نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کریمین

سوال : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں ۔ وہ کون تھے ؟ ان کے صفات کیسے تھے اور ان کی شان کیسی تھی؟
اسلامی بہن
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداللہ اور آپ کی بہن امہ حکیم بیضاء جڑواں پیدا ہوئے تھے ۔ حضرت عبداللہ اپنے والد کے بڑے لاڈلے اور محبوب تھے، وہ حسن سیرت اور حسن صورت کا بڑا حسین امتزاج تھے، ان کے اخلاق حمیدہ ، اوصاف جمیل اور پاکبازی کا پورے مکہ میں شہرہ تھا ۔ اٹھارہ سال (اور بعض نے پچیس سال یا کم و بیش بھی لکھے ہیں) کی عمر میں حضرت عبدالمطلب نے بنو زہرہ کی نیک اور پاکباز خاتون حضرت آمینہ بنت وھب بن عبدالمناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ سے حضرت عبداللہ کا نکاح کردیا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت آمنہ کے دادا عبدالمناف اور حضرت عبدالمطلب کے دادا عبد مناف دو الگا لگ شخصیتیں ہیں۔ حضرت آمنہ کے دادا عبد مناف بن زہرہ ہیں اور حضرت عبدالمطلب کے دادا عبد مناف بن قصی ہیں۔ قصی اور زہرہ دونوں بھائی اور کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب کے بیٹے ہیں۔ یوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ددھیال اور ننھیال دونوں کلب بن مرہ پر باہم مل جاتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ طہارت نفس ، شرافت نسب ، عزت و وجاہت، عفت و عصمت اور پاکبازی میں بے مثال تھیں اور اپنی قوم میں سیدۃ النساء کے لقب سے مشہور تھیں۔ بقول ابن کثیر (السیرۃ النبویۃ، 177:1 ) وھی یومئذ سیدۃ نساء قومھا یعنی حضرت آمنہ اس وقت اپنی قوم میں خواتین کی سردار تھیں اور بقول الطبری (تاریخ 174:2 ) وھی یومئذ افضل امرأۃ من قریش ۔ یعنی حضرت آمنہ اپنے زمانے میں قریش کی سب سے زیادہ فضیلت مآب اور محترم خاتون تھیں۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد حضرت عبداللہ ملک شام سے تجارتی قافلہ کے ساتھ واپس ہورہے تھے ۔ بیمار ہونے پر راستے میں یثرب (مدینہ منورہ) میں اپنے والد کے رشتہ دار بنو عدی بن النجار کے پاس مقیم رہے اور وہیں وفات ہوئی اور دارالنابعۃ میں تدفین عمل میں آئی ۔ حضرت عبداللہ کی وفات کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علہ وسلم مادر شکم میں تھے۔اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھ برس کے ہوئے تو آپ کی والدہ نے آپ کے دادا کے ننھیال والوں سے ملاقات کرانے کیلئے یثرب (مدینہ منورہ) لائیں۔ وہاں ایک ماہ قیام کے بعد واپس لوٹیں تو بیمار ہوئیں اور مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام ابواء میں انتقال کر گئیں اور وہیں مدفون ہیں۔

زبردستی طلاق کے بعد رجوع کرنا
سوال : میرے لڑکے نے اپنی نافرمان بیوی کی زبان درازی سے تنگ آکر قاضی سے رجوع ہوتے ہوئے ایک طلاق (رجعی) دیا تھا اور طلاقنامہ بیوی کے گھر کو پہنچادیا ، وہ لوگ بات چیت کے بہانے سے میرے لڑکے کو بلائے اور وہاں سب مل کر بچے کو رجوع کرنے پر مجبور کرنے لگے اور بچہ ان لوگوںکی دھمکیوں سے پر یشان ہوکر رجوع کرلیا جبکہ وہ اپنی بیوی کو رجوع کرنا چہتا نہیں تھا ،’ اس نے دل سے رجوع نہیں کیا۔
کیا ایسی صورت میں وہ لڑکی میرے بچے کے نکاح میں ہے یا نہیں ہے۔
قیصر خان، ملے پلی
جواب : شوہر اپنی بیوی کو ا یک یا دو طلاق رجعی دے تو اندرون عدت رجوع کرنے کا حق رہتا ہے اور اگر وہ رجوع کرلے تو دونوں میں رشتہ نکاح بدستور باقی رہتا ہے۔ اور اگر وہ اندرون عدت (تین حیض) رجوع نہ کرے تو عدت ختم ہوتے ہی دونوں میں تفریق ہوکر رشتہ نکاح منقطع ہوجاتا ہے اور وہ زبان سے رجوع کرے تو دل کے ارادہ یا نیت کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اس لئے اگر وہ زبردستی ، مجبوری میں یا دل لگی میں رجوع کرے تو رجوع ثابت ہوجائے گا اور وہ دونوں میاں بیوی برقرار رہیں گے ۔ در مختار جلد 3 کتاب الطلاق باب الرجعۃ ص : 437 مطبعہ دالرالفکر بیروت میں ہے : وتصح مع اکراہ و ھزل و لعب خطا (بنحو) متعلق با ستدامۃ ( راجعتک وردوتک و مسلتک) بلانیۃ لأنہ صریح۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں آپ کے فرزند نے زبردستی اپنی بیوی کو رجوع کیا ہے تو رجوع ثابت ہوچکا ہے ، دونوں میں رشتہ نکاح برقرار ہے ۔ کیونکہ جب آدمی صریح الفاظ سے رجوع کرلیتا ہے تو دل کے ارادہ کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔

کیا بیوی شوہر کو نماز کی ترغیب دے سکتی ہے؟
سوال : میں بچپن سے صوم و صلوٰۃ کی پابند ہوں، شادی کے بعد بھی ہمیشہ نماز، روزہ ، گوشہ پردہ کا اہتمام کرتی آرہی ہوں، لیکن میرے شوہر نماز کا اہتمام نہیں کرتے، شادی کے بعد جب میں نماز کے بارے میں کہتی تھی تو وہ کبھی کبھی نماز پڑھ لیا کرتے تھے لیکن بعد میں انہوں نے میری بات سننا بھی چھوڑ دیا۔ اب تو حالت یہ ہے کہ اگر میں نماز کے بارے میں کہتی ہوں تو ہم دونوں میں جھگڑا ہوجاتا ہے ۔ اس لئے میں نے ان کو نماز کے بارے میں کہنا ہی چھوڑ دیا ۔ مجھے آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ کیا مجھے نماز کی ترغیب نہ دینے پر گنا ہوگا یا کیا حکم ہے ۔ اسی طرح میرے بھائی کی اہلیہ بھی نماز نہیں پڑھتی، بھائی سمجھا سمجھا کر تھک گئے آخر میں ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیئے ۔ کیا بیوی نماز نہ پڑھے تو شوہر سے باز پرس ہوگی یا نہیں ؟
روبینہ فاطمہ، سکندرآباد
جواب : نماز ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد و عورت پر فرض ہے ، اس کا ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے ، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے ۔ اس لئے سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود نماز کا اہتمام کریں اور دوسروں کو بھی نماز کی ترغیب دیں۔ بیوی اگر نماز کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کو ترک نماز پر زجرو تو بیخ کرے اور نماز کے اہتمام کی تلقین کرے اور اگر شوہر نماز سے متعلق لاپرواہ ہو تو بیوی کی بھی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ شوہر کو حسن و خوبی سے نماز کی اہمیت اور اس کی فضیلت کو بیان کرے اور ترک نماز کی وعیدیں اور اس کے نقصانات کو اجاگر کرے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر عاقل و بالغ شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہے ، شوہر کے عمل سے متعلق بیوی سے اور بیوی کے عمل سے متعلق شوہر سے سوال نہیں ہوگا۔ البتہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر(نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنے) سے متعلق باز پرس ہوگی اور جو امر بالمعروف کے فریضہ کو ادا کردے وہ بری الذمہ ہے۔ اگر بیوی یا شوہر کو نماز کی تلقین کرنے پر جھگڑا ہونے کا امکان ہو ، شوہر کی تلقین پر بیوی کے عمل نہ کرنے کا یقین ہو اس وجہ سے وہ امر بالمعروف کو ترک کردے تو اس سے باز پرس نہیں ہوگی ۔ تاہم موقعہ محل کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترغیب دینی چاہئے ۔ رد المحتار جلد اول کتاب الطھارۃ کے اختتام پر مطلب فی الأمر بالمعروف میں ہے : وان علم انہ لا یتعظ ولا ینزجربالقول ولا بالفعل ولو باعلام سلطان اوزوج او والدلہ قدرۃ علی المنع ‘ لا یلزمہ ولا یاثم بترکہ لکن الامر والنھی افضل۔

نماز فجر میں سردی کی بناء تیمم
سوال : میں صوم و صلوۃ کی بچپن سے پابند ہوں۔ حالیہ عرصہ میں بیمار ہوئی تھی، الحمد للہ اب بہتر ہوں، بسا اوقات فجر کے وقت سردی محسوس ہوتی ہے تو کیا ایسے وقت میں مجھے تیمم کی اجازت مل سکتی ہے یا مجھے وضو کرنا چا ہئے۔
عالیہ بیگم، پھسل بنڈہ
جواب : سردی کی وجہ سے تمام ائمہ کے اجماع کے مطابق تیمم کرنا صحیح نہیں، البتہ اتنی سخت سردی ہو کہ جس کی وجہ سے عضو کے تلف ہوجانے کا اندیشہ ہو یا بیماری کے بڑھنے کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں تیمم کرنا درست ہے۔ نفع المفتی والسائل ص : 14 میں ہے : اذا الم تخف فوات العضو اوزیادۃ المرض وغیرہ من الاعذار المرخصۃ للتیمم لا یجوز التیمم بمجرد شدۃ البرد بالا جماع من خزانۃ الروایۃ عن الغیاثیۃ۔
لہذا حسب صراحت صدر آپ عمل کریں۔ تاہم سردی کے موقع پر آپ پانی گرم کر کے وضو کرلیا کریں تو بہتر ہے۔

الکٹرانک تسبیح کا استعمال
سوال : ہمارے بچپن میں تسبیح کا استعمال عام تھا ، سو دانے اور ہزار دانوں کی تسبیح ہوا کرتی تھی، اب الیکٹرانک تسبیحات آرہی ہیں اس میں صرف بٹن دبانا ہوتا ہے اور بعض فونوں میں تسبیحات کی سہولت ہوگئی ۔ شرعاً اس طرح کا استعمال جائز ہے یا نہیں ؟
مزمل حسین، شکاگو، ای میل
جواب : تسبیح کے استعمال میں ازروئے شرع کوئی ممانعت نہیں ہے ، اس سے محض گنتی مقصود ہوتی ہے اور بعض احادیث م یں متعینہ تعداد میں تسبیح و دیگر اذکار کی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ ابو داؤد ترمذی میں وارد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاحظہ فرمایا کہ ایک خاتون کے روبرو چندگٹھلیاں اور کنکریاں ہیں اور وہ ان کے ذریعہ تسبیح پڑھ رہی ہیں تو نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں تم کو اس لئے آسان اور فضیلت والاراستہ بتاتا ہوں ۔ سبحان الہ عدد ما خلق فی السماء ، سبحان اللہ عدد ما خلق فی الارض سبحان اللہ عدد مابین ذلک و سبحان اللہ عدد ما ھو خالق والحمدللہ مثل ذلک واللہ اکبر مثل ذلک ولا الہ الا اللہ مثل ذلک۔
(ترجمہ سبحان اللہ(اللہ پاک ہے) اتنی تعداد میں جتنی آسمان کی مخلوقات ہیں۔ سبحان اللہ (اللہ پاک ہے) اتنی تعداد میں جتنی ز مین کی مخلوقات ہیں۔ سبحان اللہ (اللہ پاک ہے) اتنی تعداد میں جتنی تعداد اسمان و زمین کے درمیان مخلوقات کی ہیں ۔ سبحان اللہ (اللہ پاک ہے) اتنی مقدار میں جتنی مخلوقات پیدا ہونے والی ہیں۔ الحمدللہ (تمام تعریف اللہ کیلئے ہے ) اس کے برابر اور اللہ اکبر (اللہ ہی بزرگ ہے) اس کے مثل اور لا الہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) اس کے مثل ۔
پس مذکورہ حدیث شریف سے استدلال کرتے ہوئے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کو گٹھلیوں اور کنکریوں سے گنتی شمار کرنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ ارشاد فرمایا کہ اس سے آسان طریقہ بتاتا ہوں۔ اس سے واضح ہے کہ مذکورہ خاتون کا طریقہ منع نہیں ہے ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے ذکر کی گنتی کیلئے تسبیح یا دیگر جدید آلات کے ذریعہ شمار کرنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ بشرطیکہ اس میں ریاکاری اور دکھاوا نہ ہو ۔ ردالمحتار جلد اول کتاب الصلوۃ صفحہ 701 مطلب فی اتخاذ المسجۃ میں ہے : و دلیل الجواز ماروا۔ ابو داود والترمذی والنسائی و ابن حبان الحاکم… فلم ینھھا عن ذلک و انما ارشد ھا الی ماھوأ یسر و افضل ولو کان مکروھا لبین لھا ذ لک۔

پیشہ وکالت اور مسلمان
سوال : کہا جاتا ہے کہ وکیل شیطان کا بیٹا ہے ، پھر کسی مسلمان کو وکالت کا پیشہ اختیار کرنا چاہئے یا نہیں۔ ہندوستان جیسے ملک میں حصول انصاف کیلئے عدالت کو جانا پڑتا ہے پھر مسلمانوں کی وکالت کون کرے۔ شرعی نقطہ نظر سے پیشہ وکالت اختیار کرنا درست ہے یا نہیں ہے؟
محمد ندیم صوفی، منگل ہاٹ
جواب : پیشہ وکالت معزز پیشہ ہے ، اس کے ذریعہ سے حق کو حاصل کیا جاتا ہے اور باطل و ناحق کو رد کیا جاتا ہے ۔ مظلوم کی مدد کی جاتی ہے ، محروم کو اس کا حق دلوایا جاتا ہے جو شرعاً محمود و پسندیدہ ہے۔ پیشہ وکالت کی تحصیل میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔ البہ پیشہ وکالت متہم ہے۔ اس کے بالعموم غلط استعمال کی وجہ سے اس کو ناپسند کیا جاتا ہے لیکن فی نفسہ اس کے جواز میں کوئی کلام نہیں، اگر کوئی غلط استعمال کرے تو وہ گنہگار ہے ۔ آخرت میں بھی ماخوذ ہوگا ۔ بالعموم وکلاء دنیاداری کے لئے حق کو ناحق ، ناحق کو حق ظاہر کرتے ہیں، جھوٹ ، دھوکہ مکر ، فریب ، جعلسازی سے کام لیتے ہیں۔ وہ یقیناً قابل مذمت ہیں۔ اہل اسلام کو چاہئے کہ وہ پیشہ وکالت کی طرف مائل ہوں، عدل و انصاف اور احقاق حق کیلئے اپنے آپ کو وقف کریں، ناحق کو قانونی جواز دینا اور حق کو مغلوب کرنا دہرے گناہ سے کم نہیں ۔