نظر انداز نہیں کردینا چاہئے ۔
آج اس ملک میں مسلمان سیاسی ، سماجی ، معاشی اور معاشرتی غرض زندگی کے ہر شعبہ میں حاشیہ پر دھکیلے جارہے ہیں ایسے میں کسی خرابی کو معمولی ہے یا چھوٹی ہے کہہ کر ایسے ہی نہیں چھوڑا جاسکتا۔
ہم صرف رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ہی مسلمان نہیں ہے بلکہ سال کے بقیہ مہینوں میں بھی ہم پر وہی ذمہ داریاں بدستور عائد ہوتی ہیں جو کہ رمضان میں تھی ۔ یہ کام کسی ٹیچر ، مولوی صاحب مدرسے یا اسکول کالج کا ہرگز نہیں ہے ۔ بچوں کو اللہ کی دین سمجھنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان بچوں کی تربیت ایسے ہی فرض ہے جیسے رمضان المبارک کے روزے نماز اور دیگر فرائض۔ نماز اور روزہ ترک کرنے پر سوال کیا جائے گا تو اولاد کی تربیت کے متعلق بھی ضرور پوچھا جائے گا ۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے ۔ غور کیجئے اور سوچیئے گا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو اپنی اولاد کی تربیت کے حوالے سے فکر کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تربیت کے کام میںہماری مدد فرمائے۔ (آمین) ۔
sarwari829@yahoo.com