میہول چوکسی، مفرور مجرم بینک ہی اصل مجرم : حکومت پر ذمہ داری

نمرتابیجی اہوجا
میہول چوکسی، مفرور ہیروں کا تاجر، نیرو مودی کا چچا اور گیتانجلی جیمس کا منیجنگ ڈائرکٹر ہے، اس پر الزام ہے کہ اس نے پنجاب نیشنل بینک کو 14000 کروڑ روپئے کا ’چونا‘ لگایا ہے۔زائد از ایک سال چوکسی اینٹگوا میں فروکش ہے۔ وہ وہاں پر بحیثیت شہری اینٹگوا اور باربودا میں گذشتہ جنوری سے مقیم ہے۔ ہندوستانی حکومت نے جو اسے واپس ہندوستان لانے کیلئے کوشاں ہے، مذکورہ بالا حقائق سے صریح اختلاف کیا ہے بلکہ اختلاف رکھتی ہے۔
اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں جو اس نے ہندوستانی میگزین ’’دی ویک‘‘ کو دیا تھا، کہا کہ اس پر ’’مفرور یا بھگوڑا‘‘ کا لیبل چسپاں کرنا انتہائی غلط ہے اور یہ کہ وہ ہندوستان کو واپسی کیلئے کوشاں تھا اگر اس کے ساتھ ’’منصفانہ عدالتی کارروائی‘‘ کا وعدہ کیا جائے۔ اس کے خصوصی انٹرویو کے کچھ اقتباسات ہدیۂ ناظرین ہیں :
س: ابھی آپ کہاں پر رہتے ہیں؟
آپ نے ہندوستان کو کیوں چھوڑ دیا؟
میہول چوکسی (م ۔ چ) : میں، اینٹگوا میں رہ رہا ہوں۔ میں یہاں ہندوستان سے اینٹگوا 4 جنوری 2018ء کو روانہ ہوا اور میں وہاں سے واپس ہندوستان کو 20 جنوری کو واپسی مقرر تھی۔
جب میں نیویارک میں تھا، میری صحت میں خرابی پیدا ہوئی اور میرے افراد خاندان نے بصداصرار مجھ سے کہا کہ میں یہیں پر صحت کی جانچ وغیرہ کروالوں۔ علاوہ ازیں میرے ڈاکٹر جولیناکس (ہل) ہاسپٹل سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری خون کی نالیاں بند ہوگئی ہیں جس کے علاج کیلئے انہوں نے قلب سے متعلق ٹسٹ وغیرہ شروع کئے۔ انہوں نے مجھے بحیثیت معالج انتباہی مشورہ دیا کہ علاج میں دیر کرنے کی صورت میں ’’اوپن ہارٹ سرجری‘‘ کی نوبت آ سکتی ہے۔ اسی لئے مجھے نیویارک میں زیادہ عرصہ رکنا پڑا اور انہوں نے مجھے مکمل آرام کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔
دوسری بات یہ کہ میرے ویزا کی مدت ختم ہوگئی تھی، اس لئے مجھے ’’اینٹگوا‘‘ آنا پڑا۔ یہ بات ذہن میں رکھئے کہ میں قلب کا اور اعصابی مسائل کا مریض ہوں۔ اس وجہ سے مجھے ڈاکٹرس نے سختی سے طویل مسافت والے سفر سے منع کیا ہے۔
س: آپ نے (ہندوستان کو چھوڑنے کے بعد) اینٹگوا ہی کیوں چنا۔
م ۔ چ : سال 2017ء میں، میں نے اپنے کاروبار کو امریکہ میں وسعت دیتے ہوئے اسے کیریبین (چھوٹے جزائر غرب الہند) تک پھیلانا چاہتا تھا۔ یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ میں ایک مشہور اور باضابطہ بزنسمین ہوں جو سال 1966ء سے ہیرے، جواہرات کی صنعت کو ایک نئی بلندی عطا کی ہے اور کیونکہ میرا پاسپورٹ ہندوستانی ہے اور ویزا لگنے کیلئے لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس لئے میں نے اینٹگوا میں موجود پیشکش سے استفادہ کرنے کیلئے جنوری 2017ء میں وہاں کی شہریت کیلئے درخواست دی تھی جو اسی سال اکٹوبر میں منظور ہوگئی۔ میہول چوکسی نے یہ وضاحت کی کہ اینٹگوا کو چننے کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو 130 ممالک کو مفت سفر کی اجازت دیتا ہے۔
بعدازاں میں نے اینٹگوا کو شہریت کا حلف لینے 14 جنوری 2018ء کو نصف یوم کیلئے سفر کیا۔یہاں اس حقیقت کی وضاحت میں کرنا چاہتا ہوں کہ سی بی آئی کی جانب سے 31 جنوری 2018ء کو کیس رجسٹر کیا گیا جبکہ میں نے اینٹگوا کی شہریت کیلئے اس سے کافی پہلے درخواست دے چکا تھا۔ اس طرح دونوں تذکرہ شدہ باتیں ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتیں اور چسپاں نہیں کی جاسکتیں اور اینٹگوا میں میں (میہول چوکسی) جولائی 2018ء سے سکونت پذیر ہوں۔
س : کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے؟ اور آپ اپنے آپ کو نیرو مودی سے کیسے مربوط کریں گے؟۔
م ۔ چ : سی بی آئی نے نیرو (مودی) کیس میں پہلی ’ایف آئی آر‘ درج کرائی تھی، انہوں نے اس میں میرا نام شامل کردیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ میں نیرو مودی کی تین کمپنیوں ڈائمنڈ آر یو ایس، سولار ایکسپورٹس اور اسٹیلار ڈائمنڈس میں پارٹنرس تھے۔
جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ میں صرف پہلی کمپنی بنام ’’ڈائمنڈ آر یو ایس‘‘ کا پارٹنر تھا جس سے میں نے طویل عرصہ قبل اس سے مستعفی ہوگیا تھا۔
میں نے اس بات کا ادراک کیا کہ میرا نام ’’کے وائی سی (اپنے گاہک کو جانئیے) کے تحت بینک کو دیا گیا تھا۔ میرا، نیرو مودی کی دیگر دو کمپنیوں سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس بارے میں میں نے سی بی آئی اور سیبی کو مطلع کیا تھا۔ تاہم میری عرضی کی سماعت سے پہلے ہی بینکس نے میرے رقمی اثاثے منجمد کردیئے اور اس کیلئے انہوں نے ایف آئی آر کا حوالہ دیا۔
بعدازاں میں نے 13 فبروری کو پنجاب نیشنل بینک سے رجوع ہوا۔ وہ میرے معاملہ کا فیصلہ کرنے پر بھی راضی ہوگئے تھے تاہم اسی دن اچانک انہوں نے (بی این بی) نے پولیس میں شکایت درج کروائی اور ایک نئی ایف آئی آر 15 فروری کو درج کروائی۔
ایف آئی آر کے درج ہونے سے کافی پہلے کئی مرتبہ میرے اثاثے منجمد کئے گئے اور انہوں نے اپنی غلطیوں کی پردہ پوشی کیلئے سارا الزام میرے سر ڈال دیا ۔ میری طرف سے کوئی بھی غلطی، بینک کو ادائیگی کے معاملہ میں نہیں آئی تو پھر وہ (بینک) کیسے میرے خلاف ایف آئی آر درج کرواسکتے ہیں؟
اصل بات یہ ہے کہ انہوں (بینکس) نے تحقیقاتی ایجنسیوں کو گمراہ کیا ہے۔ میری مشہور اور باضابطہ کمپنی کو بغیر کسی وجوہ کے 3 تا 4 دنوں میں بند کردی۔ اس طرح کسی بھی ملک میں نہیںہوتا۔
آپ کو بتادوں کہ نیرو (مودی) میرا بھتیجہ ہے اور وہ 1992ء تا 1998ء میرے زیرتربیت رہا ہے۔ ہم نے اپنی راہیں کچھ شخصی وجوہات کی بناء پر الگ کرلی تھیں جو میں افشا کرنا نہیں چاہتا۔
س : آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کو ’ہدف‘ (بلی کا بکرا) کیوں بنایا گیا ہے۔
م ۔ چ : اس لئے کہ میں ایک نامور بزنسمین ہوں اور دو مرتبہ ایف آئی سی سی آئی جیمس اینڈ جیولری کمیٹی کا چیرمین رہ چکا ہوں۔ مجھے اچانک ہی ’’رشوت کا اشتہاری مجرم‘‘ بنادیا گیا۔ علاوہ ازیں برسراقتدار سیاسی پارٹی (بی جے پی) اور حزب اختلاف (اپوزیشن) میرا نام اپنے سیاسی مفادات کیلئے غلط استعمال کررہے ہیں۔ مجھ پر رشوت کا جھوٹا الزام وہ کیسے لگا سکتے ہیں جبکہ میں اس منسوبہ الزام سے اپنی برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ اس جھوٹے الزام اور کارروائی کی وجہ سے 6 ہزار افراد بیک وقت بیروزگار ہوگئے۔ میرا کاروبار، اسٹاک سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا۔
میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ان (بینک) کی بات سچی ہے تو میں نے ’فراڈ‘ کیا ہے تو جب یہ فراڈ کیا گیا تو کیا وہ (بینک) سو رہے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ کوئی فراڈ نہیں ہوا یا ڈیفالٹ کچھ بھی عمل میں نہیں آیا اور یہ (خودساختہ) ’’ڈیفالٹ‘‘ سب کچھ اچانک 7 فروری کو وجود میں آیا جوکہ ایف آئی آر کی وجہ سے ہوا ہے۔ آج تک کی تاریخ میں میرا تمام بزنس بند ہوچکا ہے اور میری قلاشی کی نوبت آ گئی ہے۔
میرے تمام امریکن آپریشنس مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں، کئی اشیاء اور جائیدادیں ضبط کی جاچکی ہیں۔
آپ کو بتادوں کہ میرے زائد از 400 کروڑ روپئے کے اثاثہ جات ایف آئی آر کے درج ہونے سے پہلے ہی ضبط کئے جاچکے تھے۔ میری شکایت کی سنوائی کرنے والا کوئی بھی نہیں۔
س : ان سب مسائل کیلئے آپ کس کو ذمہ دار مانتے ہیں؟
م ۔ چ : ان سب کیلئے بینکس ذمہ دار ہیں جنہوں نے غلط معلومات فراہم کیں اور اپنی غلطی کو انہوں نے چھپا لیا۔ بینکس نے تمام معلومات کو ’’مرکزی ڈاٹا‘‘ میں داخل نہیں کیا۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اتنی بڑی خطیر رقم بینک بغیر کسی باضابطہ وتوثیق کے جاری کرسکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ بینک میں کم از کم 250 افراد کام کرتے ہیں۔
بینک کی کارکردگی کی کھلی ناکامی کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے۔
پنجاب نیشنل بینک، ریاستی حکومت سے تعلق رکھتا ہے جس پر خودبخود یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ریاستی حکومت اس بینک کے خلاف کارروائی کرے۔
آخر حکومت نے اس بینک کے خلاف کارروائی نہ کرکے اپنے کسٹمر کو کیوں ’’قربانی کا بکرا‘‘ بنا رہا ہے۔ آپ کو واضح کردوں کہ بینک اصل مجرم ہے اور ریاستی حکومت جو اس بینک کو اپنے احکامات کے تحت رکھتی ہے اس کیلئے (بینک کی ناکام و ناکارہ کارکردگی کیلئے) حکومت اصل ذمہ دار ہے۔
س : کیا آپ قانونی کارروائی کا سامنے کرنے کیلئے ہندوستان واپس آئیں گے؟
م ۔ چ: کون نہیں چاہتا کہ ہندوستان کو واپس آئے؟ تاہم جس طرح (میرے غیاب میں) میرے ساتھ جو سلوک کیا گیا مجھے وہاں پہنچنے کے بعد کچھ اچھا ہونے کی اُمید موہوم ہے جو میرے لئے اور میرے افراد خاندان کے لئے نہایت خوفناک ثابت ہوا ہے۔
کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ میرے ساتھ منصفانہ معاملہ ہوگا اور کارروائی ہوگی؟اپنے ذہن میں لائیں کہ ٹیلی ویژن پر ہر تیسری سطر میں مجھے ’’مفرور‘‘ بتایا جاتا ہے۔ اس ’’مفرور‘‘ کے لیبل سے نجات کیلئے میں اپنی صحت یابی کا انتظار کررہا ہوں کہ میں ہندوستان کو سفر کرسکوں۔
س : اینٹگوا میں آپ کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟
م ۔ چ : یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے اور یقینا یہاں کے شہری اس بارے میں جانتے ہوں گے۔ میں کچھ اچھا محسوس نہیں کررہا ہوں۔ میرا پورا وقت وکلاء (Lawyers) سے گفت و شنید، رائے مشورہ میں گزر جاتا ہے یا پھر اپنی صحت یابی کے مسائل سے نبرد آزما رہتا ہوں۔ یہ یاد رکھئے کہ میں 60 سال کا ہوگیا ہوں۔ اور ہندوستانی حکومت روز بروز میرے خلاف نئے کیس اندراج کرتی ہے۔ اس وجہ سے میرا پورا خاندان متاثر ہوچکا ہے اور مَیں بُری طرح پریشان ہوکر رہ گیا ہوں۔
س : کیا آپ اب ہندوستانی شہری نہیں رہے؟
م ۔ چ : ہندوستانی قانون کے تحت اگر آپ کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ رکھنے والے بن جائیں تو آپ کو بطورِ ’’ہندوستانی‘‘ ہونے کا حق باقی نہیں رہتا۔ قبل ازیں، مَیں نے سوچا تھا کہ ہندوستانی حکام میرا پاسپورٹ بحال کردیں گے، تاہم ایسا ممکن نہ ہوسکا اور انھوں (ہندوستانی حکام) نے صریح انکار کردیا کہ میں دوسرے ملک کا پاسپورٹ رکھتا ہوں۔
س : ہندوستانی حکومت، اینٹگوا حکومت سے مشاورت کرتے ہوئے آپ کو واپس لانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
م ۔ چ : ازروئے قانون، جو کچھ بھی ممکن ہوسکے، مَیں (میہول چوکسی) ہندوستانی حکومت سے ہر طرح کا تعاون کرنے تیار ہوں۔