نصرتیؔ کی مثنوی گلشن عشق کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر محمد فیض احمد
دکن کی مسلم اقتدار میں اہم ترین عادل شاہی حکومت بھی تھی ان کی حکمرانی بیجاپور میں تھی یہاں کے حکمرنوں کی دکنی اردو کی طرف دلچسپی اس لحاظ سے تھی کہ یہ زبان مقامی طرزفکر کی بڑی موثر ترجمانی کرتی ہے ۔اس زبان کے تئیں ان کی سرپرستی سے بڑی خوش کلام شعراء اپنی تخلیقات سے نابغہ روزگار بنے رہے ان میں ایک اہم نام شیخ ملا نصرتیؔ کا بھی رہا ، نصرتیؔ ابتداء میں عادل شاہی حکومت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کارگذار تھے ۔ اس بات کی صراحت خود ان کے کلام سے بھی ہوجاتی ہے ۔
کہ میں اصل میں یک سپاہی اتھا
فدا درگہ بادشاہی اتھا
مجھے تربیت کرتوں ظاہر کیا
شعور اس ہنرکا دے شاعر کیا
نصرتیؔ اپنی سپہ گری اور شاعری کی مناسبت سے مقبول بارگاہی (محمد عادل شاہ) ہوئے اور اپنی تنگ دستی اور مفلوک الحالی سے پناہ مانگی بادشاہ وقت سے کچھ یوں التجا کرتے ہیں :
پن کیا کروں اے شاہ میں کئی باب بے سان ہوں
اول تو ایسا گھر نہیں جہاں ٹھار ہوے راحت بھری
فرماں سوں عال حکم کے بخشش مجھ ایسا گھر دلا
جو صاف ترمج کوں جہاں ہوئے صفائی بہتری

ملا نصرتیؔ کی اہم تصنیفات : مثنوی گلشن عشق ، مثنوی علی نامہ ، مثنوی تاریخ اسکندری ، قصائد و غزلیات اور رباعیات ہیں ۔ جہاں تک نصرتیؔ کی قصیدہ گوئی کا تعلق ہے نصرتیؔ اپنے عہد میں اولیت اور کمال رکھتے تھے ۔ شوکت الفاظ ، مضامین اور زور بیان پر قدرت ان کا خاصہ تھا ۔ اگرچہ نصرتیؔ ایک درباری شاعر رہے وہ اپنی قابلیت سے ملک الشعراء کا مقام بھی پایا اور بیجاپور میں معززین میں ان کا شمار بھی ہونے لگا ۔ لیکن انہوںنے اپنی شاعری کو صرف دربار تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے فطری اور ذہنی افق کو اپنے کلام میں جگہ فراہم کرتے رہے ۔ قصائد میں تشبیہات اور استعارات میں اپنی جدت پسندی کا خوب عملی مظاہرہ کیا ہے ۔ زیر نظر مضمون نصرتیؔ کی اولین تحریر شدہ عشقیہ مثنوی گلشن عشق کے مطالعہ تک محدود ہے ۔ اس مثنوی مںی منوہر و مدمالتی کے عشق کی داستان گھڑی گئی ہے ۔ دراصل اس قصہ مذکور سے متعلق بابائے اردو مولوی عبدالحق اپنی تصنیف نصرتی کے ص نمبر 19پر رقمطراز ہیں جو انجمن ترقی اردو ہند کی جانب سے 1988 میں اشاعت ہوئی تھی ۔ نصرتیؔ کے ایک دوست مسمی بن ابن عبدالصمد اس مثنوی کی تحریر کا محرک بنے ہیں ۔ اس کے علاوہ شیخ منجھن نے اس قصہ کو بہ زبان ہندی تحریر کیا تھا ۔ قصہ کنور منوہر و مہ مالت جو فارسی مثنوی ہے جس کے مصنف کے حالات زندگی گوشہ گمنامی میں ہیں ۔ اور تیسری کتاب عاقل خاں رازی عالمگیری کی مثنوی مہر و ماہ جو 1025 ء کی تصنیف شدہ ہے اس کے علاوہ نصرتیؔ کے بعد بھی دوسرے شعراء نے بھی اس عشقیہ افسانہ کو اپنا موضوع بنایا ۔ ان میں اہم نام حسام الدین کا بھی ہے جو حصار کے باشندے تھے ۔ انہوں نے فارسی میں مثنوی حسن و عشق 1071ھ میں تصنیف کی تھی ۔ اب بات یہ ذہن میں آتی ہے کہ اتنے سارے شعراء اس قصہ کو نظم کرچکے ہیں تو پھر نصرتیؔ نے اس کہانی میں نیاپن اور جدت بیانی کے گل کھلائے ہیں تو اس امر پر یہ کہتا چلوں کہ نصرتیؔ ضرور ان سے پیشتر لکھنے والوں سے اس لحاظ سے منفرد رہے ہیں کہ انہوں نے اس قصہ کو دکنی اردو زبان میں نظم کیا ہے اور اس میں نیاپن اور انفرادیت اس لحاظ سے بھی ہے انہوں نے اس قصہ کو اپنے گرد و پیش کے ماحول اور وقت کے ساتھ جوڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ نصرتیؔ پندرھویں صدی کے نصف اول میں بقید حیات تھے اس بابت اس مثنوی میں اس وقت کے سیاسی ، سماجی اور معاشرتی حالات کامنظر ، پس منظر اور پیش منظر کو ضرور پیش نظر رکھا گا ۔ صدیاں بیت جانے کے باوجود سماج میں فرد کے خیالات میں خاطر خواہ تبدیلیاں نہ آسکیں ۔
کفتا سخت محنت کا اب گل گیا
سرکچکول ثابت تو کل گیا
چڑایا سوتن پر قناعت کی اک
سنکے کرلیا آ، کے دم کی ہاک
صبوری کے سورے دیا گوش کوں
کیا حلم زنبیل ادک ہوش سوں
یو راحت کو دنیا کی مرگان کر
لیا راکھنے یگ تلین آن کر
کمر بستہ ہمت کا بھاری کیا
اٹل قصہ کے ہت موتاری کیا
دھرن جلد ہر کام میں تیزپات
لیا خوش خیالاں کے چیلے سنگات
نصرتیؔ نے اس مثنوی میں اردو اور فارسی کی بیشتر مثنویوں کی طرز پر دیوی ، دیوتاؤں ، پریوں اور (Super Natural Elements) جیسے عناصر کا ذکر کیا ہے ۔ لیکن نصرتیؔ کا طرز ادا اور پیشکش دوسروں سے جدا نظر آتا ہے ۔ واقعات اور کرداروں کی مناسبت ابواب کو اشعار کی مناسبت سے تقسیم کیا گیا ہے ۔

تنا صانع کی ہے جن اس کتاب عشق کا بانی
دیا ہے حسن کون خلعت کو ہر یک جذبہ عنوانی
رکھیا ہوں گلشن عشق اسم اس رنگین قصے کا میں
کرے جس چھب کے پھولاں کی فلک شوقوں سے گلدانی
اس طرح نصرتیؔ اس قصے میں جو واقعات اور حقائق کی ترجمانی کی ہے وہ اس وقت شاید رائج بھی رہے ہیں اور عوام اور خاص ان دونوں طبقات کا تعلق ان روایات عقیدہ بھی رہا ہوں اور ہوسکتا ہے یہ محض نصرتیؔ کی تخیل کارفرمائی ہو ، لیکن ایک ادیب اور شاعر کا جس سماج اور عہد سے تعلق ہوتا ہے وہ اس عہد کے اثرات سے متاثر ضرور ہوتا ہے اس لحاظ سے مثنوی گلشن عشق کے واقعات اور اس کے کرداروں کی طرز زندگی میں ہیں اس وقت کی سماجی زندگی اور معاشرتی سوچ و فکر سے بھی آشنا کرواتی ہے اور ان روایات اور customs کو بھی آج کے تناظر میں دیکھا جانا ممکن محسوس ہوتا ہے ۔
نہ کسی سات کہنا مجھے بات بھاے
نہ کوئی بات بولے تو سن خوش لگاے
دسے دیس تو سن اندھاری مجھے
دین کالے دوزخ تھے کاری مجھے
کہ مت پھر پڑے خواب دندی سوں سنگ
سٹے پھر کے خرمن میں من کے اننگ
قدیم دکنی شاعر نصرتیؔ اپنی مثنوی گلشن عشق جو پیشتر لکھی گئی مثنوی سے ماخوذ تھی لیکن وہ اپنے تجربات اور تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعہ اس مثنوی کو برتر اور اعلی مقام دلوایا ، اور اس قصہ میں ان روایات کو بڑی فنکاری سے سمودیا جو اس وقت رائج تھے ۔ اس مثنوی میں بھی دوسری قدیم مثنوی کی طرز پر مختلف مہمات اور کسی قیمتی چیز کی تلاش بسیار میں مصیبتوں اور آزمائشوں سے نبرد آزما ہونے کے عمل کو بیان کیا گیا ہے ۔ اس کہانی کے واقعات میں انسانی خواہشات ، سماجی اقدار ، ہمدردی ، حسد اور قدیم طرز زندگی کے رموز کو پیش کیا گیا ہے ۔ نصرتیؔ اس مثنوی میں حمدیہ اشعار ، مناجات ، نعت ، حضرت بندہ نواز کی تعریف ، بادشاہ کی مداح (علی عادل شاہ) ، عقل کی تعریف ، عشق کی مدح ، فقیر کا بیان ، باغ کا سماں ، صبح ، چاندنی کی کیفیت ، فراق کی کیفیت ،کشتی کی روانی ، سردی کا بیان اور باغ کی سیر کی منظرکشی میں وسعت معلومات اور زبان پر قدرت کا عملی ثبوت پیش کیا ہے ۔ لکھتے ہیں۔

درونے کا ات فکرسوں کھود کھن
نکالیا ہوں کئی رنگ برنگی رتن
جسے گل ہے نزاکت کا نول اس بن میں
یک رنگ پیالا رہے اپس فن میں
ہو طبع معطر دے رنگین نظر
جن سیر کرے عشق کے اس گلشن میں
یہ مثنوی نصرتیؔ کے شاعرانہ تخیل کی وضاحت کرنے کے علاوہ ان کے ہاں ٹھیٹ دکنی زبان کا استعمال ہے اور اس زبان میں ایک نئے رنگ و آہنگ کے موجد رہے ۔ انہوں نے اپنے کلام میں ان موضوعات کو برتا جو ان سے قبل ناپید تھیں دکھنی نصرتیؔ سے قبل ایک بے مایہ زبان سمجھی جاتی تھی انہوں نے اس زبان میں ایک نئی روح اور ایک نئی شان پیدا کی ہے ۔