نشانی

ڈاکٹر محبوب فرید
بزنس کمیونٹی میں بچوں کی شادی کم عمری میں کردی جاتی ہے ۔ عام لوگوںکی طرح انہیں اخبار میں اشتہار دینے کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ میاریج بیورو کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ بازار میں ان کا کاروبار ہی ان کی شناخت ہوتی ہے ۔ عام طور پر وہ ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں۔ ہزاروں کا نہیں بلکہ لاکھوں کا کاروبار، ’’زبان‘‘ پر ہوجاتا ہے اور اگر کوئی کسی مشکل میں پھنس جائے تو سب مل کر مدد کرتے ہیں اور کرنے والے کو سنبھال لیتے ہیں۔ شہر میں داؤد سیٹھ کے کئی قسم کے کاروبار تھے لیکن ان کی شناخت ڈیری فارم سے تھی ۔ لاکھوں کا کاروبار تھا ۔ ڈیری فارم میں سو سے زیادہ آدمی کام کرتے تھے ۔ جو دودھ بچ جاتا تھا ، اس سے دہی اور دہی سے دیگر کئی چیزیں بنائی جاتی تھیں۔ اب ان کے پراڈکٹ شہر کے علاوہ نواہی علاقوں میں بھی سربراہ کئے جارہے تھے ۔ یوں تو داؤد سیٹھ گاؤں سے ایک بھینس ہی لے کر شہر آئے تھے ۔ ابتداء میں سیکل پر جاکر گھروں اور ہوٹلوں میں دودھ ڈالتے تھے ۔ ان کی دن رات کی محنت سے ایک سے دو بھینس ہوئیں دو سے چار اور اب چار سو سے زیادہ بھینس تھیں لیکن ان میں تکبر نام کو نہیں۔ آج بھی ڈائری فارم میں وہ بہ نفس نفیس کام کرتے تھے ۔ یہی ان کی کامیابی کا راز ہے کہ دولت ان کے گھر کا راستہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر آرہی تھی۔
داؤد سیٹھ کی بیوی حلیمہ بھی بڑی نیک، سمجھدار اور معاملہ فہم خاتون تھیں۔ صدقہ خیرات کے لئے تو ان کے دونوں ہاتھ دن رات کھلے رہتے تھے ۔ مگر وہ اولاد کی خوشی سے محروم تھیں۔ کئی بار ان کا گود ہرا ہوتے ہوتے رہ گیا ۔ اللہ کی مرضی اللہ ہی جانے ۔ ابراہیم سیٹھ اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کیلئے گئے ۔ وہاں خوب دعائیں کی ۔ اللہ نے ان کی دعائیں قبول کرلیں۔ لڑکا ہوا تو گھر میں خوشیوں کے شادیانے بج گئے ۔ بیٹا تو ماں کی جان تھا ۔ کامران کی غوں غاں نے میاں بیوی کو اللہ کا اور بھی شکر گزار بنادیا ۔ رمضان میں ان کے گھر غریبوں کو سحری اور افطار کا انتظام کیا جاتا تھا ۔ زکوٰۃ اور صدقات کی تقسیم دن رات چھپے کھلے جاری رہتی تھی ۔شہر کے نامور مذہبی اور سیاسی قائدین کیلئے علحدہ افطار پارٹی کا بندوبست کیا جاتا تھا ۔ اس طرح شہر میں ابراہیم سیٹھ کی ایک نیک اور سخی انسان کی حیثیت سے شناخت بن چکی تھی ۔
ایک بیٹا ہوتے ہی دوسرے سال حلیمہ کے گھر ایک اور ننھی پری آگئی جو باپ کے دل کا چین اور سکون بن گئی ۔ تھوڑی بڑی ہوئی تو اسکول سے سیدھا باپ کے آفس پہنچ جاتی تھی ۔ اللہ تعالیٰ دولت کے ساتھ ساتھ اولاد کا سکھ چین بھی عطا فرما رہا تھا ۔ مگر اللہ کی سنت تو آزمائش ہے نا …۔
کامران دیکھتے ہی دیکھتے جوان ہوگیا ۔ اسکول کالج کی پڑھائی مکمل کرلی تو دوستوں نے اسے لندن سے ایم بی اے کرنے کا مشورہ دیا تاکہ باپ کے کاروبار کو چار چاند لگا سکے ۔ پڑھائی مکمل کر کے کامران باپ کے کاروبار کو مزید فروغ دینے میں جٹ گیا ۔ صبح سے شام تک آفس میں کام کرتا رہتا ۔ اس کی وجہ ابراہیم سیٹھ کے ڈیری فارم کے علاوہ دیگر کاروبار بھی وسیع ہوتے گئے ۔ ان کے پراڈکٹس کی مانگ پورے ملک میں بڑھنے لگی ۔ جب دولت آتی ہے تو چھپر پھاڑ کر آتی ہے۔ جہاں گڑھا ہوتا ہے وہیں پانی جمع ہوتا ہے ۔ مگر آدمی تو کمزور پیدا ہوا ہے ۔ ایک خواہش پوری ہوتے ہی اس کی جگہ دوسری آجاتی ہے ۔ یہ سلسلہ تو کہیں رکتا ہی نہیں۔
ایک دن کامران آفس میں کام کے دوران چکراکر گر پڑا ۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے بلڈ پریشر کم ہوگیا تھا ، اس لئے چکر آگئے ہیں۔ ڈاکٹر نے داؤد سیٹھ کو تنہائی میں کامران کے بہت سارے طبی معائنے کروانے کا بھی مشورہ دیا جس میں بلڈ ٹسٹ کے علاوہ برین اسکائننگ بھی شامل تھا ۔ دوسرے دن کامران پوری طرح نارمل ہوگیا۔ سب لوگ اس حادثہ کو معمولی واقعہ سمجھ کر بھول گئے ۔ ڈاکٹر نے جو معائنے کروانے کیلئے کہا تھا اس کو یکسر نظر انداز کردیا ۔ چند دنوں کے وقفے کے بعد پھر ایسا ہی واقعہ پیش آیا تو سب کے ہوش اڑگئے ۔ ڈاکٹر کو طلب کر کے سارے طبی معائنے کروائے گئے۔ داؤد سیٹھ کے حاشیہ برداروں نے مشورہ دیا کہ اس بات کو صیغہ راز میں رکھ کر کامران کی جلد سے جلد شادی کردینی چاہئے ۔ لڑکے اور لڑکیوں کی شادی میں تاخیر ہو تو بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ کسی نے کہا جن بھوت پریت کے اثرات سے بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔
داؤد سیٹھ اور حلیمہ نے طئے کیا کہ کامران کی جلد سے جلد شادی کردیں گے ، چنانچہ لڑکی کی تلاش شروع ہوئی ۔ سیٹھ سرفراز حسین جو شہر کے نامور کپڑوں کے بیوپاری تھے، نے اپنی بیٹی دینے کیلئے رضامندی ظاہر کی جو ڈینٹل سرجن تھی۔ نہ کسی نے اسمِ نویسی پوچھی اور نہ کسی نے نام نویسی ۔ شہر میں دنوں کانام ہی ان کی پہچان تھی ۔ حد تو یہ کہ دونوں طرف سے کسی نے بھی دریافت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ رشتہ داروں کے ساتھ دو تین نشستوں میں ساری باتیں طئے ہوگئیں۔ دن ، تاریخ اور مقام کا تعین بھی ہوگیا اور ایک ہفتہ کے اندر بڑے دھوم دھام سے شادی ہوگئی ۔ آج کے دور میں آدمی کے پاس پیسہ ہو تو کیا نہیں ہوسکتا۔ شہر کے بڑے بڑے تاجر، سیاسی ومذہبی قائدین ، دوست احباب اور رشتہ داروں سے شادی خانہ بھرا تھا ۔ ہرسورنگ و نور تھا اور ہمہ اقسام کے کھانوں کی خوشبو …۔ کامران کو عقد نکاح سے قبل بھی چکر آرہے تھے مگر اللہ نے لاج رکھ لی ۔ عقد ہوتے ہی مبارکبادیوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔دولہا اور دولہن پر خدا کا خاص نور برس رہا تھا ۔ دولہن بہت خوش تھی اور دولہا بھی خوش تھا مگر کچھ تھکا تھکا سا دکھائی دے رہا تھا کیونکہ کامران کا خون اندر ہی اندر سفید ہورہا تھا ۔ اس کا علم کسی کو نہ تھا ۔ سوائے چند لوگوں کے …!!
اولاد کی خاطر آدمی کیا نہیں کرتا ؟ داؤدسیٹھ جیسے نیک شخص کے پیر بھی اولاد کے پیار میں ڈگمگا گئے اور حلیمہ جیسی دین دار خاتون بھی اپنے بیٹے کو موت کے قریب دیکھتے ہوئے بھی نوشین جیسی خوب صورت ، تعلیم یافتہ اور دولت مند باپ کی بیٹی کا مقدر داؤپر لگانے آمادہ تھی ۔ نوشین چند دنوں کیلئے میکے چلی گئی ۔ ایک ماہ بعد نوشین نے کامران کو خوشخبری سنائی کہ وہ بہت جلد باپ بننے والے ہیں۔ کامران تھوڑی دیر کیلئے سکتہ میں آگیا ۔ اب نوشین کو کون بتائے ، کیسے بتائے کہ ملک الموت کے قدم آہستہ آہستہ کامران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کی زندگی کے چراغ کی لو مدھم پڑ رہی ہے۔ ایک دن کامران آفس جانے کی جلدی میں ٹک ٹائی باندھ رہے تھے کہ وہ چکرا کر گر پڑے تب نوشین کا ماتھا ٹھنکا۔ نوشین نے اس واقعہ کا ذکر اپنے دوستوں سے کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ کامران کے پورے طبی معائنے کروائیں ۔ مگر اب کیا فائدہ کامران بلڈ کینسر میں پوری طرح مبتلا ہوچکا تھا اور زندگی کے دن گن رہا تھا ۔
آخر کار کامران کو کینسر ہاسپٹل میں شریک کروادیا گیا ۔ لوگ کہنے لگے بیوی کا قدم اچھا نہیں ہے ۔ کامران کو شادی راس نہیں آئی ۔ کسی نے کہا باپ کیلئے دولت کماتے کماتے بیٹا موت کے منہ میں چلا گیا ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ خون کے کینسر (لیو کیمیا) کے مریض کا عرصہ حیات ہر لمحہ تنگ ہوتاجاتا ہے ۔ دو مہینے کی بیماری کے بعد کامران اللہ کو پیارا ہوگیا ۔ نوشین کامرانی کی نشانی لیکر عدت کے دن پورے کر رہی تھی۔ خدا کی قدرت کا کمال دیکھئے۔ نوشین کولڑکا ہوا جو ہوبہو کامران ہی کامران تھا۔ بڑا کامران دنیا سے گیا تو اللہ نے چھوٹے کامران کو بھیج دیا۔ اداس گھر میں دوبارہ خؤشیوں کے شادیانے بج گئے ۔ نوشین بس اسی کو دیکھ کر جی رہی تھی۔