نریندر مودی اور نینسی پاویل کی ملاقات، امریکہ کا داخلی معاملہ

نئی دہلی ۔ 13 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ کی سفیر نینسی پاویل کی چیف منسٹر گجرات نریندر مودی سے ملاقات کو امریکہ کا ’’داخلی اصلاح‘‘ کا معاملہ قرار دیتے ہوئے بی جے پی نے آج حکومت پر تنقید کی کہ اس کی خارجہ پالیسی کی ’’ناکامی‘‘ کی وجہ سے وہ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہی کہ اس معاملہ سے کیسے نمٹا جائے۔ اپوزیشن پارٹی نے وزیرخارجہ سلمان خورشید کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوستان میں ایک منتخبہ نمائندے کے وقار کا تحفظ کرنے سے ناکام رہے اور اب وہ مودی اور پاویل کی ملاقات پر ’’پریشان‘‘ ہورہے ہوں گے۔ ہند ۔ امریکہ تعلقات کے بارے میں قائد اپوزیشن راجیہ سبھا ارون جیٹلی نے کہا کہ تمام فریقین کو احساس ہوجانا چاہئے کہ سیاستدانی اور تحمل کے سلسلہ میں مبالغہ آرائی ناممکن ہے کیونکہ اس سے تعلقات کا توازن بگڑ جاتا ہے۔

انہوں نے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا کہ امریکی انتظامیہ کا چیف منسٹر گجرات سے ربط بحال کرنے کا فیصلہ ایسا معلوم ہوتا ہیکہ ان کے ہندوستان کی داخلی صورتحال کا ازخود تجزیہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ میں امریکی انتظامیہ کے داخلی اصلاح کے کام کی قدر کرتا ہوں۔ بی جے پی قائد نے کہا کہ سابقہ فیصلہ ہندوستان کے منتخبہ نمائندہ سے ربط برقرار نہ رکھنے کا ایسا معلوم ہوتا ہیکہ عدالت کے فیصلوں یا ناقص شہادتوں پر مبنی تھا۔ یہ مبالغہ آرائی پر مبنی ذرائع ابلاغ کے پروپگنڈہ سے متاثر تھا۔ علاوہ ازیں بعض این جی اوز نے یہ تاثر پیدا کیا تھا۔ بعض ممالک کے مودی کے ساتھ روابط کے بارے میں سابقہ فیصلہ کو ہندوستانی خارجہ پالیسی کی ’’ناکامی‘‘ قرار دیتے ہوئے ارون جیٹلی نے کہاکہ وزارت خارجہ کی ذمہ داری تھی کہ کسی اعتراض کے بغیر امریکہ کے اقدام پر ردعمل ظاہر کرتی لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ مودی اور پاویل کی آج کی ملاقات پر سلمان خورشید کے ردعمل کے بارے میں جیٹلی نے کہا کہ وزیرخارجہ جن کو ہندوستان کے منتخبہ نمائندوں کے وقار کا تحفظ کرنا چاہئے تھا۔

ایسا معلوم ہوتا ہیکہ اس ملاقات کے بعد ’’پریشان ہوگئے ہیں‘‘۔ وزیرخارجہ سلمان خورشید کا اس ملاقات پر ردعمل خود اس بات کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس آج بڑی حد تک پست حوصلہ ہوچکی ہے اور نوشت دیوار اس پر واضح ہوچکا ہے کہ وہ اپنی مکمل ’’بیخ کنی‘‘ کی سمت پیشرفت کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریسی قائدین کا تکبر ہنوز برقرار ہے۔ اس تکبر کی جھلک گذشتہ چند گھنٹوںمیں ان قائدین کے ردعمل سے نظر آتی ہے۔ 2002ء کے مسلم کش گجرات فسادات کے بعد مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں کی بنیاد پر امریکہ نے نریندر مودی کو امریکہ کا ویزا جاری کرنے سے انکار کردیا تھا اور نریندر مودی امریکی کالج کے ایک جلسہ میں بھی شرکت کرنے سے قاصر رہے تھے اور انہیں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ طلبہ سے خطاب کرنا پڑا تھا۔