نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورمرحومین کی جانب سے قربانی

سوال :   اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ بقرعید کے موقع پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور مرحومین کی طرف سے قربانی کرتے ہیں ۔ بعض اس کو منع کرتے ہیں اور اکثر اس پر عمل کیا جاتا ہے ۔ اسلامی نقطہ نظر سے اس طرح کا عمل ہمیں کرنا چاہئے یا نہیں ؟
حافظ محمد عدیل صدیقی، مراد نگر
جواب :   امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ دو دنبوں کی قربانی کیا کرتے تھے، ایک صحابی نے دریافت کیا کہ آپ دو دنبوں کی قربانی کیوں کرتے ہیں ؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے بھی قربانی کیا کروں ۔ اس لئے میں ایک قربانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے کرتا ہوں۔ عن حنش قال رایت علیا ضحی بکبشین فقلت لہ ماھذا ؟ فقال ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او صانی ان اضحی عنہ فانا اضحی عنہ ۔ حضرت حنشؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علیؓ کو دیکھا کہ انہوں نے دو دنبوں کی قربانی دی میں نے عرض کی کہ یہ کیا ہے ؟ حضرت علیؓ نے فرمایا بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے قربانی کروں ! تو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے بھی قربانی کیا کرتا ہوں ۔ (ترمذی ج 1 ، ابو داؤد)
بعض لوگ آج بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی دیتے ہیں، اگر وہ لوگ اپنی قربانی ادا کرتے ہوئے حضورؐ کی جانب سے دے رہے ہیں تو بہتر ہے (جیسا کہ حضرت علیؓ کا عمل تھا) اور باعث خیر و برکت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی تمام امت کی جانب سے قربانی کی تھی ۔ بعض لوگ جن پر قربانی واجب ہوتی ہے ، واجب قربانی اپنی جانب سے دینے کے بجائے پہلی مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے دیتے ہیں، اس کے بعد کے سال اپنے نام سے دیتے ہیں، تو ان کے ذمہ جو واجب قربانی ہے اس کو ترک کرنے سے گناہ لازم آئے گا بلکہ جس پر واجب ہوتی ہے وہ واجب ادا کرے اس کے بعد استطاعت ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے دے۔ مرحومین کیلئے جس طرح ایصال ثواب کے لئے تلاوتِ قرآن ، صدقہ و خیرات کرسکتے ہیں، اس طرح نفل قربانی بھی کرسکتے ہیں اور قربانی کے دنوں میں قربانی کے ذریعہ ایصال ثواب بہتر ہے۔

صاحب قربانی کا قربانی کے وقت موجود رہنا
سوال :   ہم دو سال سے گائے میں حصہ لے رہے ہیں، میں اپنی اور اہلیہ کی جانب سے قربانی دیتا ہوں۔ ہم ایک مدرسہ میں شریک ہوتے ہیں اور قربانی کے بعد چار پانچ بچے جاکر ہم ہمارا گوشت لالیتے ہیں۔ قربانی کیو قت ہم وہاں موجود نہیں رہتے ۔ میں نے سنا کہ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت تمام حصہ دار شریک رہنا چاہئے۔ نہیں تو قربانی نہیں ہوتی۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ قربانی کے وقت میں تو جاسکتا ہوں لیکن میری اہلیہ کا جانا مشکل ہے ، ایک تو عید کی تیاریاں رہتی ہیں۔ دوسرا وہاں خواتین کے لئے کوئی علحدہ نظم نہیں رہتا۔اس بارے میں شرعی احکام سے آگاہ فرمائیں تو مہربانی ہوگی ؟
شیخ عبدالمنعم کیفی ، عیدی بازار
جواب :  صاحب قربانی کا بنفس نفیس ذبح کرنا اولیٰ ہے اور اگر وہ ذبح کرنا بہتر انداز میں نہیں جانتا تو دوسرا  ذبح کرسکتا ہے لیکن صاحب قربانی بوقت ذبح موجود رہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی فاطمہؓ کے قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت بی بی فاطمہ ؓ سے فرمایا تم اپنی قربانی کے وقت موجود رہو کیونکہ اس کا پہلا قطرۂ خون زمین پر گرنے سے پہلے تمہاری مغفرت ہوجاتی ہے ۔ لقولہ علیہ السلام لفاطمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قومی فاشھدی اضحیتک فانہ یغفرلک باول قطرۃ من دمھا کل ذنب (بدائع الصنائع کتاب الاضحیتہ)

پہلے جانور پر بسم اللہ پڑھنا
سوال :  بعض لوگ ایک ساتھ تین چار بھائیوں کے افراد خاندان کیلئے 20 ، 25 بکرے لاتے ہیں۔ ان میں سے بعض ذبح کرنا جانتے ہیں اور بعض نہیں۔ بسا اوقات ایک ہی فرد سارے جانور ذبح کرتا ہے ۔ اگر ایک شحص پورے جانور ذبح کر رہا ہو تو کیا وہ پہلے جانور پر بسم اللہ واللہ اکبر اور قربانی کی دعا پڑھکر مابقی تمام جانوروں کو ذبح کرتے وقت یہ نیت کرے کہ یہ فلاں کی طرف سے ہے اور قربانی کردے تو کیا شرعی لحاظ سے یہ طریقہ درست ہے یا نہیں ؟ کیونکہ ہر ایک کے لئے علحدہ علحدہ دعاء کرنے میں کافی وقت لگ جائے گا۔
محمد معین، شکر گنج
جواب :  ہر جانور پر دبح کے وقت اللہ کا نام لینا لازم ہے۔ اگر کوئی ذبح کے وقت اللہ کا نام عمداً نہ لے تو ایسی صورت میں جانور حرام ہوجائے گا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔  ولاتأکلوا ممالم یذکر اسم اللہ علیہ وانہ لفسق (سورۃ الانعام آیت : 121 ) (تم ایسے جانوروں کو نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا گیا ہے کیونکہ یہ فسق ہے) اور فسق کا اطلاق حرام کے ارتکاب پر ہوتا ہے ۔ بناء بریں اگر کوئی شخص ایک ساتھ کئی ایک بکرے ذبح کرے اور پہلے بکرے پر اللہ تعالیٰ کا نام لے اور مابقی جانوروں پر نہ لے تو ایسی صورت میں پہلا جانور حلال ہوگا اور اس کو کھایا جائے گا، اور جن جانوروں پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا وہ جانور نہیں کھائے جائیں گے ۔ بدائع الصنائع کتاب الذبائح والصیود ص : 171 میں ہے ۔ و ذکر فی الاصل : ارأیت الذابح یذبح الشاتین والثلاثۃ فیسمی علی الاول و یدع التسمیۃ علی غیر ذلک عمدا۔ قال یا کل الشاۃ التی سمی علیھا ولا یأکل ماسوی ذلک لمابینا ۔

جانور کس جانب ذبح کرنا
سوال :  قربانی کے موقع پر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ جانور کو پانی پلاکر جیسا موقع ہو ذبح کردیتے ہیں لیکن شرعی نقطہ نظر سے جانور کو کسی بھی جہت ذبح کرسکتے ہیں یا اس کو قبلہ کی طرف رخ کر کے ذبح کرنا چاہئے۔
محمد مدثر خان، محبوب نگر
جواب :  شرعاً ذبح کرنے والے اور قربانی کے جانور کا قبلہ کے رخ ہونا مستحب ہے کیونکہ مروی ہے کہ صحابہ کرام جب کبھی جانور ذبح کرتے تو قبلہ کی طرف رخ کرتے اور امام شعبی سے منقول ہے کہ صحابہ ذبیحہ جانور کو بھی سمت قبلہ ذبح کرنے کو پسند کرتے تھے ۔ بدائع الصنائع کتاب الذبائح والصیود باب ما مستحب فی الذکاۃ ص :189 میں ہے : ومنھا ان یکون الذابح مستقبل القبلہ والذبیحۃ موجھۃ الی القبلۃ لما روینا ان الصحابۃ رضی اللہ عنھم کانوا اذا ذبحوا استقبلوا القبلۃ فانہ روی عن الشعبی انہ قال : کانوا یستحبون ان یستقبلوا بالذبیحۃ القبلۃ۔

جانور کے سامنے جانور ذبح کرنا
سوال :  قربانی کی عید کے موقع پر ا یک گھر میں تین چار جانوروں کی قربانی ہوتی ہے اور بکرے کو دوسرے بکروں کے سامنے ذبح کیا جاتا ہے ۔ شرعی نقطہ سے متعدد جانوروں کو ایک دوسرے کے سامنے ذبح کرنا کیا شرعی حکم رکھتا ہے۔ ایسا کرنا چاہئے یا نہیں ؟
حافظ جمیل الرحمن، بوکل کنٹہ
جواب :   ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ذبح سے قبل ہی مرنے کا نظارہ اس کے لئے موت سے کم نہیں ہوگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو ملاحظہ فرمایا کہ وہ جانور کو لٹاکر ذبح کرنے سے قبل چھری کو تیز کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لقد اردت ان تمیتھا موتات ھل حدد تھا قبل ان تضجعھا۔ (کیا تم اس کو ذبح سے قبل کئی موت مارنا چاہتے ہو تم نے اس کو لٹانے سے قبل چھری کو تیز کیوں نہیں کرلیا) اس ارشاد گرامی سے بھی واضح ہے کہ جانور کو ذبح سے قبل ایسا کوئی عمل نہیں کرنا چاہئے جس سے اس کو اس کے دبح ہونے کا احساس ہوجائے۔ اگر کوئی ا یسا عمل کرے تو اس سے جانور حرام یا مکروہ نہیں ہوگا۔ تاہم اس کا یہ عمل کراہت سے خالی نہیں رہے گا۔

عورت کی قربانی میں شوہر کا نام لینا یا والد کا
سوال :  قربانی کے بارے میں عوام الناس میں عموماً یہ خیال ہے کہ جب صاحب قربانی اپنی طرف سے قربانی کردے تو وہ قربانی کے بعد اپنے پورے بال نکال لے۔ بعض حضرات کی جانب سے یہ بات مشہور کروائی جارہی ہے ۔ شرعاً کیا حکم ہے۔ نیز دوسری الجھن یہ ہے کہ جب کسی شادی شدہ خاتون کی جانب سے قربانی کی جائے تو اس کے نام کے ساتھ اس کے والد کا نام لینا چاہئے یا اس کے شوہر کا یا اس کی والدہ کا۔
عبدالکریم ، سدی پیٹ
جواب :  شرعاً حاجی کیلئے بعد قربانی حلق کا حکم ہے۔ غیر حاجی کیلئے پورے سر کے بال نکالنا یا بال کم کرنا نہیں ہے ۔ نیز قربانی میں صاحب قربانی کے نام کے ساتھ اس کے والد کا نام لیا جائے ۔ خواہ مرد ہو یا عورت اور یہ حکم صرف صاحب قربانی کی تعیین کے لئے ہے جو نام سے بھی متعین ہے۔

صاحب نصاب کا قربانی نہ دینا
سوال :  بعض حضرات کے پاس سرمایہ ہوتا ہے وہ مالدار ہوتے ہیں اور ان کی اولاد بھی کمانے والے بیوی بچے والے ہوتے ہیں۔ ان سب کی طرف سے ایک یا دو قربانی دی جاتی ہے ۔ کیا کسی شخص پر قربانی واجب ہو اور اگر وہ قربانی نہ دے تو ازروئے شرع ایسے شخص کا کیا حکم ہے ؟
محمد عدنان، جہاں نما
جواب :  اگر کوئی صاحب نصاب ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو اس کا گناہ ہوتا ہے کیونکہ قربانی واجب ہے اور ترک واجب گناہ کبیرہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شحص کو سخت وعید سنائی ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ۔ عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : من کان لہ سعۃ ولم یضح فلا یقر بن مصلانا (ابن ماجہ، الترغیب و الترھیب للمنذری ج 2 ) حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کے پاس (قربانی کرنے کی ) گنجائش ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ حدیث شریف میں قربانی نہ کرنے والوں کے لئے یہ بہت بڑی وعید ہے کیونکہ عیدگاہ کو عید کی نماز پڑھنے کے لئے مسلمان جاتے ہیں اور جو مسلمان نہیں ہیں وہ عیدگاہ سے دور رہتے ہیں، یہ بہت سخت وعید ہے کہ مسلمان ہو اور گنجائش بھی ہو اور قربانی نہ دے ، یہ نہایت بدبختی ہے، اس لئے ہر صاحب نصاب مسلمان مرد عورت پر قربانی واجب ہے‘‘۔

قربانی سے قبل چرم قربانی فروخت کرنا
سوال :  دیکھا جارہا ہے کہ بعض لوگ قربانی سے پہلے ہی قربانی کا چرم فروخت کر رہے ہیں۔ بعض لوگ گشت کرتے ہیں اور جن کے پاس قربانی کے جانور ہوتے ہیں ان سے بات چیت کرلیتے ہیں اور قربانی کے چرم کی قیمت پہلے طئے کرلیتے ہیں۔کیا شریعت مطھرہ میں قربانی کے جانور کو ذبح کرنے سے قبل اس کے چرم کو فروخت کرنا جائز ہے۔
محمد اسمعیل ‘ وارث گوڑہ
جواب :  زندہ جانوروں کا چرم یا کوئی جزو عضو ذبح کرنے سے قبل فروخت کرنا جائز نہیں۔ عالمگیری جلد 3 کتاب البیوع میں ہے : ولو باع الجلد والکرش قبل الذبح لا یجوز فان ذبح بعد ذلک و نزع الجلد والکرش وسلم لا ینقلب العقد جائزا کذا فی الذخیرۃ۔