نایاب ہم سفر

ثریا جبین
چاروں بہنوں کو اپنے اکلوتے بھائی کی شادی کا بہت ارمان تھا ‘ کئی لڑکیاں دیکھ چکی تھیں لیکن شارق کو کوئی پسند نہ آئی تھی ‘ بہنیں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت لڑکیوں کی فوٹو بتائیں ۔
’’ یہ لڑکی تو بہت پیاری ہے ‘ رنگ روپ ‘ بوٹا سا قد ‘ شہابی رنگ ‘ تمہاری جوڑی اچھی رہے گی ‘‘ ۔ ’’ یہ بھی کوئی حسن ہے ‘ لا ل کپڑوں میں بیریوٹی لگ رہی ہے ۔ ’’ وہ کہتا ۔’’ بہت گوری ہے خاندان بھی اچھا ہے ‘ واجدہ آنٹی کی ایک ہی بیٹی ہے ۔ اتنا ڈھیر سارا جہیز تیار کر رکھا ہے ‘ ہمارا تو گھر بھر جائے ‘ بلکہ بلکہ کم پڑجائے ‘‘ وہ بڑے ناز سے کہتی ۔ ’’ تو گویا جہیز سے نکاح پڑھوائیں گی ۔
’’ اچھا وہ خالد چچا کی بیٹی ‘ وہ بھی تو بڑی حسین ہے ۔ وہ لوگ بھی کافی دولت مند ہیں ۔ ایک بیٹا ‘ ایک بیٹی ۔ بیٹی کو سونا تو تول کردیں گے ‘ پھر جہیز میں موٹر کار کے علاوہ مکمل جہیز کی بے شمار اشیاء ہوں گی ۔ ایک پلاٹ بھی لڑکی کے نام ہے ‘‘ ۔
’’ یہ تو جہیز کی نمائش ہوئی ‘ آپ لوگ مجھے رات دن جہیز کا لالچ دیتے ہو ۔ کیا آپ مجھے نکما ‘ ناکارہ سمجھتے ہیں کہ بیوی کی دولت پر عیش کروں ۔ میں کیوں لڑکی کے سامان سے اپنا گھر بھروں‘ مجھے اپنے قوت بازو پر بھروسہ ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے گھر میں بہت کچھ ہے ‘‘ ۔ پھر بھیک مانگنے کی کیا ضرورت ؟ ۔ ’’ مجھے حیرت ہے باجی پر ‘ وہ سمجھتی ہیں ‘ بھائی خوش رہے نہ رہے ‘ بھیک کے سامان سے گھر تو بھرجائے‘‘ ۔
شارق جہیز کی سختی سے مخالفت کرتا لیکن بہنیں شہر کی حسین سے حسین مالدار لڑکی کو دیکھ آئیں اور شارق کو مجبور کر نیںکہ دیکھو کتنی اچھی لگ رہی ہے ۔ پھر مال دولت سب کچھ ہاتھ آئے گا ۔ ’’ شارق اعتراض کرتا تو کہتی ’’ ہم تو نہیں مانگ رہے ہیں ‘ اب اگر کوئی خود سے دینا چاہے تو لینے میں کیا حرج ہے ‘‘ ۔ شارق کے پاپا بھی لین دین ‘ جہیز کے خلاف تھے ‘ سیدھے سادھے مسلمان توکل اللہ ۔ بیٹے کے خیالات جان کر وہ بہت خوش ہوئے لیکن بیٹے نے یہ کیا کہہ دیا کہ وہ حسین لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے ‘ جہیز کے معاملے میں بیوی اور بہنوں کے آگے خاموش ہوجاتے تھے ‘ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ ایک دن پھر بہنوں نے بھائی کو گھیر لیا ۔
’’ ہم نے اتنی لڑکیاں بتائیں ‘ آپ کو کوئی پسند ہی نہیں آتی ‘ ہر ایک میں کچھ نہ کچھ خامی نکال کر ریجکٹ کردیتے ہیں۔ آخر کیسی حور پری کی تلاش ہے ؟ ’’ ہاں حور پری ہی چاہتا ہوں ‘ وہ مسکراکر بولا ۔ ’’ تو پھر سارہ کتنی خوبصورت ہے ‘ فاریہ اور شاکرہ ۔ یہ تو لاکھوں میں ایک ہے یہ سب آپ کی دیکھی بھالی ہیں ۔ اتنی اچھی اچھی مالدار گھرانوں کی لڑکیاں بتائیں لیکن آپ کی پسند پہ کوئی پوری نہیں اترتی‘‘ ۔ کیا کوہِ قاف کی پری آئے گی ۔’’ میں نے کہہ دیا نہ کہ مجھے صرف خوبصورت لڑکی چاہیئے ‘‘ ۔ کتنی لڑکیاں دکھائیں ‘ خاندان کی لڑکیاں بھی تو ہیں ۔ ایک بہن تنگ آکر بولی ۔ ’’ میں خود لڑکیوں کو دیکھنے کا قائل نہیں اور نہ میرا مقصد انہیں دیکھ کر ریجکٹ کرنا ہے ۔ آپ لوگ ہی خواہ مخواہ ہر لڑکی کی فوٹو دیکھنے پر مجبور کرتی ہیں ۔ رہی خاندان کی لڑکیاں ’’ وہ سب میری بہنیں ہیں ‘‘ ۔ ’’ پھر تو مشکل ہے ۔ آپ کو کوئی لڑکی سمجھ میں نہیں آتی ‘‘ ۔ ہم سب کتنا ارمان ہے ‘ آپ ایک ہی تو بھائی ہیں ہمارے ۔ اگر اور ہوتے تو ہم اپنے ارمان پورے کرلیتے ۔ پاپا بھی خاموش ہیں ‘کچھ بولتے نہیں اور بولے بھی تو آپ کی طرفداری کرتے ہیں ‘ وہ رونکھی ہوکر بولی ۔ ’’ میری پیاری بہنو ! میں تمہارا دل توڑنا نہیں چاہتا ‘ تمہاری خوشی ہی میری زندگی کا سرمایہ ہے ‘‘ ۔ ’’ پھر آپ راضی کیوں نہیں ہوتے ‘ سلیمہ آنٹی کی بیٹی سارا کتنی اسمارٹ ہے ‘ اکلوتی بیٹی ہے ‘ آپ کو پتہ ہے کہشاندار جہیز جماکے رکھا ہے ۔ نظر یں نہیں ٹھہرتی ‘ ہمارا گھر چھوٹا پڑجائے ۔ سارا کے والدین بہت دولت مند ہیں ‘ہم کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ‘ وہ خود اپنی بیٹی کو بے حساب جہیز دیں گے ‘‘ ۔ ’’ توبہ توبہ : پھر وہی جہیز ۔ میں نے کہہ دیا کہ مجھے صرف خوبصورت لڑکی چاہیئے ‘‘ ۔
راحیلہ باجی سب سے بڑی تھیں ‘ آج جمیلہ اور شکیلہ بھی مائیکے آئی ہوئی تھیں پھر سب نے بھائی کو گھیر لیا ۔ ’’ اب میں فیصلہ کر کے اٹھوں گی ‘بہت ہوچکا ۔ کتنے دن سے ہم کوشش میں لگے ہیں ‘ تم کو کوئی احساس ہی نہیں ۔ اب تمہاری کوئی ضد نہ چلے گی ‘ ہم نے کیسی کیسی حسین لڑکیوں کے بارے میں بتایا ۔ کوئی تمہارے معیار حسُن پر پوری نہیں اتری ۔ آخر کیا معیار ہے تمہارا ‘ کونسا نرالا حسن چاہتے ہو ۔بس ایک مفروضہ آئیڈیل بنالیا ۔ خاندان میں بھی اچھی لڑکیوں کی کمی نہیں‘ باہر بھی ہیں ۔ دولت مند ‘ خوبصورت ‘ پڑھی لکھی ‘ ممتاز صاحب تو بیٹی کے ساتھ کار کے علاوہ فلیٹ بھی سجا کر دیں گے اور سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ وہ تمہیں پسند کرتے ہیں ۔ قسمت سے ملتے ہیں ایسے گھرانے ۔ باجی جوش میں اکر بولتی گئیں ۔
’’ اچھا یہ بتایئے ۔ اتنا لالچ کیوں دے رہے ہیں ! کوئی تو کمزوری ہوگی ۔ ’’ اللہ نہ کرے ۔ وہ بہت دولت مند آدمی ہیں ‘ خاندانی شریف ہیں ‘ بیٹی بھی بہت حسین ہے اور تم خود کو کیا سمجھتے ہو ۔ سب سے منفرد ‘ نایاب ‘‘ دنیا میں تمہارے جوڑ کی کوئی لڑکی نہیں ۔
’’ باجی ۔ ان شریف خاندانی رئیس کو میرا مشورہ ہے کہ وہ ایسا داماد تلاش کریں جو قلاش ہو ‘ جس کے پاس سرچھپانے کو گھر نہ ہو‘ جس میں غیرت نام کی کوئی چیز نہ ہو ‘ بیوی کے لائے ہوئے جہیز کو پاکر نہال ہوجائے ۔ پھر تا عمر بیوی کی غلامی میں زندگی بسر ہو ۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے ؟ ہمارے گھر میں کس چیز کی کمی ہے ؟ ہم کیوں لڑکی کے جہیز پر اترائیں ‘ یہ تو بڑی بے غیریتی کی بات ہے اور کیا میں اتنا ناکارہ ‘ نکما ہوں کہ اپنی بیوی کو یہ سب نہیں دے سکتا ۔ کیوں اس کا احسان لوں ۔ اس طرح سے تو زندگی بھر نظریں نیچی رہیں گی ‘ کیا دولت مند اور حسین چہرے ہی اچھی اور کامیاب زندگی کی ضمانت ہوتے ہیں ؟ ۔
’’ تمہارا تو دماغ ہی خراب ہے ‘ اگر صرف خوبصورتی چاہتے ہو تو شاکرہ میں کیا برائی ہے ۔ مناسب ناک نقشہ گورا رنگ ‘ لمبے بال ‘ یہ خوبصورتی نہیں ہے تو پھر تمہاری نظر میں خوبصورتی کیا ہے ؟
’’ میرا معیار حسن الگ ہے ‘ آپ تو مادی چیزوں پر فدا ہیں ۔ آپ لڑکی کی اصل خوبصورتی نہیں دیکھتیں ؟ ‘‘ ۔’’ چلو باجی ۔ بے کار اتنی دیر تک ہم بک بک کرتے ہیں ‘ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ‘‘ ۔ ان سے بات کرنا فضول ہے ۔ دراصل یہ شادی کرنا ہی نہیں چاہتے ‘ صرف ٹال مٹول کررہے ہیں ‘ ایک بہن جل کر بولی ۔ تنگ آکر بہنوں نے امی اور پاپا کے سامنے یہ ساری باتیں رکھ دیں ‘ رضوان صاحب بیٹے کے خیالات سے کچھ کچھ واقف تھے ۔’’ پاپا اور امی کے دربار میں بیٹے کی طلبی ہوئی ‘‘ ۔ ’’ بیٹا یہ کیا ضد لگا رکھی ہے ‘ خر دماغ ہوگئے ہو ۔ اچھی اچھی لڑکیاں بتارہے ہیں ‘ کوئی تمہاری سمجھ میں نہیں آتی ۔ آخرتم چاہتے کیا ہو ؟ ماں باپ بہنوں کو ارمان ہوتا ہے گھر میں بہو آئے ‘ خوشیاں آئیں ‘ رونق ہو ‘ مگر یہ کیا بات ہوئی ‘ہر لڑکی میں کچھ نہ کچھ نقص نکالنے بیٹھ جاتے ہو ‘‘ امی کو بہت غصہ آرہا تھا ۔
’’ نہیں امی ! میں نے نقص نہیں نکالے ‘ شارق جلدی سے بولا ۔ ’’ امی یہ دنیا کی سب سے حسین لڑکی چاہتے ہیں ‘ خود کو گلفام سمجھتے ہیں ‘‘ ۔ ’’ دیکھو بیٹا ۔ سعدیہ ‘عارفہ کیسی پری چہرہ لڑکیاں ہیں ۔ اللہ رکھے جہیز کی بھی کمی نہیں ‘ گھر بھردیں گے ۔ اشارے کی دیر ہے وہ سب تیار ہیں ۔ ’’ امی ۔ اب اس سے پوچھنا ضروری نہیں ‘ ہم کسی ایک جگہ پسند کر کے رشتہ بھیج دیتے ہیں ۔ دونوں لڑکیاں دولت مند گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں ‘‘ ۔ کیا بات ہے باجی ۔ دو دو حسین لڑکیاں اور پھر مالدار پارٹی ’’ آپ کے منہ میں تو پانی بھر بھر کر آرہا ہے ‘‘ ۔ ’’ پاپا آپ ہی سمجھایئے اس کو ‘‘ ۔
’’ میں نے تم سب کی باتیں سنی ہیں اور شارق کی بھی ۔ مجھے حیرت ہے کہ تم سب حسین ‘ مالدار ‘ زیورات سے لدی ‘ سونے میں پیلی ‘ ہیرے جواہرات کی چمک دمک اور ڈھیر سارے جہیز کو اپنا معیار بنایاہواہے ۔ جبکہ شارق لاکھوں کے جہیز سے متاثر نہیں ہورہا ہے ‘ اسے صرف حسین لڑکی چاہیئے ۔ کیا آپ لوگوں نے اندازہ نہیں لگایا کہ وہ کس قسم کی خوبصورتی چاہتا ہے ۔ بلاشبہ تم سب خوبصورت اور مالدار لڑکیوں کی نشان دہی کرتی رہی ہو لیکن شارق یہی کہتا رہا کہ یہ اس کا معیار نہیں ۔ مجھے حیرت ہے کہ کسی نے اس کی بات نہیں سمجھی اور جب میں نے شارق کے الفاظ پر غور کیا تو مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہونے لگا ۔
شارق نے باپ کی طرف دیکھا اور مسکراکر گردن جھکالی ۔ رضوان صاحب بولتے رہے ۔ آج کل لوگوں کی ذہنیت یہی بن گئی ہے بہو خوبصورت بھی ہو اور ساتھ ہی ڈھیر سارا جہیز بھی لائے ‘ یا پھر دلہن معمولی شکل کی ہو لیکن بے حساب جہیز لائے تاکہ اس کے سارے عیب ڈھک جائیں لیکن میرا بیٹا لاکھوں کے جہیز ‘ مکان ‘ کار ‘ کسی چیز سے متاثر نہیں ہوتا ‘ تب ہی میرے ذہن میں آگہی ہوئی ‘ بہت غور کرنے پر اس کے انکار کی وجہ سمجھ میں آئی ۔
’’ پہلیاں نہ بجھایئے ۔ کیا وجہ تھی انکار کی ۔ امی نے پوچھا ‘‘ ۔ ’’ بتاتا ہوں ۔ مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹا حسن پرست نہیں ‘ یہ صرف حسن سیرت کا طلب گار ہے اور یہی تو وہ حسن ہے جو ہمیشہ باقی رہتا ہے ‘‘ ۔ اس نے لڑکی پسند کرلی ہے ’’ کون ہے وہ لڑکی ۔ سب نے بے تابی سے پوچھا ’’ میرے دوست کی بیٹی روشنی ۔ پاپابولے ‘‘ ۔ ’’ روشنی ۔ وہ تو کبھی کبھار ہمارے گھر آتی ہے ‘‘ سانولی ہے ‘ غریب گھر کی ۔ ہاں وہ غریب ہیں لیکن انتہائی خوددار‘ شوہر کے بعد اس کی ماں نے اس کی تعلیم پر دن رات ایک کر کے اسے گریجویشن کرایا ۔
لڑکی سانولی ضرور ہے لیکن نیک سیرت ‘ نیک اطوار ۔ میں نے اندازہ لگایا کہ ہمارے شارق کو وہ پسند ہے ‘ ایسی لڑکی ہمارے گھر آجائے تو سارا گھر روشن کردے ‘‘ ۔ سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔ ’’ کیوں میاں صاحبزادے ۔ روشنی کا نام لیتے ڈرتے تھے ؟ ۔ جی پاپا ۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر میں اس کا نام لیتا تو گھر والوں کا کیا ردعمل ہوتا ‘‘ ۔ جیتے رہو بیٹے ۔ تمہاری خوشی میں ہم خوش ۔ واقعی وہ لڑکی ہزاروں میں ایک ہے ‘‘ ’’ راحیلہ ‘ شکیلہ ‘ فریدہ جلدی مٹھائی منگواؤ اور شادی کی تیاریاں شروع کرد ‘ میرے بیٹے نے ہاں کردی ہے ۔