نئی ریاست کا پہلا بجٹ میٹھی گولی

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
بجٹ کی تیاری اور اس کی پیشکشی کی کہانی پرانی ہے مگر نئی ریاست تلنگانہ کا پہلا بجٹ نئے کرداروں کے ساتھ ہمارے سامنے آیا ہے۔ جس کی صنعتی گوشوں نے ستائش کی ہے۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے سنہرے تلنگانہ خواب کو پورا کرنے کے لئے بجٹ میں جو ترجیحات رکھی گئی ہیں اس پر دیانتداری سے عمل ہوتا ہے تو سنہرے تلنگانہ کے خواب کی تعبیر دیکھنے کے لئے عوام بے تاب رہیں گے۔ ریاستی یا مرکزی بجٹ میں کچھ لوگ خامیاں نکالتے ہیں تو کچھ لوگ اسے الفاظ کا گورکھ دھندا کہتے ہیں۔ کچھ میٹھا کیپسول اور کچھ کڑوی گولی کے نام سے اسے پیش کرتے ہیں۔ اس کی حقیقت کچھ بھی ہو مگر یہ گولی تو عوام ہی کو نگلنی پڑتی ہے۔ نئی ریاست تلنگانہ کے خزانہ کے ہدایتکار نے یہ کہانی پیش کی ہے تو تلنگانہ حاصل کرنے کی جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کرنے والوں کو بہت ہی کم معاوضہ ملا ہے۔ بجٹ کی کہانی کو سننے سے اپوزیشن نے انکار کیا اور ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہوئے بی جے پی کے ارکان نے دلچسپ ریمارک کیاکہ تلنگانہ حکومت کو اپنے عوام کی بھلائی کی نہیں، اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کے لئے مجبور ہوکر بجٹ پیش کرنا پڑا ہے۔ نئی ریاست کا نیا بجٹ عوام کو راحت پہونچانے کے کام نہیں آئے گا کیوں کہ ریاست کے 90 فیصد غریب عوام ملازمت پیشہ، کسان، مزدور اور روز کی روٹی روزی کمانے والے ہوتے ہیں۔ صرف بڑی صنعتوں کو خوش کرنے کے لئے بجٹ تیار کیا جاتا ہے تو اس کا فائدہ بھی خزانچیوں کو ہی ہوتا ہے۔ نئے محصول کے بغیر بجٹ کی پیشکشی پر صنعتی و تجارتی ادارے خوش ہیں جب محصول نہیں ہوگا تو سرکاری خزانہ اور سالانہ منصوبہ جاتی مصارف کس طرح پورے کرسکیں گے۔

ریاست کے عوام کی نیندیں اُڑانے والی حکومت کو اپنا خیال اولین ہے۔ حکومت نے ہر گھر تک صاف پانی فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ نئی سڑکوں کا جال بچھایا جائے گا یعنی حکومت نے عوام کو کڑوی گولی کس طرح نگلنی ہے اس کا طریقہ بھی بتایا ہے اس کے لئے احتیاط کے طور پر یہ گولی نگلنے کے لئے شفاف پانی فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے اس کے لئے خطیر رقم رکھی ہے تاکہ عوام کے پاس جواز نہ رہے کہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کڑوی گولی نگل نہیں سکے۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ کوئی بھی اکاؤنٹ بغیر حساب کتاب کئے اور منافع کو مدنظر رکھے بغیر اپنی کوئی اسکیم یا پراجکٹ کا اعلان نہیں کرتا مگر تلنگانہ کے وزیر فینانس نے اپنے بجٹ میں بغیر حساب کتاب کئے کئی پراجکٹس اور اسکیمات کو متعارف کروایا ہے۔ اس بجٹ کا جو خمیازہ آئندہ برس کے بجٹ کو بھگتنا پڑْ گا اور عوام کو مزید کڑوی گولی کھانی پڑے گی وہ تو نگلے نہیں جاسکے۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ برس حکومت کی جانب سے آپ کو میٹھی گولی دینے کی کوشش کی جائے تاکہ آپ احتجاج کا راستہ اختیار نہ کریں۔

ویسے تلنگانہ حکومت نے لاکھوں نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اُردو، مسلمانوں اور مسلم غریب لڑکیوں کی شادی کے بارے میں جو بجٹ مختص کیا گیا ہے یہ صرف ایک سیاسی حکمت ہے۔ جس ریاست میں اُردو سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے وہاں بجٹ میں اس کا ذکر نہیں ہو تو پھر حکومت کی تعصب پسندی واضح ہوجاتی ہے۔ وزیر فینانس کا یہ بجٹ ایک لحاظ سے بہتر ہے تو کئی سطح پر خراب بھی ہے۔ اس کی خرابیاں آنے والے شب و روز اس امر کا تعین کرسکیں گے کہ تلنگانہ حکومت اپنے فیصلوں اور عمل سے تلنگانہ کو کس حد تک ترقی دے گی۔ تلنگانہ عوام کی اُمنگوں کے مطابق یا برعکس اٹھائے جانے والے اقدامات ہی سے یہ اندازہ ہوسکے گا کہ یہ حکومت اپنے وعدوں کی تکمیل پر عمل کررہی ہے یا ہوا میں باتیں کرکے عوام کی اُمیدوں کو معلق رکھ رہی ہے۔ تلنگانہ کے پہلے بجٹ کے پیش ہوتے ہی مختلف طبقہ ہائے فکر کی طرف سے شدید ردعمل سامنے نہیں آیا اس کا مطلب لوگوں کو بجٹ میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی یا لوگوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہی ترک کردیا ہے۔ اس وقت فوری خوشحالی کے خواب کی تعبیر کی اُمید نہیں کی جاسکتی البتہ تلنگانہ کی معاشی صورتحال کے مطابق اُمیدیں وابستہ کرنی چاہئے۔ تلنگانہ میں آندھرائی چنگل سے نکل کر دلدل سے بچ کر نکلنا ہے تو اب یہاں سے اسے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرتا ہے تو چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کو ہر معاملے میں چوکس و چوکنا رہنا ہوگا۔ ہر سرکاری کام ان کا دست نگر بن کر گزرے تو ہر مسئلہ کی یکسوئی میں آسانی ہوگی۔ فی الحال اُنھوں نے اپنے بجٹ کو لوگوں کی آمدنی پر ٹیکس کے ذریعہ رقم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا مگر وہ ریاست کی معیشت کو بہتر کس طرح بنائیں گے یہ غیر واضح ہیں۔ اگر تلنگانہ حکومت نے یہی طریقہ کار اختیار کیا ہو تو نہ بھیک پر خاص کر مرکز کی بھیک پر گذارا کرنے کی کوشش کی جائے

اور نہ ہی نوٹ چھاپ کر افراط زر بڑھانے کا جوکھم لیا جائے مگر جو کام ٹیکس کے ذریعہ ریاستی اُمور کو انجام دینے کا تھا اس بجٹ میں یہ بات نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ملکوںمیں لوگ ٹیکس ادا کرنے پر نہیں لڑتے بلکہ ٹیکسوں کے بے جا استعمال پر احتجاج کرتے ہیں۔ نئی ریاست تلنگانہ کا بجٹ قوی ہے اور اسے فی الحال نئے محصول عائد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تو اس سے حکومت کی کارکردگی کے مؤثر ہونے پر شبہ ضرور ہوگا۔ حکومت کی کارکردگی پر گہری نظر رکھنے والوں کو اندازہ ہے کہ چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ نے اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کے دباؤ میں آکر بجٹ پیش کیا ہے۔ عوام کو ان کی اس نیک نیتی اور اخلاص کے جذبہ کا یقین کرنا ہوگا۔ مگر عوام آخر یقین کیوں کر کریں گے کیوں کہ شہیدوں کی لاشوں پر قہقہے لگاتا ہوا یہ بجٹ تلنگانہ کے ان شہیدوں کو یاد کرنے سے قاصر ہے۔ ان کے علاوہ اقلیتوں اور اردو کے ساتھ بھی شدید ناانصافی کی گئی ہے۔ چیف منسٹر نے بعض دوستوں صنعتکاروں اور تاجروں کے خزانے محفوظ رکھنے ان کے عشرت کدے آباد رکھنے کے لئے اس بجٹ کو تیار کیا ہے۔ آندھراپردیش کے چیف منسٹر چندرابابو نائیڈو کو اس سے کس حد تک ترغیب ملے گی اور وہ اپنی ریاست کا بجٹ کس مد میں تیار کریں گے یہ انتظار طلب ہے۔ اس وقت چندرابابو نائیڈو اپنی ریاست میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کوشاں ہیں۔ بنگلور کی تمام بڑی آئی ٹی کمپنیوں کو ترغیب دے کر آندھراپردیش میں کمپنیاں قائم کرنے کے لئے کئی مراعات پیش کررہے ہیں تو اس سے پڑوسی ریاست کرناٹک کی سدارامیا حکومت کی راتوں کی نیند اُڑ گئی ہے۔ انفوسیز نے کرناٹک حکومت کی دی ہوئی اراضی کو واپس کرکے اپنی ڈپازٹ رقم کو طلب کیا ہے۔

اب کرناٹک حکومت انفوسیز کو اس کی پسند کی جگہ فراہم کرنے کے لئے کمپنی کے عہدیداروں سے مشاورت شروع کردی ہے۔ اگر چندرابابو نائیڈو اپنے ویژن کے مطابق بڑی آئی ٹی فرمس کو آندھراپردیش لانے میں کامیاب ہوں تو آندھراپردیش کا بجٹ بھی موافق عوام بنانے کی کوشش کریں گے۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت میں بھی تلگودیشم کو نمائندگی مل رہی ہے۔ مرکزی کابینہ کی توسیع میں تلگودیشم کو ایک یا دو قلمدان ملتے ہیں تو بی جے پی سے تلگودیشم کے اتحاد کا فائدہ ہوگا۔ چیف منسٹر چندرابابو نائیڈو اپنی حکومت کی کارکردگی پر دلچسپی رکھتے ہیں لیکن عوامی خدمات کے لئے ان کے اقدامات کو کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے۔ چار ماہ قبل اُنھوں نے آندھراپردیش میں غریبوں کو سستا کھانا فراہم کرنے کے لئے انا کینٹین قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب تک اس طرح کا کوئی بھی کینٹین قائم نہیں کیا جاسکا۔ 2 اکٹوبر سے انا کینٹین قائم کرنے کے پراجکٹ میں تاخیر سے غریبوں کو سستا کھانا ملنے کی اُمید موہوم ہوتے جارہی ہے۔ ان 35 کنٹینوں میں غریبوں کو ناشتہ ، دوپہر کا کھانا اور ڈنر کم تر قیمت پر فراہم کرنے کا منصوبہ ابھی وزیر سیول سپلائز کی فائیلوں میں ہی بند ہے جبکہ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کی جانب سے چلائی جانے والی کینٹینوں کی زبردست شہرت ہورہی ہے۔ 5 روپئے میں غریبوں کو سستا کھانا مل رہا ہے۔
kbaig92@gmail.com