نصرت محی الدین ۔ یادوں کے جھروکوں سے

نصیرہ نصرت محی الدین
نصرت محی الدین کو اس جہان فانی سے گزرے ہوئی دو برس سے زائد کا عرصہ بیت گیا مگر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور کسی بھی دم ہنستے ، مسکراتے چلے آئیں گے ۔ مگر ازل سے قدرت کا یہ نظام رہا ہے جو اس دنیا سے ایک بار گذر جاتے ہیں وہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے ۔ بس ان کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں جو رہ رہ کر پلکوں پر اشکوں کے چراغ جلاتی ہیں۔
گذشتہ کم  و بیش ڈھائی برسوں میں مرحوم کے قریبی رفقاء ، میر احمد علی خان ، اور ششی نارائن سوادھین کے علاوہ محمد مسعود علی خان فضلی ،صدر انجمن ترقی اردو عظیم تر حیدرآباد کے مرحوم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ،جو نہ صرف مختلف جرائد ، رسائل اور روزناموں ، سہ ماہی بلکہ انجمن ترقی اردو دہلی (ہند) کے پندرہ روزہ ترجمان ’’ہماری زبان‘‘ اور حکومت ہند کے ادارہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی کے ماہنامہ ’’اردو دنیا‘‘ میں شائع ہوئے ہیں ۔

میں سوچتی ہوں کہ اتنا سب کچھ لکھے جانے اور شائع ہونے کے بعد میں لکھوں تو آخر کیا لکھوں ۔ یوں تو ذہن کے جھروکوں سے بے شمار یادیں جھانکتی ہیں اور صفحہ قرطاس پر بکھر جانے کو بے چین ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہوں جیسے ’’آج کی نئی نسل کو معلوم ہو کہ نامساعد حالات ، دنیاوی اور مادی وسائل دستیاب نہ ہونے کے باوجود اپنی زندگی کے مقصد کو کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے ۔ نصرت محی الدین ایک مرد مومن تھے ، نیک اور صالح زندگی بسر کی ۔ اپنی چند روزہ زندگی کو سماجی ، تہذیبی اور ادبی ،رفاہی ،  علمی اور بے لوث عوامی خدمات میں گذاردی اور حق خداوندی ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔ جب ذہن کے پردوں پر ایک کے بعد دیگر یادوں کے انمٹ نقوش ابھرنے لگے تو میں نے فیصلہ کیا کہ مرحوم کے ان چھوئے پہلوؤں پر روشنی ڈالوں ۔
نصرت محی الدین شہرہ آفاق ترقی پسند شاعر ، انقلابی لیڈر اور مزدوروں ، محنت کشوں کے مسیحا جناب مخدوم محی الدین کے فرزند دلبند ہونے کے ناطے ان کے خون میں وہ ساری خوبیاں موجزن تھیں جو ان کے والد محترم کی شخصیت ، فطرت اور طرز زندگی کا خاصہ تھیں ۔ انہیں غربا پروری ،ضرورت مندوں کی حاجت روائی اور جذبہ ایثار و قربانی وراثت میں ملی تھی ۔ وہ ہمیشہ ضرورت مندوں کی دستگیری کو اپنی زندگی کا عین مقصد قرار دیا کرتے تھے اور کہتے تھے ’’خود کے لئے جانور بھی جی لیتا ہے زندگی وہ ہے جو دوسروں کے لئے جی جائے‘‘ ۔ ’’خدا نے ہمیں اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بخشا ہے تو کیوں نہ اسکا حق ادا کریں‘‘ ۔ وہ دوسروں کے کام آنے کے اپنے مقصد حیات پر تادم آخرکاربند رہے ۔
جب بھی ہمارے یہاں کوئی معمول سے ہٹ کر پکوان ہوتا تو نصرت اس میں آٹھ دس افراد کا اضافی پکوان کرواتے اور دس پندرہ پاکٹوں میں اسے بندھوا کر غریبوں میں تقسیم کراتے تھے ۔ یوں وہ اپنی خوشیوں میں غریبوں کو بھی شامل رکھنا کبھی نہیں بھولتے تھے۔
کڑاکے کی سردیوں میں بے گھر اور بے سہارا لوگوں میں کپڑے ، گرم کمبل اور بلانکٹس وغیرہ تقسیم کیا کرتے تھے اور کسی ضرورت مند سوالی کو کبھی مایوس نہیں لوٹاتے جوکچھ بھی پاس ہوتا اس کے حوالے کرکے اس کی حاجت روائی میں خوشی محسوس کرتے تھے  ۔

نصرت کے استعمال میں ایک نئی اور بہترین کنڈیشن میں اسکوٹی تھی ایک دن اس کو کہیں چھوڑ  کر پیدل گھر چلے آئے اور کہنے لگے کچھ خرابی آگئی تھی میکانک کے پاس چھوڑ آیا ہوں ۔ چند دن بعد کہنے لگے اسکوٹی میں خرابیاں کچھ زیادہ ہی نکل آئی ہیں خیال ہے کہ اس کو نکال کر دوسری نئی خرید لوں اور یوں وہ آٹو رکشا سے آنے جانے لگے ۔ نئی موٹر سائیکل خرید نہ پائے اور نہ یہ بتاسکے کہ پہلے والی موٹر سائیکل کہاں گئی کہ اچانک موت کے بے رحم ہاتھوں نے آدبوچا ۔
ایک دن نصرت کے گذر جانے کی خبر پاکر ایک انجانے قدرے عمر رسیدہ اور مفلوک الحال شخص ہمارے گھر آئے اور نصرت کی رحلت پر زار و قطار رونے لگے ۔ ہم حیران تھے کہ آخر یہ صاحب کون ہیں جو اس قدر اپنے آپ کو ہلکان کررہے ہیں ۔ جب ان کی آنکھوں سے اشکوں کا سیل رواں کچھ تھما تو روہانسی آواز میں بولے ’’نصرت صاحب کی اسکوٹی باہر کھڑی ہے ۔ آپ لوگ اس کو واپس لے لیجئے‘‘ ۔ ہم نے حیران ہو کر پوچھا کہ وہ اسکوٹی ان کے پاس کہاں سے اور کیسے آئی؟ ۔ انھوں نے عقدہ کھولا کہ تین چار ماہ قبل میں نصرت صاحب کے پاس یہ درخواست لیکر حاضر ہوا تھا کہ میری ملازمت میرے گھر سے کافی دور ہے ۔ مجھے اکثر پیدل یا بسا اوقات بس سے سفر کرکے جانے کے باوجود ڈیوٹی پر دیر ہوجاتی ہے ۔جس کی وجہ سے میری ملازمت خطرہ میں پڑگئی ہے ۔ اگر ملازمت چلی جائے تو میرے بال بچے نہ صرف بھوکوں مرجائیں گے بلکہ جو بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ ترک تعلیم پر مجبور ہوجائیں گے‘‘ ۔
یہ احوال ان کے گوش گذار کرنے کے بعد میں نے ایک پرانی لونا دلانے کی خواہش کی تھی تاکہ اپنی نوکری پر بروقت پہنچ سکوں ۔ یہ سن کر پہلے تو وہ خاموش رہے جیسے ذہن میں میری مشکلات کا کوئی حل تلاش کررہے ہوں ۔ پھر کہنے لگے ’’پرانی لونا آپ کے لئے دردسر بن جائے گی آئے دن کچھ نہ کچھ خرابی کی درستگی کے آپ متحمل نہیں ہوسکیں گے ۔ رہی نئی اسکوٹی کی بات اگر اقساط پر لیں توآپ کی اپنی قلیل آمدنی کا بڑا حصہ قسط کی ادائیگی میں چلا جائے گا ۔ گھر بار کی کفالت کے لئے کچھ نہ بچے گا‘‘ ۔ کچھ توقف کے بعد کہنے لگے فی الحال آپ میری یہ اسکوٹی لے لیں اور استعمال کریں ۔ اس طرح گذشتہ تین چار ماہ سے یہ اسکوٹی میرے استعمال میں ہے ۔ اب آپ لوگ چاہیں تو واپس لے لیں ۔ ہم نے کہا ایسا ممکن نہیں ہے ۔ آپ بدستور اسے اپنے پاس رکھئے ۔ البتہ آپ سے گذارش ہے کہ مرحوم کے اس کارخیر کے لئے ان کے حق میں دعائے مغفرت کریں ۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں جن سے نصرت محی الدین کی انسان دوستی ، اعلی ظرفی اور غریب پروری کا اظہار ہوتا ہے ۔

ہمارے 45 سالہ ازدواجی رفاقت کے شب و  روز گزری یادوں کا ایک سیلاب ہے کہ ذہن کے جھروکوں سے امنڈتا محسوس ہوتا ہے مگر قرطاس پر اتنی جگہ نہیں کہ انہیں جگہ فراہم کروں ۔ ’’عجب مانس تھا جانے کہاں سے آیا اور کہاں چلا گیا وہ‘‘ ۔ حیران ہوں کہ یوں پلک جھپکتے کہاں سے کہاں چلا گیا ۔وہ ایسا بے لوث انسان دوست شخصیت کا حامل ، لاثانی شخص تھا اپنا سب کچھ لٹا کر بھی کبھی بدلے کی امید نہیں رکھی ۔ بے لوث خدمت گزاری دراصل ان کی فطرت ثانیہ تھی ۔ بسا اوقات وہ اپنی از حد ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر دوسروں کی ضرورتوں کو ترجیح دیا کرتے تھے ۔
بے شمار لوگوں کے لئے راشن کارڈ بنوائے ، گیاس سلنڈرس فراہم کئے لیکن تادم آخر اپنے لئے راشن کارڈ بنوائے اور نہ گیاس سلنڈر حاصل کیا ۔ ہم برسوں بلیک میں گیاس سلنڈر حاصل کرتے رہے ۔ ایسی متعدد مثالیں ہیں جو انہوں نے اپنی شدید ضرورتوں کے باوجود دوسروں کی ضرورت کو اولین ترجیح دی ۔ کہتے ’’ہم تو کسی طرح بلیک میں ہی سہی حاصل تو کرلیتے ہیں وہ بے چارے غریب ہیں ان کے پاس اتنی رقم کہاں کہ کوئی چیز بلیک میں خریدیں‘‘ ۔
جہاں تک مذہب کا تعلق ہے یہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے ۔ مذہبی تعلیمات پر عمل آوری دراصل انسان کو خدا سے جوڑتی ہے اور اس کی خوشنودی کا باعث بنتی ہے ۔ انسان اپنی عبادتوں ، خدا ترسی اور کارخیر سے خدا سے قربت حاصل کرکے اپنی دنیا اور آخرت سنوارتا ہے ۔ مگر آج کا انسان مذہب کی بنیادی اہمیت اور اس کی تعلیمات اور مقاصد کو فراموش کرکے محض دنیاداری ، دنیاوی شہرت ، عزت و منزلت کی خاطر مذہب اور اس کے احکامات پر عمل آوری کو لوگوں سے جوڑنے کے لئے دکھاوے اور اپنی جھوٹی تشہیر سے کام لیتا ہے ۔ نصرت محی الدین مسلمان تھے اور ایک سچے مسلمان کی ساری خوبیاں ان میں موجود تھیں ، وہ ریاکاری اور دکھاوے کی زندگی سے ہمیشہ دور رہے ۔ نصرت محی الدین اللہ کے ان نیک بندوں میں سے تھے جنہوں نے ایسے معاملات میں کبھی خود ستائی اور خود نمائی کو اہمیت نہیں دی ۔ جو کچھ بھی کیا صرف خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی کی خاطر ہی کیا  ۔

کسی کے کام آتے تو انتہائی بے لوث طرز عمل اختیار کرتے ، بدلے یا معاوضہ کی کوئی امید نہ رکھتے ۔ اگر کوئی احسان مند کسی احسان کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا تو ناراض ہوجاتے اور کہتے کہ ’’میں نے جو کچھ بھی کیا صرف خدا کی خوشنودی کی خاطر ہی کیا  ہے اس کا صلہ خدا مجھے دے گا‘‘۔
لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی پراگندہ اور حسد بھری ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نصرت جیسے پاکیزہ ذہن ، نیک اور صالح کردار کے حامل بے لوث شخصیت پر بہتان تراشی کرتے تھے انہیں بے دین اور دہریہ تک کہہ دینے میں کوئی عار خیال نہیں کرتے تھے۔ دراصل یہ انکی سراسر غلط فہمی اور ذہنی فتور اور شرانگیزی ہے جس کے درپردہ سوائے حسد کے اور کچھ نہیں ۔ نصرت جو کچھ بھی کارخیر کرتے ان کے اور خدا کے درمیان ہی ہوا کرتا ۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پاتی ۔ بسا اوقات ناگزیر ہوجائے تو مجھے بھی کسی کارخیر میں شامل کرلیا کرتے اور میں خوشی خوشی ان کے ساتھ ہوجایا کرتی تھی ۔ کیا نصرت کی زندگی کا یہ روشن باب مذہبی تعلیمات کا آئینہ دار نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ نصرت ذاتی طور پر نماز کے پابند تھے ، رمضان میں بڑے اہتمام ، خشوع و خضوع کے ساتھ ہم سب روزے رکھتے اور زکوۃ ادا کرتے ۔
چند برس قبل ہم دونوں نے فریضہ حج کی ادائیگی کا شرف حاصل کیا ۔ کم  و بیش ڈھائی برس قبل 4 اپریل 2013 کو جب اچانک وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے اس ماہ کی 25 تاریخ کو ہم لوگ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے جانے والے تھے مگر خدا کو منظور نہ ہوا اس سے 20 دن قبل وہ خدا کے حضور پہنچ گئے ۔

میں ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ جو نصرت کو قریب سے جانے بوجھے بغیر ان پر انگشت نمائی محض اس لئے کرتے ہیں کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم حمایتی تھے ۔ کیا کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہونا یا اس کی پرجوش حمایت کرنا انسان کو بے دین بنادیتا ہے ؟۔ ایسے بہت سے مسلمان ہیں جو کمیونسٹ پارٹی سے نہ صرف وابستہ رہے بلکہ اس کے فروغ کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے کے باوجود اپنے مذہب اسلام اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے ۔ ان کے پائے استقلال میں رتی برابر بھی جنبش پیدا نہ ہوسکی ۔ وہ نمازی تھے ۔ روزے رکھتے تھے ، زکوۃ کی ادائیگی کو لازمی قرار دیتے۔ حج و عمرہ کو جاتے ، غرض ان کا ہر قول و فعل تعلیمات اسلامی کے عین مطابق ہوتا ۔ کیا انہیں بھی بے دین اور دہریہ کہاجائے گا ۔
آزادی کے بعد پریشان حال مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا ایسے میں کمیونسٹ پارٹی کے سماجی و معاشی اور سیاسی اصول جو اسلامی اصولوں سے میل کھاتے ہوتے مسلمان اس کے قریب ہونے لگے تو مخالفین نے یہ مذموم پروپگنڈہ شروع کردیا کہ کمیونسٹ پارٹی مخالف اسلام ، بے دین اور دہریوں کی جماعت ہے تاکہ مسلمان اس سے دور ہوجائیں ، جن مسلمانوں نے اس پروپگنڈہ سے متاثر ہونے سے انکار کردیا انہیں بے دین ، منکر اور دہریہ کے القاب سے نوازا جانے لگا ۔ چنانچہ یہ گمراہ کن پروپگنڈہ کارگر ثابت ہوا اور معصوم ، بھولے بھالے مسلمان سیاسی پروپگنڈہ کا شکار ہوگئے اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرکے فرقہ پرستوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے ہیں ۔
ہمارا ملک ہندوستان ایک آزاد ، جمہوری اور سیکولر ملک ہے مگر فرقہ پرستوں نے یہاں کی فضاؤں میں منافرت ، تعصب اور نفرت کا زہر گھول دیا ہے ۔ اس کے باوجود اس ملک میں مسلمانوں کو دیگر ابنائے وطن کے دوش بدوش خوش حال ، پرامن زندگی گزارنا ہے تو سب سے پہلے اپنی صفوں میں گھسے فرقہ پرست کالے بھیڑوں کو نکال باہر کرکے سیکولر طاقتوں کو مضبوط کرنا ہوگا ۔ یہی نصرت محی الدین کا مشن تھا جس پر وہ تادم آخر کاربند رہے ۔