نظم عقل ودل ایک مطالعہ،اقبال کے فن کی ایک جھلک

سیدمحبوب قادری
یہ نظم سر محمد اقبال کے فن کی ایک جھلک ہے ۔ کون اقبال ؟ وہی جس نے فلسفہ جیسے کھٹن شے کو شاعری جیسی نازک فن میں بھر پور استعمال کر کے ساری دنیا کو اپنا گرویدہ بنالیا۔وہی اقبال جو مردہ جسموں میں ذندگی کی روح پھونکتا ہے ۔وہی جس کی شاعری میں انسانیت کا دل دھڑکتا ہے ۔وہی اقبال جس نے اردو نظم نگاری کو بام عروج پر پہونـــچایا ۔ایسے معتبر استاد سخن کی شاعری پر گفتگو کر نے کیلئے اقبال اور اقبالیات سے اچھی گہری بصیرت اور بصارت والا فن کار ادیب ہی کچھ گفتگو کر سکتا ہے ۔اور اقبال کا عندیہ جو الفاظ کے جامہ میں معانی و مفاہیم کا ایک بحر مطلاطم موج زن ہے اس میں سے کچھ قطرے حاصل کر سکتا ہے ۔
میں ایک طالبعلمانہ حیثیت سے ’’نظم عقل و دل ‘‘کے جو معانی و مفاہیم سمجھ میںآتے ہیںظاہرکرنے کی پوری کو شش کروں گا۔ٗ
سر محمد اقبال کی کوئی بھی صنف سخن حمد ‘ نعت‘ نظم ‘ غزل ‘ رباعی اور قطعہ وغیرہ کے معانی ومفاہیم واضح کرنے سے پہلے یہ جان لینا بے حد ضروری ہے کہ اقبال کا عندیہ اورنظریہ کیا ہے ۔ان کی شاعری کے وہ کیا عناصرہیںجو اقبال کودیگر شعرا سے ممتاز کر تے ہیں۔
اقبال کی شاعری کی عمارت چار عناصر پر قائم ہے  (۱) عشق  (۲)  خودی  (۳)  مرد مومن  (۴) عمل
اقبال کے پاس ’’ عشق ‘‘ کا تصور وہ نہیں ہے جو دیگر شعرا اور انسانوں کے پاس ہے ‘ بلکہ اقبال کے پاس ’’عشق ‘‘ کا تصور بہت گہرا اور پاک ہے یعنی  وہ ایک جزبہ ہے‘ اسی وجہ سے اقبال کہتے ہیں کہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل محو ے تماشہ ہے لب بام ابھی
اقبال کی شاعری کا دوسرا ستون  ’’خودی ‘‘ ہے اقبال کے پاس خودی کاتصور نفس پرستی اور اناکی تسکین نہیں ہے بلکہ انسان میں پوشیدہ صلاحیت و ہنر ہے ‘ اسی وجہ سے اقبال کہتے ہیں کہ
خودی  کو  کر بلند  اتنا کہ ہر تقدیر  سے  پہلے
خدا بندے سے خودپوچھے بتا  تیری رضا کیا ہے
اقبال کی شاعری کا چوتھا ستون ’’عمل ‘‘ ہے یعنی اقبال کے پاس عمل کا تصور حرکت ہے‘ اسی لئے اقبال کے پاس موت کا جو تصور ہے وہ جسم سے روح کا نکلنا نہیں ہے بلکہ اسے کہیں زیادہ گہرا اور وسیع ہے اور وہ ہے منجمد ہونا یا حرکت نہ کرنا ہے ۔
اب جب کہ ہم نے اقبال کی شعری خواص سے واقفیت حاصل کرلی ہے اصل مضمون کی طرف لوٹ تے ہیں ۔
اقبال کی نظم ’’ عقل و دل ‘‘کا جب ہم مطالعہ کر تے ہیں تو بظاہر کچھ خاص نظر نہیں آتی لیکن جب قاری ناقدانہ نظر سے اس نظم کا مطالعہ کر تا ہے تو اس پر معانی و مفاہیم کے کئی جہات نظر آتے ہیں ‘ جس سے قاری کو بصارت اوربصیرت میسر ہوتی ہے ۔
عقل ودل کے چند ایک خصوصیات درجہ ذیل ہیں :
اس نظم کے عنوان سے ہی یہ معلوم ہوتاہے کہ دو متضاد الفاظ ایک جا جمع کئے گئے ہیں ۔قاری اس نظم کو متضاد الفاظ کے نظریہ سے پڑھتاہے توجب اس پر یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ دو متضاد الفاظ اصل میں دوگروہ ‘ دو جماعت ہیں(۱) عقل کی (۲) دل کی ۔دو متضاد الفاظ جب دو جماعت ٹہرے توہر جماعت کا اپنا ایک نظریہ اور اپنی کچھ دلائل ہوتیںہیں۔قاری اس نظم کو جب اس نظریہ سے پڑھتاہے تو اس کودو نوں جماعتوںکے درمیان مکالمہ بازی صاف طورپر نظر آتی ہے ۔
قاری کی نظر جب نظم کے مجموعی الفاظ پر پڑتی ہے اس کو صاف طور پر نظر آتا ہے کہ اس نظم میں اقبال نے شعوری طور پر یا پھر لا شعوری طور پر ان الفاظ کو تین زمروں میں تقسیم کی ہے ۔
۱  متضاد الفاظ :  عقل  دل ‘ بھولے بھٹکے رہنما‘ زمین فلک ‘ مظاہر باطن وغیرہ ۔۲۔ مترادف الفاظ : بھولے بھٹکے ‘علم معرفت ‘ خدا جو خدا نما‘ شمع دیا‘ محفل بزم ‘ زمان مکان ‘ سدرہ عرش‘ بلندفلک وغیرہ ۔۳۔ متصوفانہ الفاظ :معرفت ‘ مظاہر ‘ باطن ‘ محفل صداقت ‘ حسن ‘ خدا نما ‘ دل وغیرہ ۔
دل نے عقل کی گفتگو سنکر جواب میںکہا کہ خدا کے ر از کو تو سمجھتی ہے اور میں اس خدا کو دیکھتا ہوں ‘ دل نے عقل سے کہا کہ تمہارا کام صرف ظا ہری چیز پر نظر رکھنا ہے میں اس چیز کے باطن کو جانتا ہوں اور اس کے مثبت اور منفی نتجے سے واقف ہوں ۔ مزید دل نے کہا عقل کا کام صرف علم حاصل کرنا ہے لیکن اس علم کی معرفت سے میں واقف ہوںاور کہا کہ تیرا کام خدا کا رستہ ڈھونڈنا ہے لیکن میری اس خدائے بزرگ و بر ترتک رسائی ہے ۔اور کہا تو صرف محفل صداقت کی شمع ہے لیکن میں حسن کے بزم کا دیا ہوں ۔
محفل صداقت کی وضاحت :
صداقت کے لغوی معنی سچائی اور یقین کے ہیں لیکن صوفیا کے پاس محفل صداقت سے مراد ایک بلند و بالا مقام ہے ۔جس کے ان کے پاس تین الگ الگ درجہ ہیں (۱)یقین (۲) عین الیقین (۳) حق الیقین۔
یقین : کسی بھی واقعہ یا بات کی تصدیق کو یقین کہتے ہیں ۔
عین الیقین : کسی بھی واقعہ یا بات کو کسی قابل بھروسہ مند شخصیت سے سنے ہوں ۔ حق الیقین : کسی بھی واقعہ یا بات کو بزات خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہو۔
حسن کی وضاحت :
حسن کے لغوی معنی خوبی ‘عمدگی ‘ بھلائی اور خوبصورتی کے ہیں ۔لیکن حسن صوفیا کے پاس بارگاہ رب العالمین کا سب سے بلند واعلی مقام ہے ۔کیونکہ تمام خوبیوں کا مرکز و محور اللہ ہی تو ہے ۔تو دل نے عقل سے کہا کہ تیرامقام کچھ نہیں ہے میرا مقام اور بلندی کے کیا کہنے کہ جہاں بلند ی بھی پستی نظر آتی ہے ۔آخیر شعرمیں دل نے عقل کو شکست سے دو چار کر تے ہوے کہا کہ میں رب زوالجلال کا عرش عظیم ہوںجس پر رب زوالجلال استوا فرماتاہے ۔اور یہ اظہرمن الشمس ہے کہ خدا بندے کے دل میں رہتاہے اس مناسبت سے دل نے خود کو عرش الہی کہکر اپنی برتری کا جھنڈا لہرایا ۔
اس شعر میں بظاہر عقل نے خود کو لعل بے بہا اور دل کو بد بو دار خون کہکر اپنی بڑائی اور دل کی ہجو کی ہے ۔لیکن در باطن عقل نے دل کو خون کی بوند اور خود کو لعل بے بہا کہکر خود اپنی شکست اوردل کی کامیابی کا اعلان کررہی ہے ۔وہ اس نظریہ سے کہ لعل میں بھی حرارت ہوتی ہے اور خون میں بھی حرارت ہو تی ہے لیکن لعل یعنی قیمتی ہیرا اس کی حرارت انسان کو مو ت دیتی ہے جب کہ خون کی حرارت انسان کے زندگی کی ضامن ہوتی ہے ۔اس اعتبار سے عقل نے خود اپنی برائی اود دل کی بڑائی کی ہے جس سے یہ شعر بھی دل کے حصہ میں آنے سے دل  کے مجموعی (۹) اشعار ہو ے۔اور یہ امر مسلم ہے کہ عقل خطا کرتی ہے اس نے وہ کیا ۔
اور دل کی بڑائی اس اعتبار سے بھی ہوتی ہے کہ لفظ عقل مونث اور لفظ دل مذکر استعمال ہوتاہے مذکر کو مونث پر فوقیت حاصل ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالی   ’’ الرجال قوامون علی النساء ‘‘المختصر اقبال نے اس چھوٹی سی نظم میں اپنے ہنر کا جو جادوجگایا ہے ۔یہ صرف انہی کا حصہ ہے ۔