نئی ریاست ، نئی حکومت اور نئی منزلیں

اے پی ڈائری خیراﷲ بیگ
لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں دھاندلیاں ہونے کے الزامات کے ساتھ دونوں ریاستوں تلنگانہ اور سیما آندھرا میں آئندہ ہفتہ حکومتیں تشکیل پانے والی ہیں۔ ووٹنگ بوتھوں پر عوامی مینڈیٹ کو چوری کرنے کا الزام اور الیکشن دھاندلی کا شور بھی دب چکا ہے ۔ اپوزیشن کا وجودہی نہیں کے برابر ہو تو دھاندلی کاشور بھی بے آواز ہوجاتا ہے ۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس 2 جون کو حلف لے گی ، تلگودیشم سربراہ چندرابابو نائیڈو بھی سیما آندھرا میں حلیف لیں گے ۔ مگر دونوں ریاستوں کے درمیان کئی محکموں اور اعلیٰ عہدیداروں کی تقسیم کاعمل ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ نامزد وزیراعظم نریندر مودی بھی کل حلف لینے سے قبل تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے عمل کو تیز کرنے کی ہدایت دے چکے ہیں۔

مرکزی معتمد داخلہ انیل گوسوامی سے ملاقات میں 29 ویں ریاست کی حیثیت سے تلنگانہ کے قیام پر فوری توجہ دی گئی ہے ، سیما آندھرا کے لئے نئے دارالحکومت کی تلاش اور خصوصی پیاکیج پر کام ہورہا ہے ۔ تلنگانہ کے حق میں مرکز سے کیا ملے گا اور نئی حکومت اپنی ریاست کے لئے مرکزی اسکیمات اور رقومات کو حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوگی یہ آئندہ معلوم ہوگا ۔ بی جے پی اور تلگودیشم اتحاد کے باعث سیما آندھرا میں تلگودیشم کا اثر بڑھنے اور مرکز میں این ڈی اے کے ساتھ چندرابابو نائیڈو کے تعلقات مستحکم ہونے پر سیما آندھرا کو زیادہ سے زیادہ مرکزی مراعات ملیں گی ۔ اس کے برعکس تلنگانہ میں بی جے پی کے کمزور مظاہرے اور ٹی آر ایس کے تلنگانہ علاقائی جذبات کے عوض مرکز سے کسی خاص رعایت کی امید نہیں کی جاسکتی۔ تاہم صدر ٹی آر ایس چندرشیکھر راؤ نے این ڈی اے سے بہتر تعلقات رکھنے کا ادعا کیا ہے ۔

چندرشیکھر راؤ کو نئی ریاست کے پہلے چیف منسٹر کی حیثیت سے کئی فرائض انجام دینے ہیں۔ 2 جون قریب آنے کے ساتھ ہی تلنگانہ حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر تقررات کا کام اہمیت رکھتا ہے ۔ چیف سکریٹری، ڈائرکٹر جنرل آف پولیس انٹلی جنس سربراہ اور حیدرآباد سٹی پولیس کمشنر کے تقررات کے ذریعہ ہی حکومت کی کارکردگی اور چندرشیکھر راؤ کی حکمرانی کی تصویر واضح ہوگی ۔ وشاکھاپٹنم سٹی پولیس کمشنر بی شیودھر ریڈی 1994 ء بیاچ کے آئی پی ایس آفیسر ہیں اور ضلع رنگاریڈی سے تعلق رکھتے ہیں انھیں تلنگانہ منتقل کرکے ڈی جی پی بنایا جارہا ہے تو مہندر ریڈی انٹلی جنس سربراہ کو حیدرآباد سٹی پولیس کمشنر بنایا جائے گا اور کسی بھی حکومت کا نظم و نسق اچھے عہدیداروں کی کارکردگی کا مرہون منت ہوتا ہے اور ہر چیف منسٹر اپنے پسندیدہ عہدیداروں کو ہی اہم عہدے تفویض کرتا ہے ۔ حکومت میں چیف سکریٹری کا عہدہ بھی سب سے زیادہ اہم اور نظم و نسق کو عمدہ طریقہ سے چلانے کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ چیف سکریٹری کی صلاحیتوں اور خوبیوں سے ہی حکومت کی کارکردگی کو عوام دوست بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

نئی ریاست تلنگانہ کے تمام نئے عہدیداروں سے لے کر سرکاری ملازمین کو اپنے علاقہ کی ترقی کے لئے دیانتدارانہ خدمات انجام دینی ہوں گی ۔ نئے چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ نے حکومت سازی کے لئے ابھی سے اپنا ہوم ورک پورا کرلیا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ تلنگانہ میں سرکاری نظم و نسق کو بہتر انداز سے چلانے والے اچھے عہدیدار موجود ہیں۔ چندرشیکھر راؤ نے اپنی ٹیم میں قابل افراد کو ہی شامل رکھاہے ۔ 8 ریٹائرڈ آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیداران نے پہلے ہی ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کی تھی اب یہ تمام پارٹی پولیٹ بیوریو رکن ہیں تو ان کے مشوروں اور تجاویز سے حکمرانی کی جائے گی ۔ یہ تمام قابل افراد چندرشیکھر راؤ کے تھنک ٹینک بن کر حکومت کے کاموں میں مشورہ دیں گے ۔ ریاست کی تقسیم کے لئے مختلف محکموں سے متعلق اہم ڈاٹا بھی فراہم کرنا ضروری ہے ۔ ٹی آر ایس واحد پارٹی ہے جس کے پاس ریاست کے تمام اعلیٰ عہدیدار اور قابل ذہین موجود ہیں ۔

سابق ڈی جی پی ایل راملو بھی ٹی آر ایس میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر کے وی رمنا چاری بھی ایک قابل افیسر ہیں ۔ سابق میں انھوں نے کئی محکموں میں اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ این ٹی راما راؤ کے دور میں وہ کمشنر اطلاعات و تعلقات عامہ رہ چکے ہیں۔ پرنسپل سکریٹری ہندو اوقاف کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے رمنا چاری نے ٹی آر ایس میں شامل ہونے کے بعد اہم سیاسی رول ادا کیا ہے ۔اگر انھیں حکومت میں کوئی اہم قلمدان دیا جانے والا ہے تو وہ چندرشیکھر راؤ کی چھوڑی جانے والی سیٹ حلقہ لوک سبھا میدک سے مقابلہ کریں گے ۔ چندرشیکھر راؤ گجویل اسمبلی حلقہ سے اپنی کامیاب کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت کی ذمہ داری سنبھالیں گے ۔ چندرشیکھر راؤ کی رہنمائی کرنے کیلئے جن دیگر اعلیٰ موظف عہدیدار ہیں ان میں آئی پی ایس عہدیدار جئے چندرا ، اے کے گوئل ، اے رام لکشمن ، رامچندر راؤ ، ڈاکٹر ایس چلپا، ودیا ساگر راؤ ، ریٹائرڈ چیف انجینئر سنٹرل آبی کمیشن قابل ذکر ہیں۔ اب چندرشیکھر راؤ کی ہونہار ٹیم کو نئی ریاست کے عوام کی اُمنگوں کو پورا کرنے اور اپنے وعدہ و عزائم کو بروئے کار لانے کیلئے کٹھن آزمائش سے گذرنے کیلئے تیار رہنا ہوگا ۔

انھیں مرکز میں بی جے پی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تلنگانہ کے مسائل کی یکسوئی کی کوشش کرنے میں کسی حد تک کامیابی ملے گی یہ آنے والے دنوں میں ظاہر ہوگا ۔ تلنگانہ کے حصول کیلئے گزشتہ چند برسوں سے علاقائی مسائل اور در در کی ٹھوکریں کھانے والے ٹی آر ایس سربراہ کو اہل تلنگانہ کے لئے ترقی کا وسیع مستقبل بنانے کے منصوبے تیار کرنے ہوں گے ۔ حیدرآباد کو تلنگانہ کا حصہ برقرار رکھنے کی کوشش میں بھی کامیاب ٹی آر ایس کو ڈر ہے کہ تلگودیشم کے سربراہ چندرابابو نائیڈو مرکز میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے حیدرآباد کو مرکزی زیرانتظام علاقہ قرار دینے میں کامیاب ہوں تو بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوگا ۔ آیا مودی حکومت صدر تلگودیشم کے دباؤ میں آکر حیدرآباد کو مرکز کے زیرانتظام علاقہ قرار دے سکے گی یہ 2 جون کے بعد کی رونما ہونے و الی مرکزی اور علاقائی سیاسی کیفیت سے واضح ہوگا ۔ ٹی آر ایس کو حسب وعدہ مسلمانوں کے لئے 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کی پہل کرنی ہوگی۔ مسلمانوں کے حقوق ، جان و مال کی حفاظت کرنا نئی حکومت کا فرض اولین ہونا چاہئے ۔

اب تلنگانہ ماضی کے قصے کہانیاں یا کالے قول کا باب نہیں رہا یہ علاقہ ہندوستان کے نقشہ میں 29 ویں ریاست کے طورپر ابھرا ہے تو اسے ترقی کے شعبہ میں سب سے نمایاں بنانے کی ذمہ داری نئی حکومت کے سپرد ہے ۔ اگر نئی حکومت اپنی بقا کے لئے کسی کو خوش کرنے کی پالیسی کو بھی عزیز سمجھنے لگتی ہے تو یوں سمجھئے کہ یہ خرابیوں کی شروعات ہے ۔ ٹی آر ایس نے مقامی جماعت کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جس جماعت نے تلنگانہ کی شدت سے مخالفت کی تھی اب وہ ہی ٹی آر ایس کی اولین پسند بن رہی ہے تو یہ علاقہ تلنگانہ کے محرکین کے لئے المیہ ہے ۔ مقامی جماعت کے قائدین سیاسی دوستی اور موقع پرستی کی سیاست کے لئے اپنی دلیل کے حق میں جو مثال لاتے ہیں وہ مثال انہی کی دلیل کی نفی کردیتی ہے ۔ پھر بھی ان کے رائے دہندے سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ یہ بھی محسوس نہیں کرسکے کہ ان کے قائدین نے اپنی کامیابی کا جشن مسلمانوں کے جسم پر گولیاں برساکر منایا ہے ۔ شہر کا چہرہ کشن باغ کے 3 مسلمانوں کے خون سے دھویا ہے ۔ شاید اسی لئے عوام کے سامنے اس واقعہ پر سوچنے کا وقت بھی تیزی سے گذرگیا ہے ۔ کل کو اسی طرح کا واقعہ یا واقعات ہوں تو بھی عوام اپنی اس قیادت کا دم بھرتے رہیں گے چاہے ان کے اپنے دم توڑ دیں۔ ان پریشان کن حقائق کے درمیان نئی حکومت اور اس میں مختلف وزارتیں اور مراعات کیلئے دوڑنے والے قائدین اپنے حلقوں کے رائے دہندوں کو کب یاد کریں یا کب بھول جائیں یہ ملاحظہ کرنا آپ کا کام ہے ۔ ۔
kbaig92@gmail.com