نئی حکومت میں سماجی شعبہ میں خرچ بڑھنا ہوگا

انجنا تھمپی ؍ ایشان آنند
صدر کانگریس راہول گاندھی نے دوشنبہ کو عوام سے وعدہ کیا کہ آنے والے لوک سبھا انتخابات میں انھیں ووٹ دے کر برسراقتدار لایا جاتا ہے تو اقل ترین آمدنی کی ضمانت والی اسکیم یا ’نیونتم آئے یوجنا‘ (NYAY) کو یقینی بنائیں گے۔ یہ تجویز ہندوستان میں 20% غریب ترین خاندانوں کو سالانہ 72,000 روپئے منتقل کرنے پر مبنی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ نہایت طاقتور، روایت شکن اور کافی سوچی سمجھی تجویز ہے۔ یوں تو سب کچھ بہت اچھا معلوم ہورہا ہے لیکن تفصیلات کا مشاہدہ کرنے پر حقیقت حال کا پتہ چلتا ہے۔ وقت ہی بتائے گا کہ آیا یہ محض ایک اور انتخابی وعدہ ہے یا کوئی سنجیدہ پالیسی تجویز۔ پھر بھی اس پر سنجیدگی کے ساتھ غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ عمومی بنیادی آمدنی (یا اس علحدہ شکلیں) دنیا بھر میں ماہرین معاشیات اور پالیسی سازوں کی توجہ مسلسل حاصل کررہی ہے۔
راہول گاندھی کا دعویٰ ہے کہ ’نیائے‘ ملک سے غربت کا صفایا کردے گی … یہ بلند بانگ دعویٰ ہے کیونکہ تجویز تو ملک کے صرف 20% خاندانوں سے متعلق ہے۔ یہ تو قابل افسوس اور متنازعہ خط ِ غربت سے کہیں زیادہ کمتر ہے، جس نے 2011-12ء میں شرح غربت کو تقریباً 29.5% (رنگاراجن کمیٹی) طے کیا تھا۔ 20 فیصد کی حد نہایت من مانی ہے۔ وہ خاندانوں کا کیا ہوگا جو نچلی سطح کے 20% میں نہیں آتے ہیں، مگر خستہ حال ہیں اور سطح غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں؟ علاوہ ازیں، غربت سے متعلق کوئی بھی اسکیم ان لاکھوں غریبوں کو نظرانداز کردیتی ہے جو معمولی فرق سے خط ِ غربت سے اوپر ہوتے ہیں اور انھیں بقا کیلئے سرکاری مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

مزید کئی مسائل بدستور جواب طلب ہیں۔ اہل گھرانوں کی شناخت کس طرح کی جائے گی جبکہ ہندوستان میں انکم ڈیٹا جمع نہیں کیا جاتا ہے؟ فرض کرلیں کہ ہندوستانی حکومت اس اسکیم پر عمل آوری کیلئے آمدنی کے بارے میں مواد جمع کرنا شروع کرسکتی ہے۔ لیکن یہ نہایت مشکل ہے کہ تمام افراد کا انکم ڈیٹا سالانہ اساس پر جمع کرتے رہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہندوستانی معیشت کی نوعیت ہے، جس میں تقریباً 90% آبادی غیرمنظم کام میں مشغول ہوتی ہے، جہاں تنخواہ کا کوئی باقاعدہ خاکہ نہیں ہوتا ہے۔ خودروزگار افراد، کسانوں، زرعی مزدوروں، نقل مقام کرنے والوں اور شہری علاقوں میں غیرمنظم دستی کاریگروں کی آمدنی سال بہ سال نمایاں طور پر بدلتی رہتی ہے۔ جب تک آمدنی کا ٹھیک ٹھیک ڈیٹا دستیاب نہ ہو، یہ اسکیم مسئلۂ شناخت کا شکار ہوتی رہے گی۔ رقم کی سالانہ منتقلی کیلئے آمدنی کے بارے میں تازہ ترین مواد جمع کرکے اسے ضروری کارروائی سے گزارنے کے بعد شائع کرنا پڑے گا۔ یہ سب ہندوستان میں روزگار کے موجودہ خاکہ اور اعداد و شمار کے سسٹم کی حالت کے سبب بعید الفہم ہے۔ بہت کچھ مواد جو مردم شماری 2011ء کے تحت جمع کیا گیا، وہ ہنوز جاری نہیں کیا گیا حالانکہ تقریباً ایک دہا ہوچکا ہے۔

کانگریس کا دعویٰ ہے کہ مالی اثرات کا جائزہ لیا جاچکا ہے تاکہ اس پروگرام کو قابل عمل بنایا جاسکے۔ اگر اس کا مطلب ہے کہ مالی خسارہ کو برقرار رکھا جائے گا، تب یا تو وصولیات میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہوگی، یا پھر مصارف میں کٹوتی ضروری ہوجائے گی۔ پارٹی کو صراحت کرنا چاہئے کہ یہ دونوں متبادل میں وہ کس پر اور کس طرح عمل آوری کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اگر مصارف میں کٹوتی کی جاتی ہے تو واضح کرنا پڑے گا کہ کون سے اخراجات گھٹائے جائیں گے، کیونکہ عام طور پر سب سے پہلے سماجی شعبہ کے مصارف پر ضرب لگائی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں واضح نہیں ہوتا کہ آیا NYAY سے غریبوں کو کچھ فائدہ ہوگا، کیونکہ یہ اسکیم تو دیگر سوشل سیکٹر پروگراموں کی جگہ لینے والی ہے جن سے انھیں فائدہ ہورہا ہے۔ کانگریس پارٹی کے قائدین پہلے ہی ’’مصارف میں واجبیت‘‘ کا تذکرہ کرچکے ہیں، جو اَب تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ سماجی شعبہ کے مصارف میں کٹوتی کرنے کیلئے شائستہ اصطلاح ہے! اگر ریونیو میں اضافہ کرتے ہوئے مالی وسائل پیدا کئے جاتے ہیں جیسا کہ ہونا چاہئے، تب کانگریس پارٹی کو صاف صاف عمل کرتے ہوئے ٹاپ انکم گروپ پر ٹیکس میں اضافہ کرنا اور دولت اور وراثت پر محاصل کو متعارف کرانا چاہئے۔

کیا کیا کرنا چاہئے؟
سب سے پہلے یہ اچھی بات ہے کہ ایک بڑی سیاسی طاقت نے تیزی سے بڑھتی عدم مساوات کو تسلیم کیا ہے، جو دو ہندوستان وجود میں لارہی ہے … وسائل رکھنے والے اور وسائل سے محروم ہندوستانی۔ کئی برسوں سے غریبوں کے مفادات کو بڑے کارپوریٹ گروپوں کے حق میں نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، جس کے نتیجے میں معاشی فراخدلانہ مرحلے کے بعد والے دور میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دہا 1990ء کے وسط میں ہندوستان میں صرف دو ارب پتی تھے، اور اب ایسے 131 اشخاص ہیں۔ ٹاپ 1% کے پاس 2018ء میں جملہ دولت کا 52% حصہ تھا، جس کے برخلاف نیچے سے 60% آبادی کا حصہ محض 4.7 فیصد درج کیا گیا۔ جہاں یہ مثبت علامت ہے کہ کانگریس وسائل کے حامل اور محروم لوگوں کے درمیان خلیج کو پاٹنے کا ارادہ رکھتی ہے، لیکن انھیں بڑھتی عدم مساوات کے موجب بننے میں اپنے رول کے بارے میں عکاسی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

یہ بالکلیہ لازمی امر ہے کہ معاشی پالیسی غریب ترین ہندوستانیوں پر راست توجہ مرکوز کرتی ہے، بجائے اس کے کہ ترقی کے اعداد و شمار میں ہی الجھتے ہوئے فریب میں مبتلا کرنے والے رجحان کو اُبھرنے دیا جائے۔ اگرچہ مصارفِ کھپت کے بارے میں تازہ ترین ڈیٹا دستیاب نہیں، لیکن ڈیٹا کے دیگر بھروسہ مند ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ غریب ترین افراد کی حالت نریندر مودی حکومت کے تحت مزید خراب ہوگئی۔ برسرکار غریبوں کا زیادہ تر حصہ زرعی اور غیرزرعی شعبوں میں ہاتھوں سے مزدوری کرنے والے، اور حاشیہ پر کئے گئے اور چھوٹے کسان ہیں۔ یہ طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہوں گے جب 2014ء کے بعد اُجرت میں فی الواقعی بڑھوتری تیزی سے انحطاط پذیر ہوگئی اور تب سے شاید ہی سنبھل پائی ہے۔ زراعتی پیداوار کی قیمتوں میں بھی بہت گراوٹ آئی ہے۔ ہول سیل پرائس انڈیکس (ڈبلیو پی آئی) برائے غذائی اشیاء کی شرح جولائی سے ڈسمبر 2018ء تک لگاتار چھ ماہ منفی تھی۔ یہ گزشتہ 18 سال میں غذائی قیمتوں میں بدترین انحطاط ہوا۔

ہندوستان کے غریبوں کو آج کے حالات میں آخری امید یہی ہے کہ مزید کوئی بھدی اسکیم متعارف نہ کی جائے۔ نئے طرز کی معاشی پالیسی پر عمل پیرا حکومت نے غریبوں اور مخدوش طبقات کے ذرائع معاش پر شدید حملے شروع کئے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی تفرقہ پسند سیاست سے مکمل چھٹکارہ پائیں اور موجودہ پالیسی فریم ورک کا ایسا متبادل فراہم کریں جس میں عوام کو محض ٹاپ 1% کیلئے نہیں بلکہ 99% کیلئے کارپوریٹ فوائد اور کاموں پر فوقیت دی جائے۔ ہم اس ضمن میں متبادل اقدامات تجویز کرتے ہیں۔ کوئی بھی پالیسی جو غربت اور محرومی کو گھٹانے میں سنجیدہ ہو، اس میں سوشل سیکٹر کے مصارف میں اضافہ کرنا چاہئے، بنیادی خدمات کو عمومی بنانے کی کوشش کی جائے اور دو زمرے کے لوگوں کیلئے مخصوص دفعات بنائی جائیں: وہ جو لیبر فورس (برسرکار اور کام کے متلاشی)کا حصہ ہیں، اور وہ جو اس کا حصہ نہیں ہیں (ضعیف افراد، معذورین اور دیگر مخدوش گروپ)۔ پہلے گروپ کیلئے حکومت کو چاہئے کہ روزگار کی ضمانت اسکیم کو مضبوط عطا کرنے کی سعی کریں اور اسے شہری علاقوں تک توسیع دیں۔ اسے چاہئے کہ لیبر مارکیٹ میں ضرور اقل ترین اجرتیں لاگو کی جائیں، مساوی کام کیلئے مساوی ادائیگی پر عمل کیا جائے اور ذات پات اور جنس پر مبنی امتیاز کو ختم کرے۔
جو افراد لیبر فورس کا حصہ نہیں، ان کیلئے امدادی اقدام کیا جاسکتا ہے اور ایسے گروپس کیلئے کیا جانا بھی چاہئے جیسے معمر افراد، معذورین اور تنہا جینے والی خواتین۔ مرکزی حکومت کا پیرانہ سالی وظائف کیلئے حصہ موجودہ طور پر تکلیف دہ کمتر رقم (200 روپئے ماہانہ) ہے، اور اسے بامعنی بنانے کیلئے کئی گنا بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ان خواتین کیلئے کچھ آمدنی فراہم کی جائے جو نگہداشت کا کام تنخواہ کے بغیر کرتی ہیں؛ اسے معاشی سروے 2016-17ء میں تجویز کیا گیا تھا۔ بنیادی خدمات اور روزگار کی ضمانت کو عام کرتے ہوئے، کمزور گروپوں کو معقول وظائف دیتے اور بناء تنخواہ والے کام کا اعتراف کرتے ہوئے آنے والی حکومتیں حقیقی طور پر طاقتور اور روایت شکن تجاویز پر عملدرآمد کرسکتی ہیں۔