میر انیسؔ کا ایک استعارہ

پروفیسر سیدہ جعفر
’’المجاز ابلغ من الحقیقتہ‘‘ کی معنویت ، تہہ داری اور نکتہ رسی کا اندازہ کرنا ہو تو انیس کے رثائیہ کلام میں پیکر تراشی ، امیجری اور رزمیہ کرداروں کی پیشکشی کے مرقعے ہماری رہبری کرسکتے ہیں ۔ انیس کے مرثیے تشبیہات و استعارات اور صنائع بدائع کی وجہ سے بھی ابلاغ و ترسیل کے جوہروں سے آراستہ ہوگئے ہیں ۔ صنعت تضاد ، عکس ، مراعاۃ النظیر ، ردالعجز الصدر ، سیاق الاعداد اور لف و نشر وغیرہ کا برجستہ اور دلآویز استعمال انیس کے شخصی لب و لہجے اور ذاتی آہنگ کا وصف بن گئے ہیں ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انیس کے استعاراتی نظام کی اساس کیا تھی ؟ کلام پاک کے رموز سے آشنائی کی کوشش ، محمدی تعلیماتی سے ذہنی اور جذباتی وابستگی اور اہلبیت سے والہانہ عقیدت ان کی سائیکی میں جذب ہوچکی تھی ۔ گھریلو ماحول اور بزرگوں کی تربیت کے تناظر میں لکھنؤ کی مجلسی تہذیب کے نقوش ، شخصیت کی صورت گری کا اہم محرک بن گئے تھے ۔

یہ اودھ کا وہ کلچر تھا جو ہندوستان کی گنگا جمنی روایات اور مشترکہ تمدن کے رجحانات کا تخلیق کردہ سماجی مظہر تھا ۔ ایم اے میں میرے ہندی کے ایک استاد محترم پروفیسر کمار کھنڈیلوال جی بھی تھے جن کی وجاہت کی بنا پر لڑکے انھیں روپ کمار کھنڈیلوال جی سے موسوم کرتے تھے ۔ ان کا تعلق لکھنؤ سے تھا وہ کہا کرتے تھے کہ ’’محرم کا چاند دیکھ کر میری ماں تعزیہ بٹھاتی ہے‘‘ یہ تہذیبی Ethos اور ثقافتی Epistemic کا رچاؤ ، مراثی انیس کا جز بن گیا ۔ انیس اور دبیر حسینؓ کو کسی خاص طبقے سے مخصوص کرکے محدود نہیں کردینا چاہتے تھے ۔ وہ حسینؓ کے پیام کی ہمہ گیری ، آفاقیت اور عالمگیر اثر آفرینی اور معنویت کے قائل تھے ۔ ان شعراء کے قلب پر یہ رمز منکشف ہوچکا تھا کہ کیوں حسینؓ محبوب خدا کے محبوب ہیں اور ان کی ذات تحدیدوں اور بندشوں اور تعینات کی قدغنوں سے ماورا ہے ۔ انیس کے دو مخصوص استعارے ماہ اور دریا ہیں اور ان دونوں کا وجود کائنات میں اپنی مخصوص شناخت کا حامل ہے اور یہ استعارے آفاقی اور کائناتی پس منظر میں ابھرتے ہیں ۔ گارڈن مرفی (Garden Murphy) کے نقطہ نظر سے ادبی زبان کی پہچان یہ ہے کہ اس کی نوعیت علامتی اور استعاراتی ہوتی ہے اور وہ براہ راست طرز اظہار کی متحمل نہیں ہوتی ۔

علامت اور استعارہ ایک طرح کا اشارہ ہے جو ہم اشیاء اور کیفیت کے لئے مقرر کرلیتے ہیں جس کے پیچھے یہ نفسیاتی نکتہ بھی پوشیدہ ہوتا ہے کہ ثقلیل ریاضت کی خاطر اور سہل پسندی کی بنا پر غیر محدود کو محدود کرکے افکار و تصورات کو ارتکاز اور شدت عطا کی جائے ۔ شعریات میں استعارے کے پیچھے یہ تصور کام کرتا رہتا ہے کہ جب کسی موصوف کے لئے کوئی صفت ثابت کرنا ہو تو اس کو ایک ایسی شئے سے نسبت دی جاتی ہے جس میں وہی خصوصیات واضح طور پر اپنی مکمل صورت میں موجود ہوں ۔ دوسرے یہ کہ استعارے میں کم الفاظ کے ذریعے وسیع مطالب کی ترجمانی کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ استعارہ علمی اصطلاح میں ایک مجازی پیکر ہے ۔ یہ دو مختلف اشیاء میں وجہ اشتراک کو واضح نہ کرتے ہوئے بھی ان کی مشابہت میں قطعیت کے اظہار کی ایک بلیغ کوشش ہے ۔ مخصوص علامتوں اور استعاروں کی تکرار کے پیچھے ثقافتی ورثے کے مختلف عناصر سرگرم عمل رہتے ہیں ۔ فریزر (Frazer) کے تخلیقی عمل کی بنیاد میں اجتماعی لاشعور (آر کی نائپ) کی اثر آفرینی کا بھی ذکر کیا ہے اور علائم اور استعاروں کی اہمیت ظاہر کی ہے ۔ نظم نگار کے کلام میں (جس میں مرثیہ بھی شامل ہے) استعاراتی نظام اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں نظم کا بنیادی تاثر سمٹ آتا ہے اور اس کا تجزیہ کرکے تخلیقی سرچشموں اور تخلیقی جہات کی بازیافت میں مدد دیتا ہے ۔

مراثی انیس میں ’’ماہ‘‘ کے استعارے کی تکرار نظر آتی ہے جو محض اتفاقی امر نہیں معلوم ہوتا ۔ میر انیس کے استعاراتی نظام پر ان کے مخصوص معتقدات کا تاثر کارفرما ہے ۔ اجرام فلکی میں شمس وقمر دونوں روشن اور تاباں ہیں ۔ ظلمت کے مقابلے میں نور اور سیاہ کے مقابلے میں سفید انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے حق و باطل سے متعلق تصورات کی نمائندگی کے لئے مخصوص رہا ہے ۔ ماہ یا قمر تاریکی میں اپنی ضیا پاشی سے ظلمت کو مٹادیتا اور اندھیرے سے نبرد آزما ہو کر کائنات کو روشن کردیتاہے ۔ قرآن مجید میں نور کے ذکر سے میر انیس بخوبی واقف تھے ۔ ان آیتوں کی رمزیت کا عرفان انیس نے اپنے عقائد کی روشنی میں حاصل کیا تھا جن میں نور کی طرف بلیغ اشارے کئے گئے ہیں مثلاً ۔
۱ ۔ قدجاء کم من اللہ نور و کتاب مبین (مائدہ ۵ ، آیت ۱۵)
۲ ۔ یھدی اللہ لنورہ من یشاء (نور ۔ ۲۴ ۔ آیت ۳۵)
۳ ۔ ماکنت ما الکتاب والایمان ولکن جعلناہ نوراً نھدی بہ من نشآء من عبادنا (شوریٰ ۴۱ ، آیت ۵۲)
۴ ۔ ویجعل لکم نوراً تمشون بہ (حدید ۔ آیت ۲۸)

اس قرآنی پس منظر میں انیس کے استعارے ماہ کی بلاغت واضح ہوجاتی ہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انیس نور و ظلمت کے استعاروں میں حسینؓ کی عظمت کا اظہار کرنا چاہتے تھے تو پھر اجرام فلکی میں مہر درخشاں ، روشنی کا منبع کمال ہے ۔ حسینؓ کو انیس نے ماہ کامل ، قمر فاطمہ ، خیرالنساء کا ماہ وغیرہ اس لئے کہا کہ ختمی مرتبت کو ’’شمس الضحیٰ‘‘ کہا گیا ہے اور اسی کی مناسبت سے ان کے نواسے اور پارہ جگر کو بدرالدجی کہا گیا ہے جس میں یہ معنویت بھی پوشیدہ تھی کہ چاند سورج سے روشنی اخذ کرتا اور کسب نور کرتا ہے ۔ میر انیس کہتے ہیں :
نکلا یہ نور ، نور رسالت مآبؐ سے
جس طرح کوئی عطر نکالے گلاب سے
قرآن میں اکثر جگہ شمس و قمر کا ذکر ہے ۔ چاند کے لئے متعدد جگہ نور ہی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ عمار علی اپنی تفسیر ’’عمدۃ البیان‘‘ میں سورہ یوسف کے ضمن میں لکھتے ہیں ’’ضیا آفتاب کا نام ہے اور نور چاند کا‘‘ (صفحہ 86 ، مطبع یوسفی ، دہلی 1323ھ) انیس نے شمس و قمر کی رعایت ملحوظ رکھتے ہوئے حسینؓ کے لئے قمر اور نبی کریمﷺ کے لئے شمس کا استعارہ اکثر جگہ استعمال کیا ہے :
شمس الضحیٰ نبیؐ ہیں تو بدرالدجیٰ ہوں میں
قرآں گواہ ہے کہ زبان خدا ہوں میں
کس حسن سے وہ زانوؤں پر جلوہ نما تھے
تھے شمس الضحیٰ آپ تو وہ بدرالدجیٰ تھے
دوڑے یہ بات سن کے برابر وہ خوش سیر
پاس آئے آفتاب رسالت کے دو قمر

شمس و قمر کی پہچان ان کی ضیا اور نورانی کیفیت سے ہے ۔ میر انیس نے ماہ کے استعارے کو اپنے مرثیوں میں اس طرح برتا ہے کہ اس کے مناسبات اور متعلقات بھی اپنی معنی آفرینی کے ساتھ ابھر آتے ہیں ۔ شاعر مراعاۃ النظیر کے سہارے اس بنیادی استعارے سے قریبی تعلق رکھنے والے نقوش کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اجاگر کرتا ہے ۔ چاند کے ساتھ انجم ، ہالہ ، زہر اور کہکشاں وغیرہ کی مناسب سے انیس نے اپنے مرثیوں میں ایک خاص فضا کی تشکیل و تعمیر میں مدد لی ہے :
یہ سب وہ بشر ہیں جو بنے نور خدا سے
ہے عرش بھی روشن انہی تاروں کی ضیا سے
پیشانی پرنور سے ہے ان میں اجالا
رو و خط و رخسار ہیں مہتاب میں ہالا
گویا ورق ماہ پہ ہے مہر کا مہرا
دیکھو سر خورشید وہ طالع ہوا زہرا
یہ بیانات دور انیس کے سامعین کے ادبی مذاق سے پوری طرح ہم آہنگ تھے اور ان کے لئے لطف و دلبستگی کا سامان فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ یہاں انیس اپنے فن کو ہمعصر ادبی رجحانات کے معیار سے ہم آہنگ کرکے سننے والوں کے لئے تلذذ اور ذہنی ضیافت کا اہتمام کرتے نظر آتے ہیں ۔
’’پوئٹک پروگریس‘‘ (Poetic Progress) کے مصنف جارج وہیلری (Goerge Whallary) استعارے کو حسن اور تصور آفرینی کی بنیاد قرار دیتا ہے اور کہتا ہے ’’استعارہ ان افکار و تصورات اور احساسات کے اظہار کا ذریعہ ہے جنھیں منطقی زبان ادا کرنے سے قاصر رہتی ہے‘‘ ۔ میر انیس کے مراثی میں استعارے کی یہ حیثیت بخوبی اجاگر ہوتی ہے ۔

ایران کے مشہور نقاد ذبیح اللہ صفا نے ’’حماسہ سرائی درایران‘‘ کے مقدمے میں جہاں حماسہ طبیعی (Primitive Epic) اور حماسہ مصنوع (Epic of Art) کی امتیازی خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے وہیں انھوں نے موخر الذکر کے لئے رزمیہ لوازم کے برمحل استعمال پر زور دیا ہے ۔ مرثیہ دراصل اپنے صنفی وجود کے اعتبار سے مکمل طور پر رزمیہ نہیں لیکن اس میں رزمیہ عناصر کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ رجز جنگ میں سورما کا وہ پرجوش اور ولولہ انگیز تعارف ہوتا ہے جو حسب و نسب کے فضائل اور شخصی خوبیوں کے ذکر پر مبنی ہو ۔ انیس کے ہیرو حسینؓ ہر اعتبار سے مکمل شخصیت ہیں ۔ مراثی انیس کے رزمیہ حصوں کے رجزیہ محاکمات اسی تصور نور کے محور پر متحرک نظر آتے ہیں اور ان کے یہ تصور سے کہ ’’یہ وہ حسینؓ ہے کہ جو ہے نور مشرقین‘‘ پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں … یہ اشعار ملاحظہ ہوں :

ہم نور ہیں گھر طور تجلی ہے ہمارا
تختِ بن داؤد مصلی ہے ہمارا
قرآن میں کون نور سماوات و ارض ہے
طاعت وہ کس کی ہے جو زمانے پر فرض ہے
میں نور ہوں میں خلق ہوں قرآن مبیں ہوں
میں کعبۂ اسلام ہوں قبلۂ دین ہوں
میں ہوں انگشتر پیغمبر خاتم کا نگیں
مجھ سے روشن ہے فلک مجھ سے منور ہے زمیں
ابھی نظروں سے نہاں نور جو میرا ہوجائے
محفل عالم امکاں میں اندھیرا ہوجائے
روشن ہمارے نور سے ہے شاہراہ دیں
دنیا میں ہم ہیں تاج سرعز و جاہ دیں
انیس کے مرثیوں میں ماہ کا استعارہ پھیل کر تمام ناصران حسینؓ کا احاطہ کرلیتا ہے کیوں کہ وہ حسینؓ کے شریک کار اور اپنی اختصاصی خوبیوں میں ان سے مشابہ تھے ۔ انیس کہتے ہیں :

گردوں پہ کس طرح مہ و اختر نہ ماند ہوں
اک چاند کے شریک جہاں چار چاند ہوں
میر انیس نے اس استعارے کے پھیلاؤ میں صنعت تضاد یا طباق سے بھی مدد لی ہے اور چوں کہ اس کا سب سے اہم کردار حق و باطل اور نور و ظلمت کی جنگ میں نبرد آزما تھا اس لئے ماہ کے استعارے کے ساتھ بدلی ، گھٹا ، ہالہ اور ظلمت جیسے الفاظ بکثرت استعمال کئے گئے ہیں ۔ ایک جامع استعارے میں مستعار منہ اپنی ضد کی نفی بھی کرتا ہے کیوں کہ کسی شے کی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے اس کے منافی تصور کو ابھارنا بھی ضروری ہوجاتا ہے ۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں :

آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے
ظلم کی چاند پہ زہرا کے گھٹا چھائی ہے
لڑتا ہوا اعدا سے وہ صفدر نکل آیا
بادل کو ہٹا کر مہ انور نکل آیا
ساحل سے نکلتا تھا کہ پھر چلنے لگے تیر
اس چاند پہ بدلی کی طرح چھاگئے بے پیر
انیس نے اپنی مرثیہ نگاری کو نور کی تصویر کشی سے تعبیر کرتے ہوئے ایک مرثیے کے آغاز میں اپنے فن کو نور کی تصویر کشی سے تعبیر کیا ہے اور اپنی مرثیہ نگاری کی غرض و غایت کی طرف اس طرح اشارہ کیا ہے :
اے ذہنِ رسا نظم کی توقیر دکھادے
اے حسن بیان نور کی تصویر دکھادے
انیس نے اپنے مرثیوں میں اپنی سراپا نگاری کے بارے میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ان کا مقصد نور کے مرقعوں کی پیشکشی ہے ، ان کی توضیحات کا لب لباب ایسے بیانات کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے :

منہ دیکھے جس کو نور کا سورہ نہ یاد ہو
تاریک شب میں پڑھ لے جو روشن سواد ہو
یا
اک نور مجسم ہے زہے حشمت و اجلال
سب عضو بدن نور کے سانچے میں ڈھلے ہیں
ڈھالا ہے انھیں نور کے سانچے میں خدا نے

میر انیس کا استعارہ ’’ماہ‘‘ ان کا مرغوب اور پسندیدہ استعارہ ہے جو ان کے عقائد کی ترجمانی بھی کرتا ہے اور ان کے ابلاغ و ترسیل کے وسیلوں کو حسن ادا سے متصف کرکے انھیں جاذبیت اور معنویت بھی عطا کرتا ہے۔ انیس نے ایک باشعور فن کار کی طرح موضوع کو پس پشت نہیں ڈالا۔ تاہم ان کے کلام میں صنائع بدائع اور علم بدیع و علم بیان کے محاسن کا ایک قابل لحاظ ذخیرہ موجود ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انیس نے اس معاملے میں اپنے عہد کے سماجی اور ادبی تقاضوں سے سمجھوتہ کرلیا تھا کیوں کہ اپنی طباعی و ذہانت اور شاعرانہ کمال کا ثبوت دینے کے لئے ان علمی اور شعری معیاروں کو پیش نظر رکھنا ضروری تھا جو اس دور کے ادبی مزاج کی پہچان بن گئے تھے ۔ تخلیق کار کی حیثیت سے انیس شعریات میں تخیل کی لالہ کاری ، صوری حسن اور سحر طرازی کے منکر نہیں تھے اگرچہ کہ ان کی دانست میں یہی سب کچھ نہیں تھے ۔ انیس کی تشبیہات اپنی طلسم آفرینی ، معنویت ، صوری جاذبیت کی وجہ سے پوری اردو شاعری میں بے مثل اور منفرد ہیں اور یہ ان کی استادانہ حیثیت کو مستحکم کرتی ہیں ۔ ’’نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری‘‘ کے ابتدائی بند یہ ثابت کرتے ہیں کہ انیس ’’دبدبہ‘‘ و مصائب کے ساتھ ’’توصیف‘‘ اور ’’رقت‘‘ کے ساتھ ’’تعریف‘‘ کے التزام کو ضروری خیال کرتے ہیں ۔ انیس کے استعاراتی نظام کے تجزیے سے مراثی انیس کی تفہیم و تحسین اور مطالعے کا ایک نیا زاویہ سامنے آتا ہے۔