!ناکام نظام اِنصاف

سیاست داں کو توقع ہے کہ برعکس شہرت اور اختیارات مل جائیں تو وہ خوشامد پسند ، خود سَر اور قدرے مغرور ہوجاتا ہے۔ اقتدار اور شہرت اگر تجربے کے ساتھ آئے تو حکمراں کے فرائض بھی اعتدال پسندانہ طور پر ادا کئے جاتے ہیں۔ مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت پر قومی و بین الاقوامی تنظیمیں اور ادارہ جات نے اس خرابی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا ہے کہ نفرت کی سیاست، فرقہ پرستی کے ماحول کو گرمایا جارہا ہے۔ برطانیہ کی تقریباً تمام یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والی 20 خواتین کی اکیڈیمیوں اور تنظیموں نے وزیراعظم مودی کو مکتوب لکھ کر انہیں حکمرانی کے فرائض کی جانب توجہ دلائی ہے۔ ایک ایسے وقت جب ملک میں گوشت کھانے کے مسئلہ پر فرقہ پرستانہ ماحول کشیدہ کیا جارہا ہے، بہار کے اسمبلی انتخابات میں اپوزیشن پارٹیاں اور حکمران جماعت کی حلیف پارٹیوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہورہا ہے تو صدر کانگریس سونیا گاندھی نے بھی اپنے خیالات و احساسات کے ذریعہ مرکز کی مودی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ ملک میں جمہوریت کو درپیش خطرات کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے کانگریس کی حکمرانی میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کی وجہ سے ہی آج ملک کے رائے دہندوں کو شعوری طور پر ووٹ دینے کا موقع ملا۔ بی جے پی کو اقتدار اس جمہوریت کی مرہون منت ہے۔ اگر جمہوریت مضبوط نہ ہوتی تو بی جے پی اور اس کے سنگھ پریوار ٹولے کے منصوبے کامیاب نہیں ہوتے۔ اب جبکہ سارا ملک وزیراعظم نریندر مودی کی صفر کارکردگی اور معصوم شہریوں کے قتل کے واقعات پر غم زدہ ہے، ایسے میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کی 14 تنظیموں نے مودی کے سامنے سوال نامہ پیش کرایا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی تشدد میں اضافہ تشویشناک ہے۔ وزیراعظم مودی بھی اس سال نومبر میں برطانیہ کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس دورہ سے قبل برطانوی خواتین کی تنظیموں نے مودی کے نام جو مکتوب لکھا ہے، وہ واقعی ایک حکمراں کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کی راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ سے وابستگی بھی ایک جمہوری و سیکولر ملک کے لئے معیوب بات ہے۔ ہندوستان میں خواتین کے مسائل پر برطانوی تنظیموں کی خواتین کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں خواتین کے خلاف تشدد میں اضافہ ہورہا ہے۔ وزیراعظم کا فرض ہے کہ جنسیات پر مبنی امتیازات کو دور کرتے ہوئے خواتین کے ساتھ انصاف کیا جانا چاہئے۔ بجرنگ دل، وی ایچ پی اور دیگر سنگھ پریوار کی تنظیموں کے قائدین نے ایک سے زائد مرتبہ اس ملک کے دستور کے اصولوں کو پامال کیا ہے۔ بجرنگ دل کے ایک لیڈر بابو بجرنگی کو 2007ء میں کیمرہ میں یہ کہتے ہوئے پکڑ لیا گیا تھا کہ اس نے 2002ء میں گجرات میں عصمت ریزی اور قتل جیسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اس پر گھناؤنے جرائم کے الزامات بھی تھے لیکن وہ ضمانت حاصل کرکے مسلسل جیل کے باہر ہے۔ دیگر ملزمین کی طرح جنہوں نے 2002ء گجرات فسادات کے دوران عصمت ریزی اور قتل میں ملوث ہونے کا دعویٰ کا تھا، اب یہ تمام آزاد گھوم رہے ہیں۔ مودی کی کابینہ میں ایسے کئی وزراء ہیں جن کے خلاف عصمت ریزی قتل، اغوا اور زبردستی رقومات وصول کرنے کے الزامات ہیں۔یہ تمام وزراء اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام ملزمین کو گرفتار کرکے سزا دی جائے۔ وزیراعظم مودی نے گزشتہ سال اپریل 2014ء میں انتخابی مہم کے دوران خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے اور سیکولر ہندوستان کو مضبوط کرنے کا عہد کیا تھا لیکن گزشتہ ل16 ماہ سے فرقہ وارانہ تشدد، خواتین پر مظالم، عصمت ریزی کے واقعات سے بین الاقوامی مسئلہ بن رہے ہیں۔ برطانوی خواتین نے آر ایس ایس کو اٹلی کی فاشسٹ اور جرمنی کی نازی طرز کی پارٹیوں کا چربہ قرار دیا۔ ان کی یہ شکایت بھی غور طلب ہے کہ وزیراعظم نے خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی۔ دہلی میں عصمت ریزی کے بڑھتے واقعات اور کمسن لڑکیوں، معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے ہولناک واقعات کے بعد بھی مودی حکومت خاطیوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے اور متاثرین کے ساتھ انصاف کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پھر اس کو اقتدار پر برقرار رہنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ عوام الناس جب کسی لیڈر کو اقتدار حوالے کرتے ہیں تو اس کی کارکردگی کو جانچنا بھی ان کی ہی ذمہ داری ہے۔ اگر آئینہ میں نظر آنے والا عکس میرا نہیں ہے مان کر حکومت کی جائے تو پھر ہندوستان مسائل میں محصور ہوجائے گا اور بین الاقوامی اداروں کو مداخلت کرنے کیلئے مجبور ہونا پڑے گا۔ موجودہ نظام میں انصاف مکمل طور پر ناکام ہورہا ہے تو انصاف میں تاخیر کے باعث کافی نقصانات کا سامنا بھی عوام کو ہی کرنا پڑے گا۔