نئے جہان معنی کا نقیب ، معین افروزؔ

جہانگیر احساس
حیدرآباد کے شعری اُفق پر جن شعراء نے قلیل مدت میں نام کمایا ان میں معین افروزؔ کا نام نامی نمایاں حیثیت رکھتا ہے ۔ منفرد خیالات ، جدت طرازی اور جداگانہ ڈگر نے انہیں تخیلاتی دنیا سے نکال کر زندگی کے روبرو کردیا ہے ۔ ایک ایسی زندگی جس میں ہر آن مصائب و مشکلات انسان کا مقدر بن جاتے ہیں ۔ یہ مصائب و مشکلات ہی انسان کو کندن بناتے ہیں اور اگر شاعر ان حالات سے گذرتا ہے تو اس کی سوچ و فکر میں زندگی سے ہم کلامی کا ہنر آجاتا ہے ۔ بقول معین افروزؔ ۔
لاکھ موجوں کے تپھیڑوں سے ابھر جاتی ہے
زندگی کتنے مراحل سے گذر جاتی ہے
آسمان درد سے اک دن اُتر جاتی ہے یہ
زندگی بھی بادلوں جیسی بکھر جاتی ہے یہ
زندگی کیا ہے ترے راز سمجھنے کیلئے
جستجو ڈوب گئی سوچ کے دریاؤں میں
اچھی اور سچی شاعری الفاظ کا گورکھ دھندہ نہیں ہوتی بلکہ جذبے کی صداقت اس کو ایک ایسا آئینہ بنادیتی ہے جہاں ہر شخص اپنے کرب و احساس کو محسوس کرنے کے ساتھ شاعر کے خیالات بھی اس کو اپنے دکھائی دیتے ہیں ۔ گذرتے وقت کے ساتھ افروزؔ کے کلام میں خود اعتمادی کا عنصر نمایاں ہو رہا ہے ۔ ان کی شاعری کے امکانات بہت روشن ہیں ۔ خوبصورت پیرائے میں اپنی بات کہنے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے ۔ صداقت کو اپنی شاعری کی اساس گردانتے ہیں۔خیالات کی ہمہ رنگی بھی افروزؔ کے کلام کا نمایاں پہلو ہے ۔ جہاں یہ غم جاناں اور غم روزگار کے جھمیلوں سے نکل کر زندگی سے جڑے زمینی حقائق کو اوروں کی نگاہوں کے بجائے اپنی نظر سے دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں ۔
شب کے ہاتھوں میں اندھیروں کا دیا رہنے دو
صبح کے رخ پہ اجالوں کو پڑا رہنے دو
توڑ کر پنجہ ، مرے پیروں کی رستی کاٹ کر
زندگی آزاد کرکے پَر کتر جاتی ہے یہ
کسی نے آبرو خوابوں کی لوٹ لی ہوگی
اندھیری رات کے تن پر سیاہ پردہ تھا
کلام پر بے پناہ قدرت کے باعث زود گو شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں ۔ شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کرچکے ہیں مگر غزل کو عزیز جانتے ہیں ۔ غزل میں جدید خیالات کے ساتھ ان کے یہاں ہمیں قدیم روایتی اشعار بھی وافر تعداد میں مل جاتے ہیں ۔ جو ان کے وسیع الذہن اور وسیع المطالعہ کا پتہ دیتے ہیں ۔ ان کے یہاں شاعری کے تمام لوازمات موجود ہیں۔ علم عرفان کو اپنی خاص نظر سے دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کو الفاظ کا پیرہن عطا کرکے پیش کیا جائے تاکہ لوگ لفظ ’’ محبت ‘‘ کے آفاقی معنی سے روشناس ہوسکیں ۔
اپنے وجود خاص کو دیکھا کرے کوئی
میری طرح صفات کا جلوہ کرے کوئی
ان کے یہاں شاعری زندگی کا قرینہ ہے تو کبھی بے جان جسم میں حرارت کا موجب ہے ۔ بے شک انسان کے دل و دماغ میں خیالات کی وسعت اور ان کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت زندگی کی کر یہہ سچائیوں سے روبرو ہوئے بنا نہیں آتی ۔ معین افروزؔ کے کلام کو پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ اس نوجوان شاعر نے اپنے خون جگر سے صفحہ قرطاس پر حدیث دل کی تفسیر بیان کی دی ہے ۔ جس میں ان کے خلوص و محبت کو بڑا دخل حاصل ہے ۔ نمود و نمائش بیجا تکلفات کو اپنے قریب آنے نہیں دیتے ۔ اخلاق ہی ان کی زندگی کا سرمایہ ہے ایسا نہیں کہ معین افروزؔ مصائب و آلام ہی کو گلے لگاتے ہیں بلکہ مسرور کن لمحات سے بھی حظ اٹھاتے ہیں ۔ ان کی شاعری یک رخی نہیں بلکہ ہمہ رخی ہے ۔ جس میں خوبصورت تشہیبات ، استعارات ، تلمیحات اور تراکیب نے ان کی شاعری کو چار چاند لگادئے ہیں ۔ ان کے کلام پر مجھے اقبالؔ کی سوچ و فکر کا رنگ واضح نظر آتا ہے ۔ شاید انہوں نے کلام اقبالؔ کا گہرائی و گیرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہو لیکن افروزؔ نے پرانی روش کو خیرباد کہتے ہوئے جدید ڈکشن کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے جدید لفظیات سے مزین یہ اشاعر دیکھئے۔
چپکلی کی دم تڑپتی ہے یا میرا دل ہے یہ
زندگی ہم صورت بیتاب بن کر رہ گئے
یہ کس کے خیالوں کے تسلسل کی لڑی ہے
الفاظ کے جنگل میں میری سوچ کھڑی ہے
ہوگیا پاگل شعور فن مرا
وقت کی کاریگری کے سامنے
مٹی غموں کی گوندھ کے ستر ہزار سال
پیرائے میں وجود کے ڈھالا گیا تھا میں
ان کا لہجہ سلاست و روانی کے ساتھ اپنی انفرادیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ عصری مسائل کی ترجمانی کلام میں جابجا نظر آتی ہے ۔ جو انہیں زندگی سے قریب ترین کردیتی ہے ۔ مجموعی طور پر معین افروزؔ کی شاعری اردو شعر و ادب میں ایک خوش گوار اضافہ ہے ۔ جس کا ہمیں خندہ پیشانی سے استقبال کرنا چاہئے ۔ مختصر سی مدت اور اتنی کم عمری میں سوچ و فکر کے سمندر سے خیالات کے موتی کھنگال کر نکال لانا ہر کس و نا کس کے بس کی بات نہیں ۔ یہاں بھی یہ آسانی کے ساتھ کامیابی سے گذر گئے تقلید انہیں پسند نہیں ۔ جدت پسندی کے قائل ہیں ۔ شاعری تو شاعری یہ اپنے وسیع مطالعہ کے باعث تصوف ، تاریخ ، ادب و ثقافت سے جڑے مختلف موضوعات پر بھی خامہ فرمائی کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔
آخر میں دعاء گو ہوں کہ معین افروزؔیوں ہی کامیابی کے منازل طئے کرتے رہیں۔ اللہ انہیں نطر بد سے بچائے آمین !