ناپاک مہندی کا استعمال

سوال : اتفاق ایسا ہوا کہ ہمارے گھر میں لڑکیاں مہندی ڈال رہی تھیں، اسی اثناء میں میرا نواسا چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ لیا اور روتے روتے مہندی کے برتن میں اپنا ہاتھ ڈال دیا اور اس سے کافی خون نکل رہا تھا تو خون کا کچھ حصہ اس مہندی میں رہ گیا ۔ ایک لڑکی نے خون کو الگ کرنے کی بجائے مہندی میں یہ کہہ کر ملادی کہ اس سے مہندی کا رنگ اور اچھا ہوگا ۔ دو تین لڑکیوں نے اس مہندی کو استعمال کیا اور آپ کو تو پتہ ہے کہ مہندی کو کھروچ کر نکال تو نہیں سکتے۔ ایسی صورت میں آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ ناپاک مہندی استعمال کرنے اور اس کا رنگ چڑھنے کے بعد وضو کیا جائے تو وضو مکمل ہوتا ہے یا نہیں ؟
عبدالوہاب،شاہ گنج
جواب : ناپاک مہندی استعمال کرلی جائے تو حکم یہ ہے کہ جس عضو پر ناپاک مہندی لگی ہے اس کو تین مرتبہ دھولیا جائے تو وہ عضو پاک ہوجاتا ہے ۔ مثلاً ہاتھ کو ناپاک مہندی لگائی گئی ، بعد ازاں تین مرتبہ اچھی طرح ہاتھ کو دھولیا جائے تو ہاتھ پاک ہوجاتا ہے ۔ اگرچہ کہ مہندی کا رنگ اور اس کا اثر باقی رہے ۔ درمختار جلد اول کتاب الطھارۃ ص 255 میں ہے : (ولا یضر بقاء اثر) کلون و رنج (لازم) فلا یکلف فی ازالتہ الی ماء حار اوصابون و نحوہ ، بل یظھر ما صبغ أو خضب ینجس بغسلہ ثلاثا والاولی غسلہ الی ان یصفہ الماء ۔ اور ردالمحتار میں اس کے تحت ہے : اعلم انہ ذکر فی المنیۃ انہ لوا دخل یدہ فی الدھن النجس او اختضبت المرأۃ بالحناء النجس او صبغ بالصبغ۔

تحتیہ الوضو
سوال : اس سے پیشتر سیاست سنڈے ایڈیشن کے سوال جواب کالم میں تحتیہ المسجد کی فضیلت سے متعلق احادیث شریفہ ذکر کی گئی تھیں۔ تحتیہ الوضو کے بارے میں بھی سنا جاتا ہے ۔ وضو کرنے کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھنی چاہئے ۔ اس کا بہت ثواب ہے ۔
کیا احادیث شریفہ میں تحتیہ الوضو اور اس کی فضیلت کا کوئی ذکر ہے یا یہ بزرگان دین کے عمل سے ثابت ہے ۔ اس کے اوقات کیا ہیں؟
محمدنثار احمد، مہدی پٹنم
جواب : تحتیہ الوضو کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مامن احد یتوضا فیحسن الوضو ء و یصلی رکعتین یقبل بقلبہ وبو جھہ علیھما الا وجبت لہ الحسنۃ۔
ترجمہ : جو کوئی وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے اور دو رکعت نماز خشوع اور خضوع سے ادا کرتا ہے تو اس کیلئے ضرور جنت واجب ہوگی۔ (امام ابود اور امام مسلم نے اس کی روایت کی ہے)
مستدرک کتاب الطھارۃ ، باب فضیلۃ تحتیہ الوضو میں حضرت عمر وبن تنبسۃ (تابعی) سے روایت ہے کہ حضرت ابو عبید نے ان سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نہیں ، دو نہیں، تین نہیں کئی مرتبہ سنا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے۔ جب بندہ مومن وضو کرتا ہے اور کلی کرتا ہے ، ناک میں پانی چڑھاتا ہے تو اس کے منہ کے اطراف سے گناہ خارج ہوجاتے ہیں اور جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ناخن سے گناہ نکل جاتے ہیں۔ جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو سر کے اطراف سے خطائیں جھڑجاتی ہیں اور اگر وہ کھڑے ہوکر دو رکعت نماز خشوع و خضوع سے ادا کرتا ہے تو وہ اپنے گناہ سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اس کو جنا ہے۔
عن عمر و بن عنبسۃ ، ان أبا عبید، قال لہ : حدثنا حدثیا سمعتہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیرۃ مرۃ ولا مرتین ولا ثلاث یقول : اذا تو ضأ العبد المومن فمضمض و استنثر خرجت الخطایا من اطراف فمہ فاذا غسل یدیہ تناثرت الخطایا من اظفارہ ، فاذ مسح براسہ تناثرت الخطایا من اطراف رأسہ ، فان قام و صلی رکعتین یقبل فیھما لقلبہ و طرفہ الی اللہ عزو جل خرج من ذنوبہ کما ولدتہ امہ ۔
(اس حدیث کی سند امام بخاری اور امام مسلم کی شر ط کے مطابق ہے)
پس تحتیہ الوضو کی دو رکعت نفل نماز پڑھنا مندوب و مستحب ہے۔ ممنوع و مکروہ (یعنی طلوع آفتاب اور اس سے قبل ، زوال آفتاب ، غروب آفتاب اور اس سے قبل یعنی عصر کے بعد) کے علاوہ کسی بھی وقت وضو کے فوری بعد دو رکعت پڑھنا مستحب ہے ۔ رد المحتار جلد اول ص 141 دارالفکر بیروت مطلب فی التمسح بمندیل میں (و صلاۃ رکعتین فی غیر وقت کراھۃ) کے تحت منقول ہے : ھی الاوقات الخمسۃ الطلوع و ماقبلہ والاستواء والغروب وما قبلہ بعد صلاۃ العصر ، و ذلک لان ترک المکروہ او لھا من فعل المندوب کما فی شرح المنیۃ۔

قول و فعل میں یکسانیت
سوال : آج کل مسلم معاشرہ میں یہ بات عام ہوتی جارہی ہے کہ لوگ جو کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے اور اس انداز میں پیش کرتے ہیںکہ وہ اپنی کہی ہوئی بات پر بہت زیادہ عمل پیرا ہیں جبکہ اسلام نے ایسی عملی منافقت سے سخت منع کیا ہے۔ اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں یگانگت پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے تو بہت بہتر ہوگا تاکہ ہماری مسلم قوم میں بیداری پیدا ہو اور وہ قول و عمل میں یکسانیت اور موافقت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
نام ندارد
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا یہ وصف نمایاں حیثیت رکھتا ہے کہ آپؐ کے قول و فعل میں مکمل یکسانیت تھی اور آپؐ نے جو کہا اسے سب سے پہلے خود کر کے دکھایا اورپھر دوسروں کو اس کا حکم دیا ۔ نماز کا حکم ملا تو سب سے پہلے آپؐ نے خود نماز پڑھی اور پھر دوسروں کو اس کی تاکید فرمائی۔ قرآن مجید کے احکام پر سب سے پہلے خود عمل کرتے اور پھر دوسروں کو دعوت عمل دیتے۔ اسی بناء پر اُم المؤمنین حضرت عائشہؓ نے آپؐ کی زندگی کو مجسم قرآن قرار دیا۔ (ابن سعد : الطبقات ‘ 364:1 )۔ قرآن کریم میں آپؐ کی طرف سے بار بار یہ اعلان دہرایا گیاہے: ان اتبع الا مایوحی الی (6 (الانعام) : 5 ) ‘ میں (خود) انہی احکام کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کئے جاتے ہیں۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین‘‘ (6 (الانعام) : 162 ) یعنی کہہ دو کہ میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور موت صرف اللہ ہی کے لئے ہے۔ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ آپؐ کے پختہ اور غیر متزلزل یقین کا اظہار ہوتاہے۔
آپؐ قرآن حکیم کی اس آیت مبارکہ کی مجسم تصویر ہیں‘ جس میں ارشاد ہے : ’’ یاایھا الذین امنوا لم تقولون مالا تفعلون ‘‘ (61 (الصف) : 2 ) ‘ یعنی اے اہل ایمان ! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔ ایک اورجگہ کہا گیا :’’ اتأمرون الناس بالبروتنسون انفسکم ‘‘ (2 (البقرۃ) : 42 ) ‘ یعنی کیا تم دوسروں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھلا دیتے ہو‘‘ آپؐ کے دشمنوں کو بھی یہ تسلیم تھا کہ آپؐ مجسمۂ عہد و وفا اور پیکر مہر و محبت ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر جب آپؐ نے اپنے پرانے دشمنوں سے جو سر جھکائے آپؐ کے فیصلے کے منتظر کھڑے تھے۔ پوچھا : تمہیں اب (مجھ) سے کیا توقع ہے ؟ سب نے کہا : ہم آپؐ سے بھلائی ہی کی توقع رکھتے ہیں‘ کیونکہ آپؐ ایک شریف النفس باپ کے شریف النفس بیٹے ہیں (الواقدی : المغازی ‘ 835:2 ) لہذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اختیار کرتے ہوئے قول و فعل میں یگانگت پیدا کریں اور قول و عمل میں تضاد سے بچیں۔

مساجد میں کرسیوں کی کثرت
سوال : ایک اہم سوال آپ کی خدمت میں ارسال ہے کہ آج کل ہماری مساجد میں روز بروز کرسیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس کی وجہ سے مصلیوں میں اختلافات بھی ہورہے ہیں۔ بعض ایسے حضرات جو خود چلکر مسجدکو آتے ہیںلیکن کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں اورنماز کے بعد اپنے دوست احباب کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر اطمینان سے گفتگو کرتے ہیں۔ وہ صبح walking کو بھی جاتے ہیں ۔ گھر کے کام کاج بھی کرتے ہیں لیکن مسجد میں آتے ہیں تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں ۔ اپنے لئے کرسی کے مقام کو متعین کرلیتے ہیں تو آپ سے دریافت طلب امر یہ ہے کہ جو حضرات قیام پر قادر ہوں اور زمین پر بیٹھ بھی سکتے ہوں۔ سجدہ بھی کرسکتے ہوں تو کیا ایسے حضرات کا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں۔ ہاں جن کو عذر ہے وہ تو معذور ہیںجن کو عذر نہیں ان کا عمل کیسا ہے ؟
محمداویس صدیقی، کرما گوڑہ
جواب : آیت قرآنی قوموا للہ قانتین (سورۃ البقرہ 238 ) (تم فرمانبرداری کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے لئے قیام کرو) سے تمام مفسرین کے اجماع کے مطابق نماز میں قیام مراد ہے اور قیام ہر اس شخص پر فرص ہے جو قیام پر قدرت رکھتا ہے۔ قیام نماز کا اہم رکن ہے ۔اس کے بغیر نماز ادا ہی نہیں ہوتی ۔ ہاں اگر کوئی شخص قیام پر تو قدرت رکھتا ہے لیکن رکوع اور سجوع پر قادر نہیں ہے تو ایسے شخص کو کھڑے یا بیٹھ کر دونوں طریقے سے نماز پڑھنے کا اختیار ہے۔ تاہم اس کا بیٹھ کر پڑھنا بہتر ہے ۔اگرچہ وہ قیام پر قدرت رکھتا ہو لیکن کوئی شخص قیام ‘ رکوع سجود پر قادر ہو ۔ بلاوجہ کرسی پر بیٹھ کر یا محض آرام کیلئے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو ایسی صورتمیں قیام کو ترک کرنے کا وجہ جوکہ فرص ہے اس کی نماز ادا ہی نہیں ہوگی۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے البحر الرائق جلد اول ص : 509 )

نکاح میں دینداری کو ترجیح
سوال : میری آپ سے درخواست ہے کہ ان مسلمانوں کو تاکید کریں جو لوگ اپنے لڑکے کی شادی کیلئے ایسی لڑکی تلاش کرتے ہیں جو مالدار ہو اور حسن سے مالا مال ہو۔
نام …
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عورت سے نکاح چار وجوہات کی بناء کیا جاتا ہے۔ (1) اس کے حسب نسب کی بناء (2) اس کے حسن و جمال کی بناء (3) اس کے مال دولت کی بناء (4) اس کی دینداری کی بناء ۔ آپ صلی اللہ علیہ وصلم نے دیندار عورت کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا تم دیندار عورت سے نکاح کر کے دین اور دنیا میں کامیاب ہوجاؤ۔ حسن و جمال ‘ مال و دولت عارضی ہیں۔ دینداری دنیا و آخرت میں کام آنے والی ہے۔

وضو میں پانی کا اسراف
سوال : ہر مسجد میں وضو کیلئے نل کا انتظام کیا گیا ہے ۔ لگاتار نل کو چالو رکھ کر وضو کرتے ہیں۔ پانی کافی ضائع ہوتا ہے جبکہ پانی زیادہ استعمال کرنا منع ہے۔ جس مسجد میں نل کا انتظام نہیں ہے وہاں پر لوٹے برتن میں پانی لیکر وضو کیا جاتا ہے ۔ شریعت میں کیا حکم ہے ؟
نام…
جواب : شریعت میں اسراف یعنی بے ضرورت، بیجا استعمال ، فضول خرچی منع ہے۔ حتی کہ وضو میں بھی اسراف پسندیدہ نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہتی دریا کے پاس بھی بیجا پانی کے استعمال کو پسند نہیں فرمایا، اس لئے نل ہو یا لوٹے برتن ہر چیز میں بقدر ضرورت پانی کے استعمال کی کوشش کرنی چاہئے۔